انسانی دماغ کی کون سی چیز دیگر جانوروں پر برتری دلاتی ہے؟

انسانی دماغ میں معلومات کس عمل سے گزرتی ہیں اور شعور کے معاملے میں انسان دیگر مخلوقات سے بہتر کیوں ہے، یہ جاننے کے لیے سائنس دانوں نے انسانوں اور بندروں کے دماغوں کا موازنہ کیا۔

دماغی افعال کیسے سرانجام پاتے ہیں، اس حوالے سے ہماری سمجھ بوجھ اور معلومات وقت کے ساتھ ساتھ بدلتی رہیں، لیکن موجودہ نظریاتی ماڈل دماغ کو ایک ’تقسیم شدہ معلومات پروسیسنگ سسٹم‘ کے طور پر پیش کرتے ہیں (فائل فوٹو: پکسابے)

جہاں تک شعور کا تعلق ہے تو کوئی دوسری مخلوق انسان کے قریب نہیں پھٹک سکتی۔ ہم ایسا کیوں نہ کہیں کیونکہ اب تک کسی اور مخلوق نے دوسرے سیاروں پر تحقیقاتی مشن روانہ نہیں کیے، زندگی محفوظ بنانے والی ویکسینیں تیار نہیں کیں یا شاعری کی محفلیں نہیں سجائیں۔ یہ سب ممکن بنانے کے لیے انسانی دماغ میں معلومات کس عمل سے گزریں، یہ ایک ایسا سوال ہے جس نے اپنی جانب بہت توجہ کھینچی لیکن اس کے باوجود ابھی تک کوئی حتمی نتیجہ برآمد نہ ہو سکا۔

دماغی افعال کیسے سرانجام پاتے ہیں، اس حوالے سے ہماری سمجھ بوجھ اور معلومات وقت کے ساتھ ساتھ بدلتی رہیں، لیکن موجودہ نظریاتی ماڈل دماغ کو ایک ’تقسیم شدہ معلومات پروسیسنگ سسٹم‘ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

اس کا مطلب ہے کہ دماغ الگ الگ اجزا پر مشتمل ہے جو اپنی وائرنگ کے ذریعے آپس میں مضبوطی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ رابطے کے لیے یہ مختلف ٹکڑے آپس میں معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں اور یہ سب کچھ اِن پٹ اور آؤٹ پٹ سگنلز کے نظام کے ذریعے ہوتا ہے۔

اگرچہ یہ ایک نہایت پیچیدہ تصویر کا محض معمولی سا منظر ہے۔ مختلف انواع اور متعدد نیورو سائنسی مضامین کے شواہد کا استعمال کرتے ہوئے نیچر نیورو سائنس میں شائع ہونے والی تحقیق کی مدد سے ہم یہ واضح کرتے ہیں کہ دماغ میں معلومات کی پروسیسنگ محض ایک قسم نہیں رکھتی۔ انسانوں اور دیگر پریمیٹیس (Primates) کے درمیان معلومات کی پروسیسنگ میں فرق ہے جس سے شاید یہ بات سمجھنے میں مدد ملے کہ انسانوں کی شعوری صلاحیتیں دوسروں کی نسبت اتنی بہتر کیوں ہیں۔

دماغ معلومات کو کیسے استعمال کرتا ہے یہ جاننے کے لیے ہم نے انفارمیشن تھیوری کے ریاضیاتی فریم ورک سے تصورات مستعار لیے ہیں۔ انفارمیشن تھیوری کا ریاضیاتی فریم ورک دراصل ڈیجیٹل معلومات کی پیمائش، انہیں اپنے اندر سمیٹنے اور رابطے کے لیے استعمال کرنے کا مطالعہ ہے جو انٹرنیٹ اور مصنوعی ذہانت جیسی ٹیکنالوجی کے لیے ناگزیر ہے۔ ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ دراصل دماغ کے مختلف حصے ایک دوسرے سے رابطے کے لیے مختلف قسم کی حکمت عملیاں اختیار کرتے ہیں۔

دماغ کے کچھ حصے اِن پٹ اور آؤٹ پٹ کا استعمال کرتے ہوئے بڑے روایتی انداز میں دوسرے حصوں کے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں۔ اس انداز میں سگنلز کا دوسرے تک زیادہ قابل اعتماد اور دوبارہ استعمال ہو سکنے کی حالت میں پہنچنا یقینی ہوتا ہے۔ یہ دماغ کے ان حصوں کا معاملہ ہے جو حسی اور موٹر نیورون کے افعال کے لیے مخصوص ہیں (جیسے صوتی، بصری اور حرکی معلومات کو پروسیس کرنا)۔

مثال کے طور پر آنکھوں کو ہی لے لیں، جو پروسیسنگ کے لیے دماغ کے پچھلے حصے میں سگنلز بھیجتی ہیں۔ دونوں آنکھوں سے بھیجی جانے والی بیشتر معلومات ہوبہو ہونے کے ناطے ڈپلیکیٹ ہوتی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں نصف معلومات ضرورت سے زائد ہیں۔ سو ہم اس قسم کے اِن پٹ آؤٹ پٹ انفارمیشن پروسیسنگ کو ’فالتو یا زائد‘ کہتے ہیں۔

لیکن یہ فالتو پن مضبوطی اور اعتبار بخشتا ہے، یہی وہ چیز ہے جو ہمیں اس وقت بھی دیکھنے کے قابل بناتی ہے جب ایک آنکھ کام کر رہی ہو۔ یہ صلاحیت بقا کے لیے ضروری ہے۔ دراصل یہ انتہائی اہم ہے کہ دماغ کے ان حصوں کے درمیان ربط کے لیے جسمانی طور پر دماغ میں سخت تاروں کا جال بچھا ہے جسے کسی حد تک تار والے ٹیلیفون کے نظام سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔

تاہم آنکھوں کے ذریعے فراہم ہونے والی تمام معلومات بے کار یا فالتو نہیں ہوتیں۔ دونوں آنکھوں سے پہنچنے والی معلومات کو یکجا کرنا بالآخر دماغ کو اشیا کے درمیان گہرائی اور تفریق کے ساتھ کسی فیصلے پر پہنچنے کے قابل بناتا ہے۔ یہی وہ بنیاد ہے جس پر سینیما میں کئی قسم کے تھری ڈی شیشے استعمال کیے جاتے ہیں۔

یہ معلومات کے استعمال کرنے کے بالکل مختلف طریقے کی مثال ہے، وہ اس طرح کہ اس کی مقدار الگ الگ حصوں کی اپنی مجموعی معلومات سے زیادہ بنتی ہے۔ ہم اس طرح کی انفارمیشن پروسیسنگ کو ہم آہنگی (Synergistic) کہتے ہیں جس میں دماغ کے مختلف نیٹ ورکس سے پیچیدہ سگنلز کو باہمی ربط میں پرویا جاتا ہے۔

 ہم آہنگی کا عمل دماغ کے ان حصوں میں سب سے زیادہ رائج ہے جس پر پیچیدہ شعوری افعال کا زیادہ وسیع دائرہ انحصار کرتا ہے، جیسے توجہ مرکوز کرنا، سیکھنا، قابل استعمال یادداشت، سماجی اور عددی شعور۔ ایسا نہیں ہے کہ رابطے کا یہ جال مختلف حصوں کی معلومات کو آپس میں جوڑتے ہوئے بدلے میں ہمارے تجربات تبدیل کر دیتا ہو۔ اس کا کام معلومات کو امتزاج کی سہولت فراہم کرنا ہے۔

ایسے حصے جہاں ہم آہنگی کا بہت سارا عمل ہوتا ہے، یعنی دماغ کی بیرونی تہہ کورٹیکس (Cortex)کے سامنے اور درمیان میں، وہ پورے دماغ میں پھیلے ہوئے معلومات کے مختلف ذرائع کو مربوط کرتے ہیں۔ اس لیے بنیادی طور پر حسی اور حرکت سے متعلق معلومات سے نمٹنے والے دماغ کے باقی حصوں کی نسبت وہ زیادہ وسیع اور موثر طریقے سے آپس میں جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔

اعلیٰ ہم آہنگی والے حصے جو معلومات کو جوڑنے کا انتظام کرتے ہیں ان میں بھی عام طور پر بہت سے رابطے کے مقامات (Synapses) ہوتے ہیں یعنی مائیکروسکوپک کنکشنز جو اعصابی خلیوں کا ربط ممکن بناتے ہیں۔

کیا ہم آہنگی ہمیں دوسری مخلوقات سے ممتاز بناتی ہے؟

ہم اس بات کا سراغ لگانا چاہتے تھے کہ آیا دماغ میں پیچیدہ نیٹ ورکس کے ذریعے معلومات جمع اور اختراع کرنے کی یہ صلاحیت انسانوں کو ارتقائی لحاظ سے اپنے قریبی رشتہ داروں پریمیٹس سے منفرد بناتی ہے۔

اس بات کا جواب حاصل کرنے کے لیے ہم نے مختلف انواع کے برین امیجنگ ڈیٹا اور جینیاتی تجزیوں کا مطالعہ کیا۔ ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ اگر معلومات کے مجموعی بہاؤ کو مدنظر رکھا جائے تو بندروں کی قسم مکاک(Macaque)  کے ماغوں کے مقابلے میں انسانی دماغ میں ہم آہنگی کے تعاملات کا تناسب کہیں زیادہ ہے۔ اس کے برعکس دونوں انواع کے دماغ فالتو معلومات پر انحصار کرنے کے لحاظ سے ایک جیسے ہیں۔

تاہم زیادہ ترقی یافتہ شعوری افعال سر انجام دینے والے دماغ کے اگلے حصے پری فرنٹل کورٹیکس (Prefrontal Cortex)کا بھی ہم نے خاص طور پر جائزہ لیا۔مکاکس کے اس حصے میں فالتو معلومات کی پروسیسنگ زیادہ غالب نظر آتی ہے جبکہ انسانوں میں اس حصے میں ہم آہنگی زیادہ ہوتی ہے۔  

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 پری فرنٹل کورٹیکس بھی ارتقا کے ساتھ واضح طور پر وسیع ہوا۔ جب ہم نے چمپینزی کے دماغوں کا جائزہ لیا تو ہم پر انکشاف ہوا کہ ارتقائی مراحل میں انسانی دماغ چمپینزی کے مقابلے میں جس قدر زیادہ وسیع ہوتا گیا اتنا ہی اس حصے کا ہم آہنگی (Synergy) پر انحصار بڑھتا گیا۔

ہم نے انسانی دماغوں کے جینیاتی تجزیوں کا بھی مطالعہ کیا جو مختلف لوگوں نے سائنسی تحقیق کے لیے عطیہ کر رکھے تھے۔ اس سے ظاہر ہوا کہ دماغ کے ہم آہنگی کے انفارمیشن پروسیسنگ سے وابستہ حصوں میں ایسے جینز کی موجودگی زیادہ ہوتی ہے جو خاص طور پر انسان اور اس کی دماغی نشوونما سے مخصوص ہیں اور ذہانت جیسی خصوصیات کے خد و خال متعین کرتے ہیں۔

اس سے ہم اس بات پر پہنچے کہ ارتقا کے نتیجے میں حاصل ہونے والے انسان کے اضافی دماغی ٹشو ممکنہ طور پر ہم آہنگی کے لیے ہی وقف ہو کر رہ گئے۔ اس کے بدلے میں، یہ قیاس کافی دل کش ہے کہ بہتر ہم آہنگی کی فوقیت ممکنہ طور پر انسان کی اضافی شعوری صلاحیتیوں کا کسی حد تک جواب فراہم کرتی ہے۔ ہم آہنگی شاید انسانی دماغ کے ارتقا کی پہیلی میں اہم کنجی ثابت ہوسکے جو پہلے غائب تھی۔

بہرحال آخرکار ہمارا کام یہ ظاہر کرتا ہے کہ کس طرح انسانی دماغ معلومات کی قابل بھروسہ ترسیل اور انہیں یکجا کرتا ہے اور یہ دونوں ہمارے لیے ضروری ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ جو فریم ورک ہم نے بنایا ہے وہ نیورو سائنس کے وسیع شعبے میں بصیرت کے حامل نئے سوالات کا امکان پیدا کرتا ہے، جن کا دائرہ عمومی شعور سے لے کر ڈِس آڈرز تک پھیلا ہوا ہے۔


یہ مضمون پہلے دی کنورسیشن میں شائع ہوا تھا، جسے ان کی اجازت سے یہاں شائع کیا گیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تحقیق