ہائی پروفائل مقدمات سے منسلک تقریاں و تبادلے روکنے کا حکم

سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران ہائی پروفائل مقدمات میں پراسیکیوشن کو کیسز واپس لینے کے اختیار سے بھی محروم کر دیا۔ 

سپریم کورٹ آف پاکستان کی عمارت کا ایک منظر (فائل فوٹو: اے ایف پی)

سپریم کورٹ آف پاکستان نے ملک کی عدالتوں میں زیر التوا ہائی پروفائل مقدمات کی تفتیش میں مصروف قومی اداروں کے اہلکاروں کی تقرریوں اور تبادلوں کو روکنے کا حکم دیا ہے۔

اعلی عدالت نے ہائی پروفائل مقدمات میں پراسیکیوشن کو کیسز واپس لینے کے اختیار سے بھی محروم کر دیا ہے۔ عدالت عظمی نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت جمعے تک ملتوی کر دی ہے۔

سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے جمعرات کو تفتیشی اداروں میں مبینہ طور پر حکومتی مداخلت سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کی۔

چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس میاں مظہر عالم اور جسٹس مظاہر علی نقوی شامل تھے۔

سپریم کورٹ کے جج جسٹس مظہر علی نقوی کے نوٹ پر سپریم کورٹ نے تفتیشی اداروں میں ہائی پروفائل کیسز میں مبینہ حکومتی مداخلت پر بدھ کو ازخود نوٹس لیا تھا۔

سماعت کے دوران عدالت نے استفسار کیا کہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے کیسز میں تفتیشی افسران کے تقرر و تبادلے کس بنیاد پر کیے گئے؟

ایک موقع پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ نیب لاہور اور ایف آئی اے سے کئی افسران کا تبادلہ کیا گیا، ہائی پروفائل کیسز میں تبادلے اور تقرریوں پر تشویش ہے۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے اٹارنی جنرل اشتر اوصاف سے استفسار کیا کہ اس طرح کیوں ہو رہا ہے؟

انہوں نے کہا: اٹارنی جنرل صاحب، آپ کے آنے کا شکریہ، کیا آپ نے ازخود نوٹس کیس کی پیپر بک پڑھی ہے؟

اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے جواب دیا کہ پیپر بک نہیں پڑھی، جس پر انہیں سوموٹو نوٹس کی پیپر بک پڑھنے کے لیے دی گئی۔

چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ پیپر بک کا پیراگراف 2 اور3 پڑھ لیں، ایف آئی اے لاہور کی عدالت میں پراسیکیوٹر کو تبدیل کر دیا گیا، ڈی جی ایف آئی اے ثنا اللہ عباسی اور ڈائریکٹر رضوان کو بھی تبدیل کر دیا گیا، سوموٹو کا بیک گراؤنڈ آپ نے پڑھ لیا ہے؟

چیف جسٹس نے کہا کہ ڈی جی ایف آئی اے نے ایک تفتیشی افسر کو ایک مقدمے میں پیش ہونے سے منع کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ  ڈی جی ایف آئی اے نے تفتیشی افسر کو کہا کہ نئے بننے والے وزیراعلیٰ کے کیس میں پیش نہیں ہونا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پراسیکیوشن برانچ اور تفتیش کے عمل میں حکومتی مداخلت نہیں ہونا چاہیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ڈی جی ایف آئی اے سندھ سے ہیں اور اچھا کام کر رہے تھے جبکہ خیبر پختونخوا میں بھی ان کی کارکردگی اچھی رہی تھی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ڈاکٹر رضوان کو بھی تبدیل کر دیا گیا اور بعد میں انہیں دل کا دورہ پڑا، ان معاملات پر ہمیں تشویش ہے۔

وزیراعظم شہباز شریف کے ای سی ایل سے سینکڑوں نام نکالنے کا ذکر کرتے ہوئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ان معاملات کے متعلق عدالت جاننا چاہتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اخباری خبروں کے مطابق ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے متعلق حکومتی فیصلے سے تین ہزار سے زیادہ لوگوں کو فائدہ ہوا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اس قسم کی خبریں ایک ماہ سے سامنے آ رہی ہیں اور اس سے قانون کی حکمرانی متاثر ہو رہی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ عدالت یہ کارروائی فوجداری نظام اور قانون کی حکمرانی کو بچانے کے لیے کر رہی ہے اور چاہتے ہیں کہ آرٹیکل 10/A 4اور 25 پر عمل کیا جائے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس موقع پر چیف جسٹس نے چیرمین نیب، ڈی جی ایف آئی اے اور وفاقی سیکریٹری داخلہ کو مقدمات میں مداخلت کی وجوہات اور وضاحت سے متعلق نوٹس جاری کیے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ایک موقع پر کہا کہ ایف آئی اے نے ان معاملات کے تردید نہیں کی اور ان معاملات کو روٹین کا کام قراردیا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے ایک موقع پر کہا کہ یہ ٹرانسفر اور پوسٹنگز بظاہر ٹارگٹڈ لگتی ہیں۔

اس پر اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے کے پاس ان تبدیلیوں کی کوئی معقول وجہ ضرور ہوگی۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اسی پر تو عدالت کو تشویش ہے اور اسی لیے چیف جسٹس نے ازخود نوٹس لیا ہے۔

جسٹس مظاہر نقوی کا کہنا تھا کہ ای سی ایل سے نام نکالنے کے لیے درخواست دینی پڑتی ہے اور سینکڑوں لوگوں کی درخواستیں زیر التوا ہیں۔

سیاسی ردعمل

عدالت کے اس فیصلے پر حکمراں جماعت کے رہنماؤں نے تنقید کی ہے جبکہ پاکستان تحریک انصاف نے خیرمقدم کیا ہے۔

چیف جسٹس کے ازخود نوٹس لینے پر وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کا ردعمل میں کہنا ہے کہ ایک تاثر کی بنیاد پر ازخود نوٹس لینا ادارے کی ساکھ کے لیے تباہ کن ہوگا۔

ایک نجی ٹی وی چینل کے ساتھ بات کرتے ہوئے انہوں نےکہا کہ شہزاد اکبر کے ’چیلوں نے غلط مقدمے بنائے، کیا غلط مقدمے بنانے والے کا ٹرانسفر نہیں ہونا چاہیے تھا؟ میری ضمانت لینے والے جج کو وٹس ایپ پر ٹرانسفر کر دیا گیا، قانون بدلنا پارلیمنٹ کا کام ہے، اگر کوئی ترمیم قانون کے خلاف ہو تو عدالت اسے غیرآئینی قرار دے سکتی ہے۔‘

تحریک انصاف کے رہنما فرخ حبیب نے ایک ٹویٹ میں اعلی عدالتی فیصلے کو خوش آئند قرار دیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان