محبت سے عشق تک، عشق سے عرفانیت تک اور عرفانیت سے پھر محبت اور عشق کے سفر کی کہانی کا نام ’دشمن‘ ہے۔
عرفانیت کے بعد پھر محبت کیسے؟ سوال تو بنتا ہے مگر ڈرامے میں ایک مکالمہ ہے کہ ’عشق اپنا وارث جنتا رہتا ہے۔‘
دوم کیا کیجیے کہ عرفانیت کے بعد وسعت نگاہ کائنات بن جاتی ہے۔
وارث کے قتل کے وقت داداجی اور اماں وڈی کی تڑپ اسی چیز کی عکاسی تھی۔
ڈراما اسی عشق کے وارث کی کہانی ہے جو سرائیکی ثقافت کے زمیندار طبقے کی انا کی بنیاد پہ مبنی ہے۔
کبھی دادا جی اور اماں وڈی کو جوانی میں محبت ہو گئی تھی اور وہ گھر سے نکل کر محبت کی دنیا بسانے چلے تھے مگر راج کوٹ کی زمین پہ ہی پکڑے گئے تھے۔ دادا جی کی آنکھوں کو روشنی سے محروم کر دیا گیا اور مائی وڈی کے سر کے بال کاٹ کرگنجا کر دیا گیا اور ایک تہہ خانے میں عمر بھر کے لیے ڈال دیا گیا۔
راج کوٹ اور ملک گھرانے میں دشمنی یہاں سے شروع ہوئی اور دونوں طرف دونوں گھرانوں کے مردوں کا قبرستان بن گیا۔
اب دونوں طرف تیسری نسل میں بھی دو ہی لڑکے زندہ بچے ہیں، جس میں داداجی کے وارث کو راج کوٹ کی سسی سے عشق ہو جاتا ہے۔ چونکہ یہ شادی آرام سے ہو نہیں سکتی تھی لہذا دونوں چھپ کے شادی کر لیتے ہیں تاکہ دونوں گھرانوں کی دشمنی ختم ہو جائے مگر انا کی دشمنی محبت سے بڑھ جاتی ہے۔
دادا جی کا عارفانہ مکالمہ ’عشق وارث جنتا رہتا ہے‘ پورا ہونے لگتا ہے کہ سسی کو اس کی ماں بیوہ کر دیتی ہے۔
انتقام اور حکمرانی کی آگ کا ایک ہی مزاج ہو تا ہے۔ یہ مرد و عورت پہ ایک ہی رنگ میں چڑھتی ہے اور وہ رنگ سفاکی کا ہے۔ دشمنی نبھانے کے لیے بھی سفاک ہونا پڑتا ہے لہذا دونوں طرف کی خواتین، چاہے مائی لالی ہو یا ملکانی، میں سفاکیت دکھائی دیتی ہے۔
عاشق ہمیشہ دردِ دل رکھتا ہے۔ اس لیے دادا سائیں ہوں یا وارث نرم دل کے انسان ہیں۔
زین کا مزاج بھی بتا رہا ہے کہ اسے اگلی اقساط میں دھواں دھار عشق ہو گا۔
بات محبت کی نہیں عشق کی ہو رہی ہے۔ عشق عرفانیت کی منزل ہے اور ہمیں تو لگتا ہے کہ بندا عاشق ہو گیا تو ولی ہو گیا۔
اماں وڈی کا کردار نائلہ جعفری نے ادا کیا۔ جہاں تک ہماری بھولی بسری یاد ساتھ دے رہی ہے اپنے آخری انٹرویوز میں وہ کہہ رہی تھیں کہ یہ بال انہوں نے کسی کردار کے لیے کٹوائے ہیں۔ اماں وڈی وہی کردار ہے جسے ملک گھر کے دادا سائیں سے عشق کی سزا عمر بھر کاٹنی پڑی مگر اسے ملال نہیں ہے۔ اس کے اندر روشنی ہو گئی ہے۔
جب وہ صوفیانہ کلام پڑھتی ہے تو پوری حویلی میں سحر طاری ہو جاتا ہے اور دردِ دل والے تڑپ اٹھتے ہیں۔
اماں کی آنکھوں سے آنسو نکل رہے ہوتے ہیں۔
ہر سال اسی دن جس دن وہ گھر سے نکلی تھی، اسے سرِ محفل لایا جاتا ہے اور سب کے سامنے اس کے سر پہ استرا پھروایا جاتا ہے تاکہ اس کو بھی سزا دی جائے اور اگلی نسلوں کو بھی آگاہ کر دیا جائے کہ عشق کی سزا ہمارے راج کوٹ میں اتنی سنگین ہے۔
لیکن وہ کیا کہتے ہیں کہ عشق نہ پوچھے ذات پات۔۔!
سیالوں کا تذکرہ ڈرامے میں ہوا تو ہمیں ہیر رانجھا یاد آ گئے، بلھے شاہ یاد آگئے اور بابا فرید کی کوئی پیشگوئی یاد آگئی۔
خیال آیا کہ یار یہ عشق کے لیے صحرا اور دریا کیوں منتخب ہوئے؟
پھر ہمیں اپنی ایک سرائیکی سہیلی بینا بخاری کی بات یاد آ گئی۔ وہ بھی وسیب کی ایک عاشق خاتون ہیں، جن سے ہم نے عشق کے بہت بھید پار کرنے سیکھے ہیں۔ وسیب ہو، حسن ہو اور عشق نہ ہو ناممکن ہے۔
بینا بتاتی ہیں کہ روہی فرید کی بھی کوئی داستان ہے، جو سینہ بہ سینہ وسیب میں چل رہی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ روہی سے وصل پہ فرید نے شب بھر دیدار میں وقف کر دی تھی کہ تمہارا حسن اگر یہ ہے تو تمہیں بنانے والا کیسا ہو گا؟
اور دادا سائیں جب اپنی آنکھوں کے نہ رہنے کی بات کرتے ہوئے مائی وڈی کو یاد کرتے ہیں تو فرید کا قصہ عشق یاد آ جاتا ہے۔
اور جب راج کوٹ اور ملک گھرانوں کے سب مرد چن چن کے مارے جاتے ہیں کہ ان کی نسلیں ختم ہو جائیں تو موسیٰ اور فرعون کا واقعہ یاد آجاتا ہے۔
کہانی رومان کے آخری درجہ عشق کی ہے جہاں وارث شاہ کہتے ہیں، ’رانجھا رانجھا کر دے نی میں آپے رانجھا ہوئی۔۔‘
موسیقی بہت کمال ہے اور کہانی کو چار چاند لگا رہی ہے۔ دل کے سارے تار بج اٹھتے ہیں۔
کیمرہ ورک بہت اعلیٰ ہے اور بڑی سکرین کا لطف اور اپنے کام پہ گرفت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
مکالمے بھی بہت اعلیٰ ہیں۔
عشق کی کہانی ہو تو عرفانیت لکھنی پڑتی ہے۔ عرفانیت کے بارے میں خیال ہوتا ہے کہ کمرشل دور میں ڈراما فلاپ ہو جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔
اگر صدیوں سے عاشقوں کی المیہ داستانوں سے زمین پہ عشق ختم نہیں ہوا تو ڈراما یا کہانی فلاپ کیسے ہو سکتی ہے۔
نائلہ جعفری اور سرفراز احمد اب اس دنیا میں نہیں، جس دنیا میں یہ ڈراما پی ٹی پہ چل رہا ہے۔
پی ٹی وی سے بہت عرصے بعد کوئی ڈراما پیش کیا گیا ہے، جو اپنے پہلے معیار کو چھو رہا ہے۔
وہی معیار کہ کہانی میں ہائی لائٹ کس بات کو کرنا ہے اور کس کو نچلے سروں میں دبا دینا ہے۔
یہاں محبت امن اور شانتی کو ہائی لائٹ کیا گیا ہے۔
مزید پڑھیے: پی ٹی وی کے کلاسک ڈرامے ’اندھیرا اجالا‘ کی دلچسپ داستان
ایوب کھوسو اور نیئر عباس بہت عرصے بعد سکرین پہ دکھائی دیئے ہیں۔ وہی کردار میں مکمل طور پہ ڈھلے ہوئے گہرے انسان کی مانند جو نام ہی پہچان ہیں۔
ڈرامے کی سب سے خوبصورت بات یہ ہے کہ نئی نسل اس دشمنی کی فضا کو ختم کرنا چاہتی ہے، اس لیے نہیں کہ وہ موت سے ڈرتے ہیں بلکہ اس لیے کہ یہ انسان سے اس کی معراج اور سکون چھین لیتی ہیں۔
دونوں طرف کی نئی نسل محبت کی پیامبر ہے۔عاشق صفت ہے اور عشق منزل پا ہی لیتا ہے، چاہے سکون کی ہو، چاہے زندگی کی!
علی معین کے لکھے ڈرامے کو دیکھتے ہوئے ندا فاضلی یاد آگئے؎
ہوش والوں کو خبر کیا بے خودی کیا چیز ہے
عشق کیجے پھر سمجھیے زندگی کیا چیز ہے!
بات سچ ہے عشق انسان کا نکتہ نظر و عمل ہی بدل دیتا ہے۔