وزیر خزانہ کے بغیر پنجاب کا بجٹ تیار

حکومت کے مطابق مجتبیٰ شجاع الرحمن محکمہ خزانہ کے ساتھ مل کر بجٹ تیار کر رہے ہیں اور یہ بجٹ وفاق کی طرز پر تیار ہو رہا ہے۔

لاہور میں رکشہ ڈرائیورز نے مہنگائی کے خلاف تین جون کو احتجاج کیا (اے ایف پی)

پاکستان کے صوبہ پنجاب میں حکومت کے تبدیل ہونے کے بعد انتظامی اور سیاسی معاملات تاحال معمول پر نہیں آسکے ہیں، جہاں ایک جانب اتحادیوں کے ساتھ مل کر وزارتوں کی تقسیم تو دوسری طرف سپیکر پنجاب اسمبلی اور اپوزیشن کی مزاحمت کا چیلنج درپیش ہے۔

وزیر اعلیٰ پنجاب نے 30 اپریل کو عہدے کا حلف اٹھایا جبکہ آٹھ رکنی صوبائی کابینہ نے ایک ماہ بعد 31 مئی کو حلف اٹھایا تھا مگر ابھی تک وزیر خزانہ سمیت کسی بھی محکمہ کا باقائدہ قلم دان کسی کو نہیں سونپا جا سکا ہے۔

نئے گورنر پنجاب بلیغ الرحمن نے پنجاب میں جبٹ اجلاس 13 جون کو طلب کر لیا ہے لیکن تاحال وزیر خزانہ کی تقرری نہیں ہوسکی ہے۔

حکومت کے مطابق مجتبی شجاع الرحمن محکمہ خزانہ کے ساتھ مل کر بجٹ تیار کر رہے ہیں اور یہ بجٹ وفاق کی طرز پر تیار ہو رہا ہے جس میں نئے ٹیکس نہ لگانے کا امکان ہے۔

صوبائی کابینہ کا اجلاس بھی طلب کر لیا گیا ہے تاکہ بجٹ کی منظوری لی جا سکے اور بجٹ پیش کرنے کے لیے وزیر خزانہ کو ذمہ داری سونپی جائے گی۔

دوسری جانب اپوزیشن نے بھی تیاریاں شروع کر دی ہیں۔ سپیکر چوہدری پرویز الہی نے پی ٹی آئی اور ق لیگ کے اراکین صوبائی اسمبلی کا اجلاس طلب کیا ہے جس میں بجٹ سے متعلق حکومت کو ٹف ٹائم دینے کی حکمت عملی بنانے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔

وزیر خزانہ کی تقرری اور بجٹ کی تیاری

حکومت کی تبدیلی تو ہو گئی مگر عہدوں پر تقرریاں آئینی اور سیاسی وجوہات کے باعث تاخیر کا شکار ہیں جس کی بڑے وجہ اتحادیوں کی رضامندی سے معاملات چلانا ہے۔

حکمران اتحاد کے رہنما مخدوم عثمان محمود نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح  سابقہ حکومت نے نئی حکومت کی تشکیل میں ’روڑے اٹکائے‘ اور اب تک ’غیر آئینی طریقوں‘ سے ’تنگ‘ کیا جا رہا ہے۔ ایسے حالات میں تاخیر معنی نہیں رکھتی۔

انہوں نے کہا کہ حکمران اتحاد وزارتوں کی تقسیم میں کسی ابہام کا شکار نہیں ہے اس لیے وزارت خزانہ مسلم لیگ ن کے حصہ میں آئی ہے اور انہوں نے مجتبی شجاع الرحمن کو وزارت خزانہ کا نوٹیفکیشن ہونے سے قبل ہی بجٹ تیار کرنے کی ذمہ داری سونپ دی ہیں۔ وہ محکمہ خزانہ کے ساتھ مل کر بجٹ تیار کر رہے ہیں۔

مخدوم عثمان کے بقول موجودہ معاشی مسائل کے باوجود کوشش ہے کہ مہنگائی اور غربت کا شکار پنجاب کے عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دیا جائے اور معیشت بھی متاثر نہ ہو، کیونکہ سابقہ حکومت نے ’نہ صرف محکموں بلکہ خزانہ کو بھی آئی سی یو میں ڈال دیا ہے۔‘

ان کے خیال میں ایک متوازن بجٹ پیش ہوگا اور وزیر خزانہ کی ذمہ داریاں باقائدہ جلد ہی سونپ دی جائیں گی۔

ان کا کہنا ہے کہ اپوزیشن جائز تنقید کرے اور عوامی مسائل پر آواز اٹھائے گی تو ان کی بات ضرور سنیں گے لیکن اگر انہوں نے سیاسی بحران پیدا کرنے کی کوشش کی تو حکومت نے بھی جوابی حکمت عملی تیار کر رکھی ہے۔

محکمہ خزانہ پنجاب کی جانب سے جاری وضاحت کے مطابق پنجاب کا بجٹ عوام دوست ہوگا، صوبائی محصولات میں رعایت جاری رکھیں گے۔ بیان کے مطابق مالی مشکلات کے باوجود کوشش کی جا رہی ہے کہ اس بار کوئی نیا ٹیکس عائد نہ کیا جائے اور اسے وفاق کی طرز پر ہی تیار کیا جائے۔

محکمہ خزانہ کے مطابق اس بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ اور دیہاڑی دار طبقہ کے لیے خوشخبری شامل ہے۔ کم وسیلہ افراد کو بجلی کے بلوں میں رعایت دینے کا اعلان بھی شامل ہے۔

اپوزیشن کی تیاریاں

پنجاب اسمبلی میں سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا تنازع حل نہیں ہوسکا اور اپوزیشن نے موجودہ حکومت کو ابھی تک تسلیم نہیں کیا جس سے پیر کو بلائے گئے بجٹ اجلاس میں حکومت کو ٹف ٹائم دینے کی تیاری شروع کر دی گئی ہے۔

سابق وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے ایک ڈیجیٹل اشتہار بھی جاری کیا ہے جس میں وزیر خزانہ کے لاپتہ ہونے اور بجٹ پیش کرنے کے لیے وزیر خزانہ کے ملنے کی اطلاع پنجاب اسمبلی کو دینے کی اپیل کی گئی ہے۔

ایک بیان میں عثمان بزدار نے کہا ہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کا بجٹ ہمیشہ وفاقی بجٹ کے چار دن بعد پیش ہو جاتا ہے لیکن اس وقت ’ایسے نااہلوں کی حکومت مسلط کی گئی ہے جن سے وزیر خزانہ ہی نہیں لگایا جا رہا۔‘

سابق صوبائی وزیر میاں محمود الرشید نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ مسلم لیگ ن کو 30 سالہ اقتدار کا تجربہ ہونے کے باوجود ابھی تک نہ آٹھ وزیروں کو قلم دان دیے گئے نہ وزیر خزانہ مقرر ہوسکے۔

’ہم اس حکومت کو آئینی تسلیم نہیں کرتے اس لیے سپیکر چوہدری پرویز الہی نے اجلاس طلب کیا ہے جس میں ہم فیصلہ کریں گے کہ اس حکومت کا پیش کردہ بجٹ منظور ہونے دیا جائے یا نہیں۔ تاہم حکمت عملی کے بعد فیصلہ کیا جائے گا کہ وزیر خزانہ کی غیر موجودگی میں بیورو کریسی کا تیار کردہ بجٹ کیسے عوامی بجٹ ہوسکتا ہے؟‘

میاں محمود الرشید نے کہا کہ اتحادیوں میں وزارتوں کے لیے جنگ جاری ہے اور اسی لیے ابھی تک محکموں کا اعلان نہیں ہوسکا اور یہ ثابت ہوگیا کہ یہ اقتدار چاہتے ہیں، عوامی خدمت کا کوئی خیال نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت