افغانستان میں پرتشدد کارروائیوں میں اضافہ کیوں؟

داعش کی مقامی شاخ دولت اسلامیہ خراسان یا آئی ایس کے پی نے حالیہ دنوں میں بعض بم دھماکوں کی ذمہ داری قبول کی ہے جن کے بقول ان حملوں میں 30 ہلاکتیں ہوئی ہیں۔

داعش کے مبینہ جنگجوؤں اور طالبان کو 3 اکتوبر 2017 کو جلال آباد میں پولیس ہیڈ کوارٹرز میں ذرائع ابلاغ کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے (تصویر: اے ایف پی فائل)

عالمی شدت پسند تنظیم داعش خراسان نے افغانستان کے شہر مزار شریف میں گذشتہ روز منی بسوں پر دو حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے جس میں کم از کم نو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ حالیہ چند دنوں میں افغانستان میں پرتشدد حملوں میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔

طالبان کے گذشتہ برس اقتدار میں آنے کے فورا بعد پرتشدد کارروائیوں میں قدرے کمی آئی تھی لیکن حالیہ دنوں میں حملوں میں اضافے نے تشویش بڑھا دی ہے۔

اس سے قبل خود کو دولت اسلامیہ خراسان گروپ کہلوانے والی تنظیم نے گذشتہ روز مزار شریف میں اہل تشیع کی ایک مسجد پر بم دھماکے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ یہ حملہ کابل کے ایک شیعہ علاقے میں ایک سکول پر بم دھماکے اور قندوز میں سرکاری کارکنوں پر حملے کے بعد ہوا۔

مزار شریف حملے کے فورا بعد دہشت گردوں نے قندوز کی ایک مسجد پر بمباری کی اور کابل کی ایک مارکیٹ میں ایک کان میں دھماکہ کیا۔ ان حملوں میں بچوں سمیت تقریبا 80 افراد ہلاک ہوئے۔

اگرچہ دولت اسلامیہ خراسان نے صرف مزار شریف بم دھماکے کی ذمہ داری قبول کی تھی لیکن شک ہے کہ اس نے ان میں سے زیادہ تر حملے کیے۔

گذشتہ اگست میں طالبان کے قبضے کے بعد اس گروپ کے خلاف ملک کے مشرقی حصوں میں بڑی کارروائیاں کی اور ابتدائی نقصان پہنچایا لیکن ان حملوں سے لگتا ہے کہ یہ گروپ دوبارہ مضبوط ہوا ہے۔

طالبان کی قیادت میں گذشتہ برس جیل توڑنے سے دولت اسلامیہ یا داعش خراسان کے درجنوں جنگجو آزاد ہوئے اور خدشہ ہے کہ دوبارہ تنظیم میں متحرک ہوگئے ہیں۔

امریکی میگزین فارن پالیسی کے مطابق طالبان کی آمد کے بعد اب اس شدت پسند تنظیم کو فضائی حملوں کا سامنا نہیں کرنا پڑ رہا۔ دوسری جانب اس کا خیال ہے کہ افغانستان کے جاری معاشی دباؤ نے بھرتی کے لیے زرخیز ماحول فراہم کیا ہے۔

افغان قومی مصالحتی کونسل کے سابق سربراہ عبداللہ عبداللہ نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر لکھا کہ ’عوامی مقامات اور بے دفاع لوگوں کو نشانہ بنانے کا کوئی مذہبی یا انسانی جواز نہیں ہے۔‘

انہوں نے کہا، ’ہمارے لوگوں کو رمضان کے آخری دنوں اور راتوں میں اور عید الفطر کے قریب امن و سکون کی ضرورت ہے۔‘

رمضان کے مقدس مہینے کے گذشتہ دو ہفتوں کے دوران اہل تشیع اقلیتی برادری کو نشانہ بنانے والے حملوں نے ملک کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔

بلخ کی صوبائی پولیس کے ترجمان آصف وزیری نے اے ایف پی کو بتایا کہ جمعرات کے دھماکے مزار شریف کے مختلف اضلاع میں چند منٹ کے وقفے کے بعد کیے گئے جب مسافر روزہ افطار کرنے کے لیے اپنے گھروں کی طرف لوٹ رہے تھے۔ ترجمان نے کہا کہ ’حملوں کا ہدف بظاہر شیعہ مسافر تھے‘ جن میں 13 افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔

داعش کی مقامی شاخ دولت اسلامیہ خراسان یا آئی ایس کے پی نے ان بم دھماکوں کی ذمہ داری قبول کی ہے جن کے بقول ان حملوں میں 30 ہلاکتیں ہوئی ہیں۔

سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک منی بس آگ کی لپیٹ میں ہے جب کہ دوسری پوری طرح تباہ ہو گئی ہے۔ طالبان جنگجو متاثرین کو ہسپتال منتقل کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔

یہ دھماکے مزار شریف میں ایک شیعہ مسجد پر حملے کے ایک ہفتے بعد ہوئے ہیں جس میں کم از کم 12 نمازی ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو گئے تھے۔

اس دھماکے کے ایک دن بعد قندوز میں ایک اور مسجد میں بم دھماکے کے ذریعے اقلیتی صوفی برادری کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ نماز جمعہ کے دوران اس حملے میں کم از کم 36 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

کابل میں بھی ایک اور حملے میں شیعہ برادری کو اس وقت نشانہ بنایا گیا جب ایک سکول میں دو بم دھماکوں میں چھ طالب علم ہلاک ہو گئے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)


داعش ہی نے مزار شریف میں شعیہ مسجد پر حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی تاہم اب تک کسی گروپ نے قندوز اور کابل کے سکول میں ہونے والے بم دھماکے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔

شیعہ افغان، جو زیادہ تر ہزارہ برادری سے تعلق رکھتے ہیں، افغانستان کی کل تین کروڑ 80 لاکھ آبادی کا 10 سے 20 فیصد حصہ ہیں۔ داعش کی مقامی شاخ نے افغانستان میں بارہا شیعہ اور دیگر اقلیتوں کو نشانہ بنایا ہے۔

داعش بھی طالبان کی طرح ایک سنی شدت پسند گروپ ہے لیکن دونوں ایک دوسرے کے سخت حریف ہیں۔ دونوں گروپس میں سب سے بڑا نظریاتی فرق یہ ہے کہ طالبان غیرملکی افواج کو افغانستان سے نکال کر اقتدار حاصل کرنا چاہتے تھے جب کہ داعش ترکی سے لے کر پاکستان اور اس سے آگے بھارت کے کچھ حصوں تک اسلامی خلافت چاہتی ہے۔

طالبان حکام کا اصرار ہے کہ ان کی افواج نے داعش کا تعاقب کرتے ہوئے اسے شکست دی ہے لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ گروپ طالبان حکومت کے لیے سکیورٹی کا ایک اہم چیلنج بنا ہوا ہے۔ طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے جمعرات کو اے ایف پی کو بتایا کہ حالیہ حملوں کے سلسلے میں متعدد گرفتاریاں کی گئی ہیں۔

انہوں نے کہا: ’ان حملوں میں ان جگہوں کو نشانہ بنایا گیا جہاں مساجد اور سکول جیسے مقامات ہیں جہاں سکیورٹی کا کافی انتظام نہیں تھا لیکن اب ہم نے ایسی جگہوں پر بھی سکیورٹی بڑھا دی ہے۔‘

پاکستان کی مذمت

 پاکستان کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں مزار شریف میں ہونے والے حملوں کی شدید مذمت کی ہے جس میں قیمتی انسانی جانوں کا نقصان ہوا اور بہت سے لوگ زخمی ہوئے۔

بیان میں کہا گیا کہ پاکستان کی حکومت اور عوام افغانستان کے عوام اور خاص طور پر سوگوار خاندانوں کے ساتھ ہمدردی، حمایت اور یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔ ’ہم سمجھتے ہیں کہ معصوم افغانوں کے خلاف دہشت گردی کی ان گھناؤنی کارروائیوں کا مقصد امن، استحکام اور ترقی کے لیے افغان قوم کے عزم کو کمزور بنانا ہے۔ دہشت گردی کی ان کارروائیوں کے ذریعے افغانستان میں ہزارہ اور شیعہ برادری کو نشانہ بنانا  تشویشناک امر ہے۔‘

اسلام آباد نے اس بابت عالمی برادری سے پرزور مطالبہ کیا کہ وہ دہشت گردی سے نمٹنے اور ان چیلنجوں پر قابو پانے کے لیے افغانستان کی ہر ممکن مدد کو یقینی بنائے۔

ملا ہبت اللہ کا عید کے موقع پر پیغام

عیدالفطر کے موقع پر اپنے پیغام میں طالبان تحریک کے امیر مولوی ہبت اللہ اخوندزادہ نے کہا ہے کہ وہ اللہ رب العزت کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس سال وہ عید ایسے وقت میں منا رہے ہیں جب ملک مکمل طور پر غیر ملکی تسلط سے آزاد ہو چکا ہے۔

انہوں نے واضح کیا کہ ملک میں دوبارہ جنگ شروع کرنے کی کوششوں کو ناکام بنایا جائے گا۔ ’امارت اسلامیہ افغانستان نے اپنے تمام مخالفین کو عام معافی دے دی ہے اور اسے عملی طور پر نافذ کر دیا ہے۔ عام معافی کے تقاضے کی بنیاد پر میں ایک بار پھر ان تمام افغانوں کو دعوت دیتا ہوں جو اب بھی اس کی مخالفت کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ بغاوت اور نافرمانی اور پھر ملک میں جنگ شروع کرنے کی کوشش کی گئی تو اس قوم کو انتہائی فیصلہ کن اور شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا اور یہ قوم ہرگز ہرگز برداشت نہیں کرے گی۔ غیرملکیوں کے اکسانے پر ملک کے امن و سلامتی کو خراب کرنے کی کسی کو اجازت نہ دیں۔‘

ہمسایہ ممالک کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے یقین دلانے کی کوشش کی کہ افغانستان اپنے تمام پڑوسیوں اور علاقائی ممالک کے ساتھ ساتھ تمام دنیا کے ساتھ اچھے اور مثبت تعلقات کا خواہاں ہے۔ ’ہم افغانستان کی طرف سے کسی بھی خطرے کو کسی دوسرے ملک تک پہنچنے کی اجازت نہیں دیتے اور ہم دوسرے ممالک پر زور دیتے ہیں کہ وہ ہمارے ساتھ ایک جیسا اچھا، مثبت اور باہمی احترام والا سلوک کریں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ کم عرصے میں ملک کے دفاع کے لیے ایک مضبوط اسلامی اور قومی فوج کے ساتھ ساتھ سماجی تحفظ کے لیے ایک موثر پولیس فورس کی بنیاد رکھنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا