جنوبی وزیرستان میں ممکنہ فوجی کارروائی، قبائل انخلا سے انکاری

جرگہ صبح سے شام تک جاری رہا اور اس میں ایک 33 رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی جو طالبان اور حکومت کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرے گی۔

18 اکتوبر 2017 کو جنوبی وزیرستان میں انگور اڈہ میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد پر فوجی تعینات (اے ایف پی)

پاکستان کے قبائلی ضلع جنوبی وزیرستان میں محسود قبائل کے جرگے نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور حکومت کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرے گا تاہم وہ ممکنہ فوجی آپریشن کے لیے علاقہ خالی کرنے کے لیے تیار نہیں۔

ضلع ٹانک میں گذشتہ روز محسود قبائل کا ایک گرینڈ جرگہ منعقد ہوا جس میں قبائلی مشران، علما اور بڑی تعداد میں نوجوانان محسود نے حصہ لیا اور کسی ممکنہ فوجی آپریشن کو ایک ماہ تک روکنے پر زور دیا۔

جرگہ صبح سے شام تک جاری رہا اور اس میں ایک 33 رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی جو طالبان اور حکومت کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرے گی۔

محسود قبائل کے جرگے کے ایک رکن نے بتایا کہ پہلے سے چھ رکنی کمیٹی کے ذریعے طالبان کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے اور اب کمیٹی میں اضافہ کرکے اس کے ارکان کو 33 کر دیا گیا ہے۔

رکن کے بقول علاقہ مکینوں کو تحریک طالبان کے خلاف فوجی آپریشن کے لیے علاقہ خالی کرنے کا کہا گیا ہے جس کی وجہ سے لوگ بہت پریشان ہیں۔

ڈپٹی کمشنر امجد معراج کے مطابق وہ علاقے میں امن و امان برقرار رکھنے کے لیے کوشش کر رہے ہیں لہذا محسود قبائل کو چاہیے کہ وہ امن و امان برقرار رکھنے کے لیے حکومت کا ساتھ دیں۔

خیبرپختونخوا اور اس کے قبائلی اضلاع میں حالیہ دنوں میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق صوبے میں جنوری سے اب تک 30 سے زائد پولیس اہلکار جانیں گنوا چکے ہیں۔

صالح شاہ محسود نے، جو مذاکرتی کیمٹی میں شامل ہیں اور سینیٹر رہ چکے ہیں، کہا کہ وہ بات چیت کے سلسلے میں چار مرتبہ افغانستان میں تحریک طالبان کے کمانڈروں سے ملے ہیں اور مذاکرات کا سلسلہ توڑا نہیں بلکہ بدستور جاری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ ان مذاکرات کے لیے کبھی طورخم اور کبھی غلام خان سرحدی گزرگاہوں کے راستے افغانستان جاتے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ کور کمانڈر پشاور کی جانب سے وزیر اور محسود قبائل کو ایک کیمٹی میں شامل کرنے کی کوشش کی گئی لیکن محسود قبائل نے اس کمیٹی میں شمولیت سے اس بنیاد پر انکار کیا تھا کہ وزیر قبائل کے لوگ تحریک طالبان کا حصہ نہیں ہیں۔

سابق سینیٹر صالح شاہ نے بتایا کہ رمضان سے پہلے شوال میں سکیورٹی فورسز پر ایک حملے کے بعد فوج نے تین مقامات کو خالی کرنے کا بتایا تھا جس پر محسود قبائل نے عیدالفطر تک کارروائی نہ کرنے کی مہلت مانگ لی تھی جس پر بقول ان کے فوج رضامند ہوگئی تھی۔

ان کے بقول وزیر قبائل کے طالبان حفظ گل بہادر گروپ میں ہیں جبکہ محسود قبائل تحریک طالبان پاکستان میں شامل ہیں۔ اس لیے الگ الگ مذاکرتی کمیٹیاں بنائی گئیں۔

صالح شاہ کے مطابق محسود قوم کا متفقہ فیصلہ ہے کہ وہ دوبارہ علاقہ خالی کرنے کے لیے تیار نہیں، وہ سکیورٹی فورسز اور طالبان کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کریں گے اور طالبان سے مذاکرت کے لیے دوبارہ بھی جائیں گے۔ 

مذاکرتی کمیٹی میں شامل ملک عرفان الدین برکی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ قوم کے اس فیصلے کے بعد کسی بھی صورت میں علاقہ خالی نہیں کیا جائے گا اور جرگے نے اپنے موقف سے سیکٹر کمانڈر کو آگاہ کر دیا ہے۔

تاہم حکومت کی طرف سے اب تک کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے کہ وہ محسود قبائل کے جرگے کے فیصلے کو کس نظر سے دیکھتی ہے۔ پاکستان فوج نے بھی ان مذاکرات کے بارے میں حالیہ دنوں میں کوئی نیا بیان نہیں دیا ہے تاہم اس نے اس سال مارچ میں تصدیق کی تھی کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے، تاہم ان میں کوئی خاطر خواہ ’بریک تھرو‘ نہیں ہوا۔

پاکستانی فوج کے ایک سینیئر افسر نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو دورۂ شمالی وزیرستان کے دوران بتایا تھا کہ پاکستانی علما، جرگہ اور مقامی رہنماؤں پر مشتمل وفود نے افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کی ہیں۔

جرگے سے خطاب کرتے ہوئے عالمزیب محسود نے کہا کہ سکیورٹی فورسز نے ایک ملاقات میں محسود قبائل پر واضح کر دیا کہ وہ طالبان کے ساتھ مذاکرت کر رہے ہیں لیکن یہ بات چیت تب کامیاب ہو گی جب تحریک طالبان کی علاقے میں واپسی کے بعد تمام ذمہ داریاں محسود قبائل اپنے کندھوں پر اٹھائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ فوج کا کہنا تھا کہ تحریک طالبان میں اکثریت کا تعلق محسود قبائل سے ہے، محسود قبائل ہی ان کو سنبھال سکتے ہیں اور محسود قبائل کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان کو سنبھالیں۔

انہوں نے کہا کہ عسکری حکام کے ساتھ جرگے میں محسود قبائل کے نوجوانان نے اس بات سے انکار کر دیا تھا کہ وہ طالبان کو سنبھالیں گے اور بتا دیا کہ وہ چاہتے ہیں کہ سکیورٹی فورسز علاقے میں امن و امان قائم کریں اور محسود قبائل وزیرستان میں پرامن زندگی گزار سکیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ فوج نے جن علاقوں کو خالی کرنے کی نشاندہی کی ہے وہاں کے لوگوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ کسی بھی صورت میں علاقہ خالی نہیں کریں گے اور جس نے بھی نقل مکانی کرنے کی کوشش کی اس پر پانچ لاکھ روپے جرمانہ ہوگا، جس پر پوری قوم متفق ہے۔

رحمت شاہ محسود نے وزیرستان میں ایک دفعہ پھر امن عامہ کے بہت زیادہ برے حالت پر تشویش کا اظہار بھی کیا۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ کاروباری لوگ یا دبئی سے آئے ہوئے قبائلیوں کو جن پر طالبان کی مالی مدد کا الزام لگایا جاتا ہے تنگ کیا جا رہا ہے۔

شیرپاؤ محسود نے کہا کہ 12 سال آپریشن میں علاقہ کلئیر نہیں ہوا تو نئی کارروائی میں بھی لوگوں کو بری طرح متاثر کرنے کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ جرگے نے ایک مہینے کے لیے آپریشن روکنے کی اپیل کی ہے تاکہ مذاکرت کے ذریعے مسئلے کا کوئی حال نکلا جائے۔

جنوبی وزیرستان کے سب ڈویژن لدھا کے تین مختلف علاقوں مندیچ، مکین اور شول میں شدت پسندوں کے خلاف دوبارہ فوجی آپریشن کے لیے لوگوں کو علاقہ خالی کرنے کا کہا گیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ فوج نے ممکنہ نئے آپریشن کے لیے مکمل تیاری کر لی ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان