ہم میں سے ہر ایک اپنی زندگی کے کسی نہ کسی مقام پر اس شش و پنج میں مبتلا ہوتا ہے کہ آگے کیا کرنا چاہیے اور زمانہ طالب علمی میں تو یہ سوال سب سے زیادہ آڑے آتا ہے۔
بہت سے ممالک میں طلبہ کی اس مشکل کو دور کرنے کے لیے کیریئر کونسلنگ پر زور دیا جاتا ہے اور وہاں باقاعدہ کیریئر کونسلرز موجود ہوتے ہیں جو طلبہ کو رہنمائی اور مدد فراہم کرتے ہیں۔
اگرچہ پاکستان میں باقاعدہ ایسا کوئی ادارہ نہیں ہے لیکن بہت سے لوگ ہیں، جو طلبہ کو یہ سروس فراہم کرتے ہیں۔ ان ہی میں سے ایک اظہر عابدی بھی ہیں، جو 20 سال سے زائد عرصے سے تعلیم کے شعبے میں خدمات انجام دینے کے ساتھ ساتھ طلبہ کی کیریئر کونسلنگ بھی کر رہے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو نے اظہر عابدی سے کیریئر کونسلنگ سے متعلق گفتگو کی، جسے ذیل میں پیش کیا جارہا ہے۔
کیریئر کونسلنگ کیا ہے اور اس کی ضرورت کیوں ہے؟
اظہر عابدی نے بتایا کہ کونسلنگ کا مطلب ہے مشورہ لینا، رہنمائی لینا۔ یہ ہر شعبے اور زندگی کے ہر موقعے پر ضروری ہے۔ طلبہ کے تعلیمی سفر کے دوران بھی کونسلنگ، معلومات لینا اور رہنمائی حاصل کرنا بہت اہم ہے۔
مثال کے طور پر ہمارا رجحان کیا ہے؟ ہم کون سے مضامین منتخب کریں؟ ان کی مارکیٹ میں ڈیمانڈ کیا ہے؟ جب مضامین کا انتخاب کرلیا تو اس کے بعد ہمارا راستہ کیا ہوگا؟ ہمیں پڑھائی کیسے کرنی ہے؟ اور ہمیں اپنے مضمون میں بہترین کارکردگی کیسے دکھانی ہے، یہ تمام باتیں نہایت ضروری ہیں اور کیریئر کونسلنگ کے ذمرے میں آتی ہیں۔
بقول اظہر عابدی وہ تمام طلبہ جو رہنمائی کے ساتھ آئیں، وہ تعلیمی کیریئر ہو یا اس کے بعد اچھی نوکری کا حصول، اس سب میں اچھی کارکردگی دکھائیں گے۔
کیریئر کونسلنگ کی ضرورت کس مرحلے پر سب سے زیادہ ہوتی ہے؟
اظہر عابدی کہتے ہیں کہ تعلیمی سفر کے دوران کچھ مراحل ایسے ہوتے ہیں، جو بہت زیادہ اہم ہوتے ہیں، اس سٹیج پر اگر ایک غلط فیصلہ کرلیا جائے تو وہ تمام کیریئر پر اثر انداز ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا: ’تعلیمی سفر میں پہلا ٹرانزیشن سٹیج آٹھویں جماعت ہے، جب نویں جماعت میں جانے کے لیے آپ کو مضمون کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ہم میٹرک یا انٹرمیڈیٹ میں کوئی مضمون یہ سوچ کر چھوڑ دیتے ہیں کہ دوسرا مضمون آسان ہے۔ اول تو یہ پتہ ہی نہیں ہوتا کہ وہ آسان ہے یا مشکل۔ اب وہ آپ نے چھوڑ دیا اور جب وہ مرحلہ گزر گیا تو پھر آپ سوچتے ہیں کہ کاش میں وہ سبجیکٹ رکھ لیتا یا رکھ لیتی۔ چاہے اضافی مضمون کے طور پر ہی رکھ لیتے تو ہمارے سامنے بہت سے راستے کھلے ہوتے۔‘
انہوں نے مثال دی کہ بہت سے بچے کیمسٹری مشکل سمجھ کر چھوڑ دیتے ہیں لیکن انہیں یہ پتہ نہیں ہوتا کہ کیمسٹری ایک تو بہت دلچسپ مضمون ہے ، دوسرا اس کو چھوڑنے سے بہت ساری چوائسز ختم ہوجاتی ہیں، تو اس وقت کونسلنگ بہت ضروری ہے۔
اور جب یہ طلبہ یونیورسٹی میں چار سالہ پروگرام کی طرف جاتے ہیں تو انہیں لگتا ہے کہ یہ شعبہ میرے لیے مناسب نہیں ہے اور مجھے یہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔ یا شعبہ تو درست تھا لیکن ادارہ درست نہیں تھا۔
کیسے پتہ چلے گا کہ کون کیریئر کونسلر ہے؟ یا ہم کس سے رہنمائی لیں؟
اظہر عابدی کے مطابق: ’ٹرانزیشن لیول پر تو اساتذہ مل جاتے ہیں جو کافی عرصے سے کونسلنگ کر رہے ہوتے ہیں اور ان کا بہت تجربہ ہوتا ہے۔ پھر یونیورسٹی لیول پر یہ بہت اہم ہے کہ آیا آپ نے اپنے رجحان کے مطابق چار سالہ پروگرام کا انتخاب کیا ہے یا نہیں تو اس کے لیے کیریئر کونسلرز موجود ہیں۔ جس بھی پروگرام کی طرف آپ کا رجحان ہے، اس سے متعلق پیشہ ورانہ ادارے موجود ہیں، مثلاً اکاؤنٹنگ، انجینیئرنگ یا میڈیکل کے شعبوں کی رہنمائی کے لیے پروفیشنل ادارے موجود ہیں اور ان کے فعال اراکین کے علاوہ ان کی ویب سائٹس سے بھی معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں۔‘
تعلیمی سفر کے دوران مضامین کا انتخاب کیسے کریں؟
اظہر عابدی کا کہنا تھا کہ تعلیمی سفر کے لیے کونسلنگ میں بنیادی طور پر تین پہلوؤں کو مدنظر رکھنا بہت ضروری ہے۔
ذہنی رجحان
انہوں نے کہا کہ والدین کے دباؤ پر تو بالکل انتخاب نہیں کرنا چاہیے اور اگر والدین کی کوئی خواہش ہو بھی اور وہ چاہتے ہوں کہ آپ فلاں مضمون یا شعبے میں داخلہ لیں، لیکن آپ اس شعبے میں نہ جانا چاہتے ہوں تو انہیں کیریئر کونسلر کی دی گئی رہنمائی کی مدد سے راضی کیا جاسکتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مشورہ دیا کہ میٹرک اور انٹرمیڈیٹ میں خاص طور پر ذہنی رجحان دیکھیں، کبھی بھی آسانی کی بنا پر مضمون کا انتخاب نہ کریں، بلکہ یہ دیکھیں کہ کس شعبے کی ضرورت ہے اور آپ کا رجحان کہاں ہے۔
معاشی وسائل
اظہر عابدی کے مطابق بہت سے طلبہ معاشی طور پر مشکل میں ہوتے ہیں اور چار سالہ پروگرام کے دوران وسائل نہ ہونے کی وجہ سے وہ تعلیم ترک کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں، لیکن وزیراعظم کا احساس پروگرام اس سلسلے میں بہت مددگار ہے۔
انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی کے اخرجات پورے کرنے کے لیے اس پروگرام میں اپلائی کیا جا سکتا ہے اور طلبہ دیگر ایسے پروگرامز کے حوالے سے ریسرچ بھی کر سکتے ہیں۔
مارکیٹ
اظہر عابدی نے بتایا کہ کسی بھی مضمون یا شعبے کے انتخاب کے وقت یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ مستقبل قریب میں اس شعبے کی ملازمت ہوگی؟ اس سے مراد نائن ٹو فائیو کی جاب نہیں ہے، بلکہ انٹرپرینورشپ بھی ہوسکتی ہے، جس سے نئی راہیں کھلتی ہیں۔
آئندہ پانچ سے دس سالوں میں کس شعبے کا زیادہ سکوپ ہوگا؟
اظہر عابدی کے مطابق پاکستان میں ایک معروف یونیورسٹی نے حال ہی میں مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلی جنس) کی تعلیم دینی شروع کی ہے، اس شعبے میں طلبہ کو زیادہ سے زیادہ جانا چاہیے۔
ان کے بقول: ’یہ ایک نیا شعبہ ہے اور اس کے پروفیشنلز کی تعداد کم ہے۔ اس میں بھی کئی ذیلی شعبے ہیں، جن میں سپیشلائزیشن کی جاسکتی ہے، مثلاً: مشین لرننگ، کلاؤڈ یا ویب۔ اگر کسی نے بیرون ملک جانا ہے تو وہاں مشین لرننگ کی زیادہ ڈیمانڈ ہے اور اگر پاکستان میں ہی رہنا ہے تو یہاں پر ویب بیسڈ آرٹیفیشل انٹیلی جنس کا زیادہ سکوپ موجود ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ کیریئر کونسلر صرف معلومات دے سکتا ہے، اس نے فیصلہ سازی نہیں کرنی۔ یہ کام والدین اور بچوں نے خود کرنا ہے۔