صوبہ سندھ کو وفاق سے کیا شکایات ہیں؟

ملک کے کل ٹیکسز کا 70 فیصد صرف سندھ سے اکھٹا کیا جاتا ہے اور سندھ کو وفاق 70 فیصد ٹیکس کے جواب میں صرف 12 یا 13 فیصد فنڈز بجٹ کی مد میں واپس دیتا ہے۔

پاکستانی حکام بجٹ کی کاپیاں پارلیمنٹ لانے والی گاڑی کے ساتھ موجود ہیں جہاں بجٹ پیش کیا جاتا ہے۔ (اے ایف پی فائل)

وفاقی بجٹ سے قبل حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور اس کی مخالف جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی سندھ حکومت کے درمیان فنڈز  کی تقسیم پر ایک بار پھر تنازعہ پیدا ہوگیا ہے۔ 

حالیہ دنوں میں قومی اقتصادی کونسل (سی ای سی) کے اجلاس سے پہلے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے وزیراعظم عمران خان کو ایک خط لکھ کر وفاق کی جانب سے صوبہ سندھ کے ترقیاتی منصوبوں کے فنڈز میں مسلسل کٹوتیاں کرنے کا شکوہ کیا ہے۔

انہوں نے خط میں لکھا کہ گذشتہ سات سالوں کے دوران سندھ کی 27 ترقیاتی سکیموں کو کم کرکے چھ کر دیا گیا ہے اور ان سکیموں کی رقم بھی 27 ارب روپے سے کم کر کے پانچ ارب کر دی گئی ہے۔ 

وزیراعلیٰ سندھ کے شکایاتی خط کے ردعمل میں وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر نے میڈیا بریفنگ کے دوران کہا کہ پیپلزپارٹی قوم پرستی کا کارڈ کھیل رہی ہے۔ وفاق نے تین سال میں سندھ کے منصوبوں کے لیے ماضی کے مقابلے میں 32 فیصد زیادہ رقم رکھی ہے۔ آئندہ بجٹ میں وزیراعظم نے 300 ارب روپے کے تاریخی منصوبے رکھے ہیں۔ 

منگل کو کراچی میں صوبائی وزیر سید ناصرحسین شاہ اور نثار احمد کھوڑو کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ سید مرادعلی شاہ نے کہا کہ وفاق مسلسل سندھ کے ترقیاتی منصوبوں کو نظرانداز کررہا ہے۔

وفاقی محکمہ خزانہ کے فنانس ڈویژن میں پنجاب کے 14 منصوبے تھے جن کے لیے 15 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ صوبہ کے پی کے کے لیے 66 ارب روپے کے منصوبے رکھے گئے ہیں جبکہ سندھ نے 17 منصوبوں کی تجویز دی تھی جن میں سے صرف دو منصوبے رکھے گیے ہیں۔

پنجاب کی جانب سے 15 ترقیاتی سکیمز دی گئی تھیں جنہیں وفاق نے بڑھا کر 18 کردیا اور ان سکیمز کی رقوم اضافے کے بعد 20 ارب روپے کر دی گئی ہیں۔

صوبہ سندھ کی حکمراں جماعت پاکستان پیپلز پارٹی وفاق میں حزب مخالف کی جماعت ہے۔ جبکہ بقیہ تینوں صوبوں میں پی ٹی آئی کی حکومت ہونے کی وجہ سے سندھ وہ واحد صوبہ ہے جس حکمراں جماعت وفاق میں حکمراں جماعت نہیں ہے۔ ایسے صورتحال میں وفاق اور سندھ کے درمیان اختلافات کی نوعیت سیاسی ہے یا انتظامی؟ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وفاق اور سندھ کے درمیاں فنڈز پر تنازعہ آخر ہے کیا؟ 

ماہر معاشیات ڈاکٹر قیصر بنگالی کا کہنا ہے کہ اصولی طور پر اگر صوبوں کو وفاق سے شکایات ہوں تو سارے صوبوں کو ہونی چاہییں مگر سندھ کو شکایت اس لیے ہے کہ اسے نظرانداز کیا گیا ہے۔ 

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے قیصر بنگالی نے کہا کہ ’ماضی میں آنے والی سب حکومتوں میں سے پاکستان پیپلز پارٹی کے علاوہ تمام حکومتیں وفاق پر یقین ہی نہیں رکھتی تھیں۔

قومی اقتصادی کونسل (سی ای سی) کا آئینی طور پر تین مہینے بعد اجلاس ہونا ضروری ہے مگر دو سالوں تک نہیں ہوتا۔ وفاق ان موضوعات پر بھی فیصلہ کردیتا ہے جو وفاق کے زیر انتظام بھی نہیں ہوتے اسی لیے شکایات پیدا ہوتی ہیں۔‘ 

ماہر قانون اور سابق ایڈوکیٹ جنرل سندھ بیرسٹر ضمیر گھمرو نے انڈپینڈنٹ اردو کوبتایا ہے کہ ’چاروں صوبوں کے مقابلے میں انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی سمیت ملک کے کل ٹیکسز کا 70 فیصد صرف سندھ سے اکھٹا کیا جاتا ہے اور سندھ کو وفاق 70 فیصد ٹیکس کے جواب میں صرف 12 یا 13 فیصد فنڈز بجٹ کی مد میں واپس دیتا ہے۔ تو سندھ کو شکایات تو ہوں گی۔‘

بیرسٹر ضمیر گھمرو کے مطابق وفاق سندھ سے 75 فیصد ٹیکس وصول کرکے اس رقم کا 45 فیصد خود رکھ لیتا ہے اور بقیہ 55 فیصد سندھ کو واپس کرنے کے بجائے چاروں صوبوں میں بانٹ دیتا ہے جس سے ناانصافی ہورہی ہے۔ 

'وفاق کل آمدن کا 45 فیصد خود رکھنے کے بعد باقی کے 55 فیصد فیڈرل ڈویژیبل پول میں رکھتا ہے جو کہ بیرسٹر ضمیر گھمرو کے مطابق غیر آئینی ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت