آرٹیکل 63 اے: عدالت کا حکم ہے یا مشورہ؟

پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے آئین بہت سے حوالوں سے منفرد ہیں۔ ان ممالک کے آئین میں بہت سی ایسی شقیں مل جاتی ہیں جو پرانی جمہوریتوں میں عرصہ ہوا یا تو متروک کی جا چکی ہیں یا پھر کبھی ان کو دستور کا حصہ بنایا ہی نہیں گیا۔

29   جنوری 2021 کو اسلام آباد میں سپریم کورٹ کی عمارت (فائل تصویر: اے ایف پی)

سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت صدر مملکت کی طرف سے بھیجے گئے ریفرنس کا فیصلہ کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 63 اے میں بیان کیے گئے اصول کو آئین کی دیگر شقوں اور خصوصاً آئین کے آرٹیکل 17 سے ملا کر پڑھا جائے گا۔

صدر مملکت کی طرف سے بھیجے گئے سوالات کا جواب دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے دو کے مقابلے میں تین ججوں کی اکثریت نے قرار دیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 63 اے اور آئین کے آرٹیکل 17 کا تقاضا یہ ہے کہ انفرادی رکن کے مقابلے میں ایک سیاسی پارٹی کے حقوق کا تحفظ کیا جائے اور مزید یہ کہ ایسے رکن اسمبلی کا ووٹ شمار میں نہیں لایا جا سکتا جو آرٹیکل 63 اے میں درج شدہ صورتوں میں پارلیمانی پارٹی کی ہدایات کے برخلاف اپنے ووٹ کا استعمال  کرتا ہے۔

عدالت کا مشاورتی اختیار سماعت کسی بھی ذمہ داری یا حق کے وجود میں آنے سے پہلے یا پھر پہلے سے موجود کسی قانونی ذمہ داری یا حق کے بارے میں کسی عدالتی تصفیے سے قبل عدالت سے رجوع ہوتا ہے۔ یہ عدالت کے اصلی اختیارات سماعت سے اس لحاظ سے مختلف ہے کہ موخر الذکر کی صورت میں عدالت کے سامنے ایک ایسا قانونی تنازع موجود ہوتا ہے جو پہلے سے وقوع پذیر ہو چکا ہوتا ہے۔

آرٹیکل 186، دستور پاکستان کیا کہتا ہے؟

پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 186 کے مطابق صدر مملکت کسی بھی وقت اگر یہ سمجھے کہ کسی عوامی اہمیت کے حامل سوال پر سپریم کورٹ سے رائے حاصل کرنے کی ضرورت ہے تو وہ اس سوال کو رائے لینے کے لیے سپریم کورٹ بھجوا سکتا ہے۔ سپریم کورٹ اس سوال پر غور کے بعد اپنی رائے صدر مملکت کو بھجوا دے گی۔

دوسرے ممالک میں اعلیٰ عدلیہ کا ایسا اختیار سماعت؟

پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے آئین بہت سے حوالوں سے منفرد ہیں۔ ان ممالک کے آئین میں بہت سی ایسی شقیں مل جاتی ہیں جو پرانی جمہوریتوں میں عرصہ ہوا یا تو متروک کی جا چکی ہیں یا پھر کبھی ان کو دستور کا حصہ بنایا ہی نہیں گیا۔

آزادی اظہار پر فلور کراسنگ کی پابندیاں اور اعلیٰ عدلیہ کو مشاورتی اختیارات دیے جانا اسی کی کچھ مثالیں ہیں اور اتفاق سے برصغیر کے تینوں ممالک کے دساتیر میں ملتی جلتی شقیں موجود ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ سمجھ آتی ہے کہ پرانی جمہوریتوں میں جس طرح پارلیمان کو بالادست ادارہ سمجھ کر تقدس دیا جاتا ہے، برصغیر میں اس کے برعکس جمہوریت اور سیاسی اداروں کو ایک ناگزیر برائی کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔

پارلیمان اور ارکان پارلیمان کے حوالے سے یہ عوامی تاثر موجود ہے کہ یہ نااہل اور کرپٹ لوگ ہیں۔ ان ممالک کے آئین میں ایسی شقیں ڈالی گئی ہیں جو ممبران پارلیمنٹ کو طے شدہ حدود میں رکھنے میں مددگار ہوں۔

بھارتی آئین مجریہ 1950 کے آرٹیکل 143 میں اسی طرح کا اختیار سماعت بھارتی سپریم کورٹ کے پاس بھی موجود ہے۔ پاکستان کے برعکس جہاں اس اختیار سماعت کو عموماً سیاسی معاملات ہی میں استعمال کرنے کی ضرورت پڑی ہے، بھارتی سپریم کورٹ اس اختیار سماعت کے تحت بہت سے غیر سیاسی مگر اہم قانونی اور آئینی مسائل پر اپنی رائے دے چکی ہے جن میں بابری مسجد کا 1993 کا ریفرنس بھی شامل ہے۔

پاکستان اور بھارت کے برعکس برطانیہ میں تحریری دستور موجود نہیں ہے اور آئینی امور پر روایات پر عمل درآمد کیا جاتا ہے۔ اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے ہاؤس آف لارڈز کی طرف سے طلب کیے جانے پر مشورہ دینے کی روایت موجود تھی جو پچھلے ایک سو برس میں اپیل کی علیحدہ عدالتیں بننے کے بتدریج عمل کے دوران استعمال نہ کیے جانے پر عملاً ختم ہو چکی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

آسڑیلیا میں بھی پارلیمانی جمہوریت کا نظام ہے۔ آسڑیلیا میں جوڈیشری ایکٹ 1903 میں دیے گئے مشاورتی اختیار کو خود عدلیہ کی طرف سے 1921 کے ایک فیصلے کے نتیجے میں متروک قرار دے دیا گیا تھا۔ تب سے ان اختیارات کا استعمال نہیں ہوا۔

امریکہ کے دستور میں اعلیٰ عدلیہ کے پاس ایسا کوئی اختیار سماعت موجود ہی نہیں ہے اور نہ ہی امریکی دستور کے بنیادی ڈھانچے میں اختیارات کی علیحدگی کے تصور پر قائم ہے، اس نوعیت کے اختیار سماعت کی کوئی گنجائش موجود ہے۔

کینیڈا کے دستور میں سپریم کورٹ کے پاس مشاورتی اختیار سماعت بھی موجود ہے بلکہ اہم دستوری مسائل پر سپریم کورٹ کے سامنے بذریعہ ریفرنس پیش کیے جانے اور فیصلہ دینے کا الگ سے اختیار سماعت بھی موجود ہے۔ اور ان شقوں کے تحت کینڈا کی سپریم کورٹ فیصلے بھی صادر کرتی رہتی ہے۔

کیا یہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے یا مشورہ؟

بھارتی سپریم کورٹ 1993 اس آرٹیکل کی تشریح کرتے ہوئے یہ کہہ چکی ہے کہ ایسا مشورہ اگرچہ محض مشورے ہی کی حیثیت رکھتا ہے مگر کیونکہ یہ ایک قانونی نکتے پر ملک کی اعلیٰ عدلیہ کی باقاعدہ سماعت کے بعد رائے ہوتی ہے، اس لیے اس مشورے کو انتہائی اہمیت دی جانی چاہیے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے پہلی بار اس نکتے پر اپنی رائے 2005 میں صدر پاکستان کی طرف سے ایم ایم اے کی حکومت کی طرف سے پیش کیے جانے والے حسبہ بل پر اپنے مشاورتی اختیار سماعت کی قوت نافذہ کی تشریح کرتے ہوئے دی اور اس اختیار سماعت میں دی گئی رائے کو سپریم کورٹ کے باقی فیصلوں کی نوعیت کا ہی ایک حکم قرار دیا ہے۔

اس فیصلے کو دیکھا جائے تو یہ بھارتی سپریم کورٹ کی بہ نسبت زیادہ قطعی رائے ہے جہاں مشاورتی اختیار سماعت کو صریح الفاظ میں بائنڈنگ قرار دیا گیا۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ حالیہ فیصلے میں یہ کہا گیا ہے کہ یہ فیصلہ صرف عدالت کے مشاورتی اختیار سماعت میں نہیں دیا گیا بلکہ یہ فیصلہ سپریم کورٹ کے ازخود اختیار سماعت یعنی آرٹیکل 184 کی شق چار ضمن تین اور آرٹیکل 187 کے تحت دیا گیا فیصلہ بھی تصور ہو گا۔

لہٰذا اس بات پر کوئی دو آرا نہیں ہو سکتیں کہ سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ ملک کے تمام اداروں پر بائنڈنگ ہے اور اس کی حیثیت مشورے سے بڑھ کر ایک حکم کی ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ