پاکستانی طالب علم چین کب آ سکیں گے؟

پاکستان سے ہر سال ہزاروں کی تعداد میں طالب علم اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے چین آیا کرتے تھے، لیکن گذشتہ دو سالوں سے یہ سلسلہ کرونا کی عالمی وبا کے خلاف چین کی ’زیرو ٹالرینس پالیسی‘ کی وجہ سے رکا ہوا ہے۔

تین فروری 2020 کی اس تصویر میں چین میں زیر تعلیم پاکستانی طلبہ اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر آمد کے بعد فیس ماسک لگائے باہر آرہے ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

چین نے کرونا (کورونا) وائرس کے پھیلاؤ کو دیکھتے ہوئے مارچ 2020 میں چینی جامعات میں زیرِ تعلیم ان تمام بین الاقوامی طالب علموں کے سٹوڈنٹ ویزے کینسل کر دیے تھے، جو اُس وقت چھٹیوں یا کرونا کے باعث اپنے ملکوں میں موجود تھے۔

انہیں کہا گیا تھا کہ وہ اپنے گھروں میں حفاظت سے رہیں اور چین واپسی کے حوالے سے چینی حکومت کی نئی پالیسی کا انتظار کریں۔

دو سال بعد بھی چینی جامعات اور چینی حکومت کی طرف سے بین الاقوامی طالب علموں کی واپسی کے حوالے سے کوئی پالیسی جاری نہیں کی گئی ہے جبکہ حکومت، جامعات اور چینی سفارت خانے اسے حوالے سے کوئی بیان بھی جاری نہیں کر رہے ہیں۔

چینی وزارتِ تعلیم کی ایک رپورٹ کے مطابق سال 2019 تک چینی جامعات میں تقریباً پانچ لاکھ بین الاقوامی طالب علم زیرِ تعلیم تھے۔ ان میں سے نصف سے بھی زائد کا تعلق ایشیائی ممالک سے ہے۔

جنوبی کوریا، تھائی لینڈ اور پاکستان بالترتیب چین میں سب سے زیادہ بین الاقوامی طالب علم بھیجتے ہیں۔

اس رپورٹ کے مطابق سال 2019 تک چینی جامعات میں پاکستانی طالب علموں کی تعداد 28 ہزار تھی۔

چین میں آخری دفعہ ستمبر 2019 میں بین الاقوامی طالب علموں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔ اس کے بعد سے چینی جامعات ہر سال نئے طالب علموں کو داخلے بھی دے رہی ہیں اور تعلیم مکمل کرنے والے طالب علموں کو گریجویٹ بھی کر رہی ہیں۔

جو طالب علم چین میں موجود نہیں ہیں، ان کے لیے یہ سارا عمل آن لائن ہو رہا ہے۔

جن طالب علموں کا سال 2020 میں دو سالہ ڈگری میں داخلہ ہوا تھا، وہ اس سال جولائی میں چین آئے بغیر ہی گریجویٹ ہو جائیں گے۔

اس مشکل صورت حال کے شکار طالب علم گذشتہ کئی ماہ سے سوشل میڈیا پر #TakeUsBackToChina #TakeStudentsBackToChina  کی عالمی مہم چلا رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستانی طالب علم بھی اس کیمپین کا حصہ ہیں۔ پاکستان سے بہت سے طالب علم میڈیکل کی تعلیم کے لیے چینی جامعات میں داخلہ لیتے ہیں۔

اس وقت ان میں سے جو طالب علم پاکستان میں موجود ہیں وہ شدید مشکل کا شکار ہیں۔ پاکستان میڈیکل کی آن لائن تعلیم کو تسلیم نہیں کرتا اور چین اس وقت صرف آن لائن تعلیم ہی پیش کر سکتا ہے۔

ان کے علاوہ جو طالب علم اپنی تحقیق لیبارٹریز میں کرتے ہیں وہ بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ اول تو وہ پاکستانی جامعات کی لیبارٹریز میں نہیں جا سکتے، کسی طرح چلے بھی جائیں تو وہاں انہیں چین سے سو یا ڈیڑھ سو سال پیچھے کا زمانہ ملے گا، جس میں رہتے ہوئے وہ اپنی تحقیق مکمل نہیں کر سکتے۔

آن لائن تعلیم میں ایک اور مسئلہ اس آن لائن تعلیم کا چینی سافٹ ویئرز پر ہونا ہے۔ چینی جامعات آن لائن کلاسز کے لیے ’ڈِنگ ٹاک،‘ ’کلاس اِن‘ اور ’ٹینسنٹ میٹنگ‘ سمیت چین کے بنائے ہوئے دیگر سافٹ ویئر استعمال کر رہی ہیں۔

یہ سافٹ ویئر چین سے باہر سست رفتاری سے کام کرتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ ان کے سرورز کا چین میں ہونا اور دوسری وجہ دیگر ممالک میں انٹرنیٹ کی رفتار کا کم ہونا ہے۔

ان وجوہات کی بنیاد پر پاکستانی طالب علم چینی جامعات سے آن لائن تعلیم حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔

گذشتہ برس جولائی میں چین نے جنوبی کوریا کے طالب علموں کو واپس آنے کی اجازت دی تھی۔ تاہم، انہیں چین آ کر 21 دن اپنے خرچ پر قرنطینہ مرکز میں گزارنے تھے۔ قرنطینہ پر ایک طالب علم کا خرچ پاکستانی روپوں میں تین سے چار لاکھ کے درمیان آیا تھا۔

جنوبی کوریا کے طالب علموں کی چین واپسی کے بعد دیگر ممالک کے طالب علموں کو بھی اپنی واپسی کی امید ملی تھی۔

پاکستانی طالب علم پاکستان چین دوستی کی وجہ سے اگلا نہیں تو اس سے اگلا نمبر اپنا ہی سمجھ رہے تھے، لیکن اب تک انہیں چین کی طرف سے کوئی خبر موصول نہیں ہوئی ہے۔

ان میں سے بہت سے طالب علم کئی بار وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی سے مل چکے ہیں۔ وہ بھی بےبسی سے انہیں ٹال دیتے ہیں۔ یہ چین کی پالیسی ہے جس کا پاکستان کو ہر حال میں اچھے دوست کی طرح ساتھ دینا ہے۔

کرونا کے آغاز میں بھی پاکستانی حکومت نے ووہان میں پھنسے طالب علموں کی انہیں وہاں سے نکالنے کی درخواست مسترد کر دی تھی۔

پاکستان اس مشکل وقت میں پاکستانی طالب علموں کو ووہان سے باہر نکال کر چینی حکومت کو برا محسوس نہیں کروانا چاہتا تھا۔ اس وقت بھی پاکستان چین سے درخواست کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتا۔

اس صورت حال میں پاکستانی طالب علم یا تو صبر کر سکتے ہیں یا اپنی کوششوں کا رخ چینی حکومت کی طرف موڑ سکتے ہیں۔

اس کے لیے وہ چینی میسجنگ ایپ وی چیٹ یا چین میں ٹوئٹر کے متبادل ’ویبو‘ پر کیمپین چلا سکتے ہیں، لیکن اس صورت میں انہیں سنسر شپ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

ان کی پوسٹ شائع ہونے کے کچھ ہی دیر میں غائب ہو سکتی ہیں لیکن فیس بک یا ٹوئٹر پر کیمپین کے مقابلے میں ان پلیٹ فارمز پر چلنے والی کیمپین کا چینی حکومت کی نظر میں آنے کے امکانات بہر حال زیادہ ہیں۔

اگلے ماہ ہونے والے بیجنگ سرمائی اولمپکس کے بعد بین الاقوامی طالب علم چین کی طرف سے نرمی کی توقع کر رہے ہیں۔

انہیں یہ توقع چین کے شہر سُوجو میں قائم ڈیوک کُن شان یونیورسٹی اور شنگھائی میں نیو یارک یونیورسٹی کی شاخ کی اپنے بین الاقوامی طالب علموں کو جاری کی گئی ای میل سے ملی ہے، جس میں انہیں مارچ 2022 میں شروع ہونے والے نئے سیمسٹر میں یونیورسٹی واپس آنے کی تیاری کرنے کا کہا گیا ہے۔

فی الحال یہ بس ایک امید ہی ہے جو پوری بھی ہو سکتی ہے اور ٹوٹ بھی سکتی ہے۔

ایک سوال ابھی بھی باقی ہے کہ اگر پاکستانی طالب علموں کو قرنطینہ کی شرط پر چین آنے کی اجازت ملتی ہے تو کیا وہ اس خرچ کو برداشت کر پائیں گے؟

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ