پنجاب: ’سپریم کورٹ کی تشریح کے بعد اپوزیشن کے مسائل بڑھ گئے‘

آئینی طور پر وزیر اعلیٰ پنجاب کو اعتماد کا ووٹ لینے کی ہدایت گورنر کر سکتے ہیں لیکن یہ عہدہ خالی ہے دوسری جانب نمبر گیم میں بھی اپوزیشن کو واضح حمایت حاصل نہیں البتہ حکمران اتحاد کی پوزیشن اب بھی مستحکم ہے۔

پاکستان کے پولیس افسران یکم جون 2013 کو لاہور میں نومنتخب صوبائی قانون سازوں کی حلف برداری کی تقریب کے دوران (فائل تصویر: اے ایف پی)

پنجاب کی سیاسی صورتحال سپریم کورٹ کے منحرف اراکین کے ووٹ کو شمار نہ کرنے کی تشریح کے بعد تجزیہ کاروں کے مطابق مزید دلچسپ ہوگئی ہے۔ ایسے میں حمزہ شہباز جمعرات کی صبح ایک پریس کانفرنس کرنے والے ہیں۔

آئینی طور پر وزیر اعلیٰ پنجاب کو اعتماد کا ووٹ لینے کی ہدایت گورنر کر سکتے ہیں لیکن یہ عہدہ خالی ہے دوسری جانب نمبر گیم میں بھی اپوزیشن کو واضح حمایت حاصل نہیں البتہ حکمران اتحاد کی پوزیشن اب بھی مستحکم ہے کیونکہ ماہر قانون حامد خان کے مطابق پہلے پول میں قائد ایوان کو 186اراکین کی حمایت جب کہ دوسرےپول میں جس کے ساتھ زیادہ ممبران ہوں وہ قائد ایوان منتخب ہوجائے گا۔

اس معاملہ میں حکومت اور اپوزیشن جوڑ توڑ میں کوشاں تو ہے مگر ابھی تک دونوں میں سے کسی کو واضح کامیابی حاصل نہیں ہوئی سابق وزیر اعظم نے بھی آج بدھ کو دورہ لاہور کے موقع پر پارٹی رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں اور صورتحال کا جائزہ لیا۔

پنجاب اسمبلی میں نمبر گیم

سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پنجاب میں سیاسی و آئینی ہلچل میں اضافہ ہوا اورایک مرتبہ پھر نمبر گیم اہمیت اختیار کر گئی۔ ڈپٹی سپیکر سردار دوست محمد مزاری کا کردار پہلے سے زیادہ اہم ہوگیا ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ن لیگ کے منحرف ارکان پارٹی پالیسی کے برعکس ووٹ نہیں ڈال سکیں گے۔ وزیراعلیٰ حمزہ شہباز شریف کا ارکان اسمبلی سے ملاقاتوں کا فیصلہ کیا ہے۔

پنجاب اسمبلی کور کرنے والے سینئر صحافی اخلاق باجوہ کے مطابق پنجاب اسمبلی کا ایوان 371 ارکان پر مشتمل ہےتحریک انصاف کے 25 ارکان کے ڈی سیٹ ہونے پر آئینی طور پر اراکین کی حمایت 186 کسی کے پاس نہیں ہوگی25 ارکان کے ممکنہ ڈی سیٹ ہونے کے بعد پنجاب کا ایوان 346 ارکان پر رہ جائے گا۔

اخلاق کے بقول ’ایوان میں عددی اکثریت 173 والا ہی وزیراعلیٰ پنجاب ہو گا، اگرموجودہ پارٹی پوزیشن پر نظر ڈالیں تومسلم لیگ ن 165 پیپلزپارٹی کے سات، آزاد ارکان چار اور راہ حق پارٹی کا ایک رکن ہے یوں حکومتی اتحاد  کو177 ارکان کی حمایت حاصل ہے۔

اپوزیشن ارکان کی تعداد دیکھیں توپاکستان تحریک انصاف کے ڈپٹی سپیکر کو نکال کر ارکان کی تعداد 157 مسلم لیگ ق کے 10 ارکان ہیں۔ ڈپٹی سپیکر سردار دوست محمد مزاری اور چوہدری نثار نے وزیر اعلیٰ کے انتخاب میں ووٹ کاسٹ نہیں کیا تھا، ڈپٹی سپیکر نے اجلاس چئیر کیا اور چوہدری نثار ایوان میں ہی نہیں آئے تھے۔

تحریک انصاف کے 25 منحرف ارکان کے ڈی سیٹ ہونے سے مخصوص نشستوں پر پی ٹی آئی کے پانچ اراکین فوری نئے نامزد کر کے نوٹیفکیشن ہو سکتا ہے۔ یوں پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن کے کل ارکان کی تعداد 172 ہو جائے گی۔

انہوں نے دعویٰ کیاکہ اس جمع تفریق کے بعد موجودہ صورت حال رہنے پر بھی حکومتی اتحاد  کو نئے انتخاب میں پانچ ووٹ کی برتری ہوگی لیکن اگر مسلم لیگ ن کے چار منحرف ارکان حمزہ کو ووٹ نہیں ڈالتے تو صورتحال دلچسپ ہوگی۔ حکومت اور اپوزیشن کے172 ارکان برابر ہوجائیں گےجس کے بعد  ڈپٹی سپیکر کا ووٹ فیصلہ کن ہوگااگر ڈپٹی سپیکر مسلم لیگ ن کا ساتھ دیتے ہیں تو حمزہ شہباز  دوبارہ وزیراعلیٰ منتخب ہوجائیں گے۔

پرویز الہٰی مشکل میں کیسے آ گئے؟

سابق صدر سپریم کورٹ بار حامد خان کے مطابق آئینی طور پر گورنر نہ ہونے کی صورت میں قائم قام گورنر سپیکر ہوتا ہے لیکن چوہدری پرویز الہٰی نے گورنر کا چارج نہیں لیا وہ بدستور سپیکر موجود ہیں گورنر موجود نہ ہونے پر وزیر اعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کی ہدایت نہیں کی جاسکتی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اگر سپیکر گورنر کے عہدہ کا چارج لیتے ہیں تو ڈپٹی سپیکر قائم مقام سپیکر بن جائیں گے لہذا وہ فوری چوہدری پرویز الہٰی کے خلاف جمع ہونے والی تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کرا کے انہیں عہدے سے ہٹا سکتے ہیں۔

پھر پرویز الہٰی گورنر بھی نہیں رہ سکتے اور سپیکر بھی نہیں رہیں گے وزیر اعلیٰ کے انتخاب میں بھی بطور گورنر حصہ نہیں لے سکیں گے۔

انہوں نے کہاکہ اگر موجودہ صورت حال میں معاملہ قائد ایوان کے نئے انتخاب کی طرف بھی جاتا ہے تو بھی پرویز الہٰی کے امیدوار ہونے پر ڈپٹی سپیکر کی زیر صدارت ہی انتخاب ہوگا اور اگر سپیکرپہلے ڈپٹی سپیکر کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ کراتے ہیں تو پھر اپوزیشن کو ان کے خلاف کامیابی کے لیے زیادہ اراکین کی حمایت حاصل ہونا ضروری ہوگا۔ لہذا اس صورتحال میں چوہدری پرویز الہٰی آئینی طور پر کافی مشکل میں دکھائی دیتے ہیں۔

دوسری جانب حکومت کی جانب سے پنجاب اسمبلی میں ہنگامہ آرائی کا کیس بھی اسمبلی افسران کے خلاف جاری ہے ان کی گرفتاریوں کا بھی خدشہ ہے۔

سپریم کورٹ فیصلہ کے بعد اپوزیشن کی مشاورت

اپوزیشن اتحاد نے سپریم کورٹ کی تشریح اور ممکنہ منحرف پچیس اراکین کے خلاف الیکشن کمیشن کے فیصلہ سے متعلق جائزہ لیا گیا۔

تحریک انصاف کی سینئر لیڈرشپ کی عمران خان سے ملاقات سے پہلے سپیکر چوہدری پرویز الہٰی سے ملاقات کی سابق وفاقی وزیر مونس الہٰی بھی شریک ہوئے۔ تحریک انصاف کی پنجاب ایڈوائزر ی کونسل کے سربراہ سبطین خان اور ڈاکٹر مراد راس بھی ملاقات میں شریک ہوئے۔

مسلم لیگ ق کی جانب سے جاری اعلامیہ میں کہا گیاکہ اس ملاقات میں پنجاب کی سیاسی صورتحال پر مشاورت ہوئی آئندہ آئینی اور قانونی اپشنز کا مشاورت میں جائزہ لیا گیا۔ مشاورت میں اتفاق ہوا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد حمزہ شہباز کی جعلی حکومت کا خاتمہ ہوچکا حمزہ شہباز فوری طور پر وزیر اعلیٰ آفس چھوڑ دیں۔

اس وقت ایوان وزیر اعلیٰ میں حمزہ شہباز کی حیثیت  قبضہ گروپ کی ہےجلد آئندہ آئینی آپشنز پر پیشرفت کی جائے گی۔ اجلاس میں فیصلہ پی ٹی آئی کی قیادت نےاس مشاورتی ملاقات کے بعد عمران خان سے ملاقات کی اور انہیں اجلاس میں طے ہونے والے آپشنز سے آگاہ کیا۔

مسلم لیگ ن کی ترجمان عظمیٰ بخاری کے مطابق حکومت کی پوزیشن مستحکم ہے اور قانونی ٹیم تیار کر لی گئی  ہے نیز اپوزیشن کے ہتھکنڈے کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے گا۔

پنجاب کی سیاسی صورت حال میں ابھی تک صوبائی کابینہ تشکیل نہیں دی جاسکی جس سے عوامی مسائل سے متعلق بڑے فیصلے اور فنڈز کا اجرا مشکل ہو رہا ہےاور محکمانہ مشکلات بدستور جاری ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان