بلوچستان: وزیراعلیٰ بزنجو تحریک عدم اعتماد کے سامنے کو تیار

کوئٹہ میں ایک تقریب سے بات کرتے ہوئے وزیراعلی بلوچستان کا کہنا تھا کہ ’تحفظات پر کابینہ ارکان کو ہمارے نکالنے سے پہلے ہی نکل جانا چاہیے تھا۔ ہمیں عوامی مسائل کو حل کرنا تھا نہ کہ ہم اپنے ہی مسائل میں الجھے رہتے۔‘

موجودہ وزیراعلی عبدالقدوس بزنجو اس سے قبل بھی  13 جنوری 2018 سے سات جون 2018 تک بلوچستان کے 16 ویں وزیراعلیٰ  کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں (بلوچستان عوامی پارٹی)

وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو کا کہنا ہے کہ ’تحریک عدم اعتماد سیاست کا حصہ ہے، ہم بھی اس کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘

کوئٹہ میں ہزارگی کلچرڈے کے تقریب کے افتتاح کے موقع پر میڈیا سےبات چیت کرتے ہوئے وزیراعلیٰ نے کہا کہ ’تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ جس کے خلاف تحریک پیش ہو وہ یہ کہے کہ اس کے پاس نمبر پورے نہیں ہیں۔‘

عبدالقدوس بزنجو نے مزید کہا کہ ’تحفظات پر کابینہ ارکان کو ہمارے نکالنے سے پہلے ہی نکل جانا چاہیے تھا۔ ہمیں عوامی مسائل کو حل کرنا تھا نہ کہ ہم اپنے ہی مسائل میں الجھے رہتے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’بجٹ قریب ہے۔ عوامی مسائل کو ترجیحات بنانا چاہیے تھا۔ تحریک عدم اعتماد پیش کرنے والوں میں سے کسی نے اپنے تحفظات سے آگاہ نہیں کیا۔‘

قدوس بزنجو نے کہا کہ ’اگر ان کی خواہش ہے کہ وہ اقتدار میں آکر خود بجٹ پیش کریں تو وہ کوشش کرلیں۔ ہماری یہ کوشش ہے کہ کسی بھی تحریک کو طاقت کےزور پر نہ جیتا جائے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’تحریک کامیاب ہوتی ہے یا ناکام ہم بلوچستان کی روایات کے مطابق ساتھ ہی رہیں گے۔ ابھی ہماری حکومت شروع ہوئی تھی۔ اس لیے کچھ مسائل تھے۔‘

وزیراعلیٰ کا ایک سوال کےجواب میں کہنا تھا کہ ’میں نے پارٹی کے اختلافات کو ختم کرنے کے لیے اپنی ہمت کے مطابق کوشش کی۔ سردار یار محمد رند ہمارے بڑے ہیں۔ ان سے احترام کا رشتہ ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’آج اگر سردار یار محمد رند جام کمال کے ساتھ ہیں تو کوئی مسئلہ نہیں۔ ہم نے کبھی وفاق کی سیاست میں حصہ دار بننے کی کوشش نہیں کی چاہتے تھے کہ معاملات بلوچستان میں ہی حل ہوں۔‘

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہ ’اگر کوئی معاہدہ ہوا تھا مرکز میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کو سپورٹ کرنے کا تو جام کمال نے کیا ہوگا۔ بلوچستان عوامی پارٹی میں جام کمال بھی ہیں اور ہم بھی ہیں۔ اس وقت اپنی پارٹی کا پارلیمانی لیڈر ہوں۔‘

 یاد رہے کہ بلوچستان میں وزیراعلی منتخب ہونے کے چھ ماہ بعد ہی وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرادی گئی۔ جبکہ وزیراعلیٰ نے تحریک عدم جمع کرانے والوں کو عہدوں سے ہٹادیا ہے۔

سابق وزیراعلیٰ جام کمال جن کےخلاف بھی تحریک عدم اعتماد جمع کرائی گئی اور یہ تحریک جمع کرانے والوں کا تعلق بھی ان کی اپنی جماعت سے تھا۔

واضح رہے اس باربھی تحریک عدم اعتماد جمع کرانے والوں میں ظہور بلیدی شامل ہیں۔ یہ وہی منتخب نمانندے ہیں جوسابق وزیراعلیٰ جام کمال کے خلاف تحریک لانے میں پیش پیش تھے۔

اس بار تحریک عدم اعتماد میں عوامی نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر اصغر خان اچکزئی بھی شامل ہیں۔ جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے سردار یار محمد اور مبین خان بھی شامل ہیں۔ جبکہ سابقہ تحریک میں نصیب اللہ مری شامل تھے۔

دوسری جانب تحریک عدم اعتماد میں شامل صوبائی وزیرایس اینڈ جی اے ڈی نوابزادہ طارق مگسی نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا۔ انہوں نے اپنا استعفیٰ قائم مقام گورنر میر جان محمد جمالی کو پیش کردیا۔ جس کو گورنر نے منظور کرلیا ہے۔

وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو نے صوبائی وزیر نوابزادہ طارق مگسی ، پی ٹی آئی کے مبین خلجی، نعمت اللہ زہری، بی اے پی کے مٹھا خان، اے این پی کے ملک نعیم بازئی کو بھی کابینہ سے فارغ کردیا گیا۔

جبکہ تحریک عدم اعتماد پر دستخط کرنے والے وزرا اور پارلیمانی سیکرٹریز کوسبکدوش کرنے کی ایڈوائزری جاری کردی گئی۔

یاد رہے کہ سابق وزیراعلیٰ جام کمال نے تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ سے قبل ہی استعفیٰ دے دیا تھا۔

سیاسی صورت حال پر نظررکھنے والے صحافی تجزیہ کار رشید بلوچ کہتے ہیں کہ ’حالیہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے بلوچستان اسمبلی میں جمعیت علمائے اسلام اور بلوچستان نیشنل پارٹی کی حمایت ضروری ہے۔

رشید بلوچ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’بلوچستان عوامی پارٹی میں جو ناراض دھڑا جام کمال کے ساتھ تھا وہ اب بھی قدوس بزنجو کے وزیراعلیٰ بننے کے بعد سابق وزیراعلیٰ کے ساتھ ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ سابقہ تحریک عدم اعتماد میں شامل ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی اس میں شامل نہیں ہے۔ جس کو دعوت دی گئی تھی لیکن انہوں نے انکار کردیا۔ اس جماعت کا جام کمال کے ساتھ بہتر تعلق رہا ہے۔

رشید کہتے ہیں کہ ’اس تحریک میں ہمیں عوامی نیشنل پارٹی بھی تقسیم نظر آتی ہے۔ ان کے ایک رہنما وزیر ہیں۔ جبکہ صوبائی صدر اصغر خان اچکزئی تحریک کا حصہ ہیں۔ فرنٹ لائن پرموجود ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ ’اسی طرح پاکستان تحریک انصاف کے صوبائی صدر سردار یار محمد رند تحریک کا حصہ ہیں۔ جبکہ ان کےدوسرے رکن صوبائی اسمبلی نصیب اللہ مری مخالف گروہ کے ساتھ ہیں۔ جس سے ہمیں بعض جماعتیں تقسیم نظر آتی ہیں۔‘

رشید بلوچ نے کہا کہ ’بلوچستان عوامی پارٹی میں جو اختلافات ہیں اس کافائدہ جمیعت علمائے اسلام اور بلوچستان نیشنل پارٹی اٹھا سکتے ہیں۔ اس صورت حال سے فائدہ بھی انہی جماعتوں کو ہوگا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’اس وقت بلوچستان نیشل پارٹی نے کہا ہے کہ وہ تحریک عدم اعتماد کاحصہ نہیں ہے۔ دوسری جانب بلوچستان اسمبلی میں حزب اختلاف کے رہنما ملک سکندر ایڈووکیٹ نے بھی کہا ہے کہ ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ تاہم جام کمال گروپ کا کہنا ہے کہ ہمارا ان جماعتوں سے رابطہ ہوا ہے۔‘

رشید کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر جام کمال گروپ کا ان سے رابطہ ہوا ہے اور ان کے دستخط بھی نہیں تو ہوسکتا ہےکہ انہوں نے پہلے کہا ہوگا کہ آپ پہلے اپنی اکثریت ظاہر کریں۔ تحریک عدم اعتماد کے لیے 13 ارکان کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو انہوں نے پیش کردیے۔‘

انہوں نے کہا کہ جب تک جمیعت اور بی این پی اس تحریک کی حمایت نہ کریں تو اس کی کامیابی کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ تاہم اگر اس باردونوں جماعتیں تحریک کا حصہ بنیں گے تو وہ بلوچستان عوامی پارٹی کے لیے نہیں ہوگی۔

رشید کا مزید کہنا تھا کہ حزب اختلاف کی دونوں جماعتوں بی این پی اور جمیعت کا موقف ہے کہ ہم نے دو بار بلوچستان عوامی پارٹی کی حمایت کی اور اس کو وزارت اعلیٰ دی، ہم بار بار استعمال نہں ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ اس صورت حال میں تحریک عدم پیش کرنےوالوں اور حزب اختلاف کی جماعتوں میں کوئی معاہدہ ہوتا ہے تو وزارت اعلیٰ بی این پی کو مل سکتی ہے اور سپیکر جمیعت کے حصے میں آئے گی۔ اگر اس طرح ہوتا تو اس تحریک کی کامیابی کے امکانات موجود ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست