عید پر پاکستانی فلمیں چلی کیوں نہیں؟

فلمسازوں کا مؤقف تھا کہ مقامی فلموں کو تحفظ ملنا چاہیے اور اگر ڈاکٹر سٹرینج ایک ہفتے بعد ریلیز ہو جاتی تو اس فلم کو شاید فرق نہیں پڑتا جبکہ سینیما مالکان کا مؤقف ہے کہ ڈاکٹر سٹرینج کی رمضان سے قبل ہی ایڈوانس بکنگ جاری تھی۔

عید الفطر کے موقع پر پاکستانی سینیما پر پانچ پاکستانی اور ایک ہالی وڈ کی فلم دکھائی گئی (سکرین گریب/ سنے پیکس/فیسبک)

سیاست ہو یا فلمی دنیا، پاکستان میں تنازعات کے بغیر کچھ نہیں ہوتا۔ ایسا ہی عیدالفطر پر سینیما میں نمائش کے لیے پیش کی جانے والی چار اردو اور ایک پنجابی فلم کے ساتھ بھی ہوا۔

رواں سال عید کے موقع پر جب پاکستانی فلموں کی سینیما میں نمائش شروع ہوئی تو چھ مئی کو ہالی وڈ کی فلم ’ڈاکٹر سٹرینج‘ بھی ریلیز ہو گئی جس پر پاکستانی فلمسازوں نے شکایت کی کہ ان کے شوز کم کر کے ’ڈاکٹر سٹرینج‘ کو دے دیے گئے ہیں۔

اس ضمن میں فلمسازوں نے کراچی میں ایک پریس کانفرنس بھی کی تھی۔

فلمسازوں کا مؤقف تھا کہ مقامی فلموں کو تحفظ ملنا چاہیے اور اگر ڈاکٹر سٹرینج ایک ہفتے بعد ریلیز ہو جاتی تو اس فلم کو شاید فرق نہیں پڑتا۔

ان کا کہنا تھا کہ مقامی سینیما کو عید کے موقع پر درآمد شدہ فلم کو 15 فیصد تک محدود رکھنا چاہیے تھا۔

دوسری جانب سینیما مالکان کا مؤقف ہے کہ ڈاکٹر سٹرینج کی رمضان سے قبل ہی ایڈوانس بکنگ جاری تھی، اور چند ایک سینیما کے علاوہ کسی نے پہلے سے طے شدہ شوز میں اضافہ یا کمی نہیں کی۔

کچھ سینیما والوں نے واضح کیا کہ وہ شو صرف اس وقت لگاتے ہیں جب کم از کم 10 افراد فلم کا ٹکٹ خرید لیں۔ 10 سے کم افراد ہوں تو وہ شو منسوخ کر دیتے ہیں۔

دوسری بات کہ جن سینیماؤں میں پاکستانی فلموں کے شو کم نہیں کیے گئے کیا وہاں یہ فلمیں بہترین چل رہی ہیں۔ اس کا جواب کافی مشکل ہے۔

2019 میں کرونا سے قبل عید کے موقع پر سینیما کے ٹکٹ کی قیمت تقریباً 20 فیصد کم تھی اور سینیما سکرینز کی تعداد 160 سے زیادہ تھی۔

کرونا کی عالمی وبا کے بعد پہلی عید پر یہ تعداد بمشکل 140 تک پہنچی اور ملک میں جاری مہنگائی کی لہر، سیاسی ابتری اور سینیما کے مہنگے ٹکٹس وہ اسباب تھے جن کا پاکستانی فلموں پر اثر نظر آیا۔ عید کے دوسرے اور تیسرے دن رات کے شو تو بھر گئے مگر چوتھے دن پھر عوام کی تعداد کم ہوگئی۔

لیکن سب سے بڑا مسئلہ عیدالفطر پر ایک ساتھ چار اردو اور ایک پنجابی فلم لگانا تھا۔

پاکستان میں اتنے سینیما ہیں نہیں کہ وہ پانچ فلموں کا بوجھ اٹھا سکیں۔ ملٹی پلیکس میں تو کچھ گنجائش نکل ہی آتی ہے مگر سنگل سکرین سینیما والے کیا کریں؟ وہ پرائم ٹائم پر ایک ہی شو لگا سکتے ہیں چار نہیں۔

اگر پاکستانی فلمسازوں کو ادراک ہوتا کہ عید پر پانچ فلمیں ایک دوسرے کے لیے مسائل پیدا کریں گی تو ایسا نہ کرتے اور اس کا نقصان تمام فلموں کو مجموعی طور پر ہوا۔

سینیما مالکان اور ڈسٹریبیوٹرز کے مطابق اس مرتبہ سینیما میں لوگوں کی آمد 30 سے 40 فیصد کم رہی ہے۔

عیدالفطر پر ریلیز ہونے والی فلموں کا ایک جائزہ

گھبرانا نہیں ہے

سابق وزیراعظم عمران خان کے مشہور جملے پر جس فلم کا نام رکھا گیا وہ کافی دلچسپ ثابت ہوئی۔ ایک بیٹی کو یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ بیٹے سے کم نہیں، اس لحاظ سے یہ فلم اپنی کہانی، پیشکش اور اداکاری کے اعتبار سے مکمل پیکیج ہے۔

فلم کی کہانی مربوط تھی، مکالمے انتہائی جاندار اور ایک ایک سین کہانی کو آگے بڑھا رہا تھا۔ فلم میں کہیں بھی بوجھل لمحہ نہیں تھا، اور یہ ایک مکمل فلم ثابت ہوئی۔

’گھبرانا نہیں‘ کی کہانی زبیدہ عرف زوبی نامی لڑکی کی ہے جس کے والد کے کراچی میں موجود ایک پلاٹ پر قبضہ ہو جاتا ہے اور وہ قبضہ چھڑانے کے لیے فیصل آباد سے کراچی آتی ہے۔

اس فلم میں کوئی ابھر کر آیا تو وہ سید جبران ہیں جنہوں نے ایک کھلنڈرے، سچے عاشق کا کردار جس خوبی سے ادا کیا وہ فلم کی جان بن گیا۔

نیّر اعجاز کی کارکردگی بطور ولن کافی جاندار رہی، جبکہ زاہد احمد نے ایک کرپٹ پولیس افسر کا کردار مناسب انداز میں ادا کیا۔

کہانی تو صبا قمر کے گرد ہی گھومتی ہے اور انہوں نے اپنے تجربے سے اس کردار کو چار چاند لگا دیے۔ ’جان ریمبو‘ نے بھی کئی مقامات پر اپنی موجودگی کا احساس خوب دلایا۔ اپنی انہی خصوصیات کی وجہ سے یہ فلم باکس آفس پر سب سے اوپر ہے۔

دم مستم

اندرون لاہور کے ایک محلے میں جنم لینے والی محبت کی یہ کہانی اپنی پیشکش کے اعتبار سے بہت بہترین ہے۔ عدنان صدیقی کی بطور پروڈیوسر یہ فلم اپنی پروڈکشن کی وجہ سے دیگر تمام فلموں سے الگ نظر آتی ہے۔

اس فلم کے گانے بہت ہی بہترین ہیں، خاص کر ’لڑکی اچاری‘ تو عوام میں کافی مقبول ہوا اور یہ تمام کے تمام گانے فلمائے بھی بہت بہترین انداز میں گئے ہیں۔

طویل عرصے بعد کسی پاکستانی فلم کے اتنے بہترین سیٹ لگائے گئے تھے جو سینیما سکرین پر بہت ہی بہترین نظر آئے۔

اداکاری کی بات کریں تو امر خان نے یہ ثابت کیا کہ وہ فلم میں بھی اچھی اداکاری کر سکتی ہیں اور ان میں مستقبل کی ہیروئین بننے کی صلاحیت ہے، خاص طور پر ان کا رقص تو پردے پر اُبھر کر آیا۔

عمران اشرف کا کردار ’باؤ‘ ان کی شخصیت سے مطابقت رکھتا تھا اس لیے وہ کردار میں ڈھل گئے تھے۔

فلم میں معاون اداکار، جیسے سہیل احمد اور سلیم معراج نے اپنے کردار توقع کے مطابق ہی ادا کیے، البتہ مومن ثاقب کا کردار کچھ زیادہ ہی لاؤڈ تھا۔

لیکن ان تمام تر اچھائیوں کے باوجود فلم کا سب سے بڑا مسئلہ اس کی طوالت جس میں متعدد غیر ضروری، غیر متعلقہ سین اور کہانی کے بے ربط موڑ۔ فلم کے دوران یہ سمجھ نہ آسکا کہ کب اور کیوں سلیم معراج نے اپنی پارٹی بدل لی، عمران اشرف نے یکلخت کیوں اپنا سر مونڈھ دیا، لڑکی شادی میں محلے بھر کے سامنے ناچ رہی تھی کسی کو مسئلہ نہیں تھا، لیکن جب کمرے میں اکیلی ناچ رہی تھی تو باپ نے تھپڑ کیوں مار دیا۔

اسی طرح کے متعدد سوالات کی وجہ سے فلم بوجھل محسوس ہونے لگتی ہے اور اس کا تاثر زائل ہوتا ہے ورنہ یہ عید کی فلموں میں بہتر پیشکش ثابت ہوئی ہے اور اچھی ایڈیٹنگ اسے بہترین بنا سکتی تھی۔

پردے میں رہنے دو

یہ ایک شادی شدہ جوڑے کی کہانی جن کے ہاں اولاد نہیں ہو رہی اور اب خاندان اور معاشرہ ان پر دباؤ ڈال رہا ہے۔

اب تک ہدایت کار وجاہت رؤف کی جتنی فلمیں آئی ہیں، یہ ان میں ’سب سے بہتر‘ فلم ہے جس کا موضوع مردانہ بانجھ پن، معاشرے میں ممنوعہ سمجھا جاتا ہے اس لیے اسے بنانے پر شاذیہ اور وجاہت تعریف کے مستحق ہیں۔

اس فلم سے صبا فیصل کی بیٹی سعدیہ فیصل اور تھیٹر اداکار حسن رضا نے اپنے فلمی سفر کا آغاز کیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فلم میں انفرادی طور پر ہانیہ عامر، علی رحمان نے اچھی اداکاری کی، لیکن بطور ایک فلمی جوڑی ان میں وہ کیمسٹری نہیں تھی جس کی امید تھی۔

ہانیہ نے کئی مواقعوں پر خود کو اچھی اداکارہ ثابت کیا لیکن فلم میں جاوید شیخ کا کردار سب پر بھاری رہا۔ ان کی بےساختہ اداکاری دیکھنے والوں کے چہروں پر مسکراہٹ ضرور بکھیرتی ہے جبکہ حسن رضا کئی مناظر میں علی رحمان پر حاوی نظر آئے۔

90 منٹ کے دورانیے پر محیط یہ فلم ٹیلی فلم کی طرح فلمائی گئی اور بڑا مسئلہ یہ تھا کہ اس میں زبردستی کا مزاح ڈال کر اسے الجھا دیا گیا۔

یاسر حسین کا بطور ڈاکٹر جو سین ٹریلر میں بھی ہے وہ غیر ضروری اور کم شائستہ لگتا ہے۔

گانوں کی بات کریں تو ’پیلا رنگ‘ کے علاوہ کوئی اور گانا قابل ذکر نہیں اگرچہ وجاہت رؤف کی فلموں کے گانے بہت اچھے ہوتے ہیں۔

موضوع کے اعتبار سے اچھی فلم کی پیشکش کچھ بہتر ہوتی تو یہ بہت کامیاب فلم بھی ہوسکتی تھی۔

چکر

اگرچہ یہ فلم عید پر ریلیز ہونے والی دیگر فلموں سے کم ازکم اپنے موضوع کے اعتبار سے منفرد تھی۔

پراسرار قتل کی کہانی ہمیشہ ہی سے عوام میں دلچسپی کا باعث بنتی ہے، تاہم یہ تمام فلموں میں سب سے کمزور فلم ثابت ہوئی جس کا اثر باکس آفس پر بھی صاف نظر آیا۔

یہ ایک روایتی جڑواں ہم شکل بہنوں کی کہانی ہے، جن میں ایک گھریلو اور دوسری فلم سٹار ہے۔ پھر ایک کا قتل ہوگیا جس کا شک کئی افراد پر ہوتا ہے۔

اس فلم میں متعدد مسائل تھے، دیکھنے میں یہ فلم نہیں ٹی وی کا لانگ پلے معلوم ہوتی ہے۔ احسن خان، نیلم منیر اور یاسر نواز، یہ تینوں ہی اپنی اداکاری سے متاثر کرنے میں اس مرتبہ ناکام رہے۔

فلم کی تدوین میں شدید الجھنیں ہیں، دو تین سین اپنی جگہ سے پہلے ہی، فلیش بیک کا اندازہ لگانا بہت مشکل رہا۔

اگر گاڑی پر حملے والا سین ہی دیکھیں تو گاڑی کے شیشے ٹوٹنے کے بعد بھی ثابت نظر آرہے تھے، ایک کردار کبھی اردو بولتا ہے کبھی پنجابی، کہنے کو وہ وکیل ہے، پر اچانک مکالمہ پنجابی فلموں والے بولنے لگتا ہے، غرض فلم میں تسلسل کا مستقل فقدان رہا۔

ایک سپر سٹار کا قتل ہوا ہے، ایسے میں موقع پر کم از کم کسی خاتون پولیس افسر کا ہونا لازمی تھا، مگر اس کا بھی خیال نہیں رکھا گیا۔

فلم میں کامیڈی ڈالنے کی وجہ سے کہانی بہت بری طرح متاثر ہوئی۔ تقریباً 35 فیصد فلم میں یاسر نواز خود کیمرے کے آگے تھے اور یہ تمام سین ہدایت کاری کے اعتبار سے کمزور رہے۔ یہ مسئلہ رانگ نمبر 2 میں بھی تھا، اور یہی چکر میں بھی نظر آیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی فلم