شیرین ابو عاقلہ کا قتل آزادی صحافت کے لیے خطرہ ہے

اگر شیرین کے قتل کے صحیح حالات، جو حقیقت ہوں، کا تعین نہیں کیا جاتا اور مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایا جاتا ہے تو اس سے نہ صرف مقبوضہ مغربی کنارے یا اسرائیل میں بلکہ پوری دنیا میں پریس کی آزادیوں کو خطرہ لاحق ہو جائے گا۔

فلسطینی علاقت جنین میں قتل کی جانے والی صحافی شیرین ابو عاقلہ کی تصاویر کے ساتھ 19 مئی 2022 کو شہری سیلفی لے رہے ہیں (اے ایف پی)

یہ فوٹیج اتنی دل خراش ہے کہ آپ وہیں رک جاتے ہیں۔ مختلف زاویوں سے شوٹ کی گئی کئی ویڈیوز میں اسرائیلی سکیورٹی فورسز کے ارکان کو سینیئر فلسطینی نژاد امریکی صحافی شیرین ابو عاقلہ کے جنازے میں شامل سوگواروں پر دھاوا بولتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

وہ جنازے کے شرکا کو پیچھے دھکیلتے ہیں (بعد میں اسرائیلی پولیس نے انہیں ’فسادی‘ کہا تھا) اور شیرین کے تابوت تک پہنچتے ہیں جہاں وہ ان شرکا پر لاٹھی چارج کرتے ہیں جو تابوت کو تھامے رکھنے اور اپنے دفاع کے لیے جدوجہد کر رہے ہوتے ہیں۔ تاہم پھر بھی تابوت ان کے ہاتھوں میں لڑکھڑتا ہے اور ایک سیکنڈ کے لیے سیدھا نیچے گرتا ہے اور تقریباً زمین سے ٹکرا جاتا ہے۔ اس دوران پس منظر میں سٹن گرینیڈز کا دھماکہ بھی سنائی دیتا ہے۔

شیرین ابو عاقلہ کے صحافتی ادارے الجزیرہ کے ساتھ ساتھ 11 مئی کو ان کے قتل کے جائے وقوعہ پر موجود عینی شاہدین نے الزام لگایا ہے کہ اسرائیلی سکیورٹی سروسز نے انہیں اس وقت گولی مار کر ہلاک کیا جب وہ مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیلی فوجی کارروائی کی کوریج کر رہی تھیں۔ یہ الزامات سوشل میڈیا پر قتل کی دل خراش ویڈیوز کے ابتدائی تجزیے سے بھی درست دکھائی دیتے ہیں جو اوپن سورس ریسرچ گروپ ’بیلنگ کیٹ‘ نے جاری کیے ہیں۔

الجزیرہ نے یہ بھی کہا کہ اسرائیلی سکیورٹی فورسز نے شیرین کی آخری رسومات کے جلوس پر حملہ کیا اور ان کی میت کو لے جانے والے گاڑی کی کھڑکی کو توڑ دیا۔

ابتدائی طور پر اسرائیلی حکام نے شیرین کی ہلاکت میں ملوث ہونے سے صاف انکار کر دیا تھا اور فلسطینی عسکریت پسندوں کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا لیکن بعد میں انہوں نے متضاد بیانات جاری کیے ہیں۔

انہوں نے گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ اس قتل کے دو منظرنامے ہو سکتے ہیں۔ یا تو وہ شدید فائرنگ کے تبادلے کے دوران فلسطینیوں کی گولیوں کا نشانہ بنی تھیں یا پھر وہ کسی اسرائیلی فوجی کی جانب سے چلائی گئی گولی کی زد میں آ گئی تھیں۔

اسرائیلی فوج نے یہ بھی کہا ہے کہ اس نے اپنے ایک فوجی کی گن کی نشاندہی کی ہے جس سے شیرین ممکنہ طور پر ہلاک ہو گئی ہوں گی لیکن اس کے تجزیے کے لیے گولی کی ضرورت تھی جسے فلسطینیوں نے دینے سے انکار کر دیا ہے۔

اسرائیلی ملٹری پولیس نے کہا ہے کہ وہ قتل کی مجرمانہ تحقیقات نہیں کرے گی لیکن اس حوالے سے مزید غیر رسمی تحقیقات جاری ہیں اور ساتھ ہی اسرائیل نے فلسطینیوں کے ساتھ مشترکہ تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا ہے جنہوں نے اعتماد کے فقدان کی وجہ سے یہ پیشکش مسترد کر دی۔

دریں اثنا اسرائیلی پولیس نے بظاہر بہت کم شواہد کے باوجود شیرین کے جنازے کے شرکا پر ہونے والے تشدد کے لیے ’تقریب کو سبوتاژ کرنے اور پولیس کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرنے والے‘ ’فسادیوں‘ کو مورد الزام ٹھہرایا ہے اور کہا ہے کہ اس نے اپنے افسران کے طرز عمل کی اندرونی تحقیقات بھی شروع کر دی ہیں۔ پولیس نے یہ بھی کہا کہ ’ہمیں امید ہے کہ واقعے سے سبق حاصل کیا جائے گا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لیکن بہت زیادہ بےاعتمادی اور غیر یقینی صورت حال کی موجودگی اور تعاون میں کمی کو دیکھتے ہوئے، جیسا کہ ماضی میں اسی طرح کی تحقیقات کے نتیجے میں انصاف نہیں کیا گیا، یہ واضح ہے کہ شیرین کے قتل کی فوری بین الاقوامی سطح پر تحقیقات اور ان کے جنازے میں تعزیت کرنے والوں اور سوگواروں کے ساتھ اسرائیلی سکیورٹی فورسز کے برتاؤ پر ایک الگ اور آزاد تحقیقات کی ضرورت ہے۔

اگر شیرین کے قتل کے صحیح حالات، جو حقیقت ہوں، کا تعین نہیں کیا جاتا اور مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایا جاتا ہے تو اس سے نہ صرف مقبوضہ مغربی کنارے یا اسرائیل میں بلکہ پوری دنیا میں پریس کی آزادیوں کو خطرہ لاحق ہو جائے گا۔

یہ سچ ہے کہ صحافت ایک خطرناک کام ہے۔ جب آپ ایک فعال جھڑپ میں داخل ہوتے ہیں تو آپ خطرہ مول لے رہے ہوتے ہیں لیکن ان حالات میں تصادم کی آڑ کو کسی بھی صحافی کے قتل کا جواز نہیں بنایا جا سکتا۔ ہم ڈیفالٹ کولیٹرل نہیں ہیں۔

خبروں کے لمحات میں صحافیوں کی موجودگی، جیسے وہ چھاپہ جس کے دوران شیرین کو مارا گیا، ایک حقیقی خطرہ ہے۔ رپورٹرز سچائی اور احتساب کا لازمی جزو ہیں۔ اکثر صحافی شہریوں کے لیے ضروری معلومات کی ایک لائف لائن ہوتے ہیں اور شیرین کے قتل کی طرح اگر کسی صحافی کی موت کے بارے میں شکوک و شبہات ہیں تو ایک مکمل تحقیقات کا آغاز کیا جانا چاہیے اور دو فریقوں کے تعاون میں دشواری کے پیش نظر تیسرے فریق کی شمولیت ضروری ہے۔

میں یہ آواز اٹھانے والی اکیلی نہیں ہوں۔ امریکی ایوان نمائندگان میں 57 ڈیموکریٹس نے محکمہ خارجہ اور ایف بی آئی سے شیرین کی موت کی تحقیقات شروع کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن اور ایف بی آئی کے سربراہ کرسٹوفر رے کو جمعے کو بھیجے گئے خط میں ان کا استدلال ہے کہ ایک امریکی شہری ہونے کے ناطے شیرین ابو عاقلہ بیرون ملک مقیم امریکی شہریوں کو فراہم کردہ مکمل تحفظات کی حقدار ہیں۔ انہوں نے محکمہ خارجہ کے الفاظ کا حوالہ بھی دیا جس میں کہا گیا کہ ان کی موت ’میڈیا کی آزادی کی توہین‘ ہے۔

امریکہ میں اسرائیل کے سفیر مائیکل ہرزوگ نے اس خط کی فوری طور پر مذمت کی جس میں کہا گیا ہے کہ مقدمے کی منصفانہ نمائندگی نہیں کی گئی، اہم سیاق و سباق کو نظر انداز کیا اور غلط نتیجے اخذ کیے گئے۔

انہوں نے کہا کہ پی اے (فلسطینی اتھارٹی) کی جانب سے اسرائیل کو گولی تک رسائی دینے اور تحقیقات کو مکمل کرنے کی اجازت دینے کا مطالبہ کرنے سے انصاف تک پہنچنے میں بہتری ہو گی۔

لیکن میں اس نکتے پر بحث کروں گی کہ بڑے پیمانے پر اعتماد کے فقدان کے پیش نظر جس طرح دونوں فریقین نے ایک دوسرے پر شیرین کی موت کی ذمہ داری کا الزام لگایا اور دونوں کے درمیان کسی تعاون کا امکان نہیں ہے، سچ تک پہنچنے کے لیے بین الاقوامی ثالثی کی مدد کیوں نہیں لی جاتی؟

ایک دوسرے پر الزامات اور پھر ان کی تردید اور ایک دوسرے پر انگلی اٹھانے اور کھوکھلے بیانات دینے سے اہم یہ ہے کہ اس سب سے نکلا جائے۔


نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے، ادارے کا اس سے متفق ہونا لازمی نہیں۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ