’لیڈرشپ کا موقف ہے مشرف صاحب کو واپس آجانا چاہیے‘

انڈپینڈنٹ اردو نے سرکاری ذرائع سے تصدیق کی تو انہوں نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پہ کہا کہ یہ سچ ہے کہ مقتدر حلقے سابق آرمی چیف کو پاکستان لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

پاکستان کے سابق فوجی سربراہ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے حامی ان کی تصاویر اٹھائے ہوئے کراچی میں 13 اپریل 2014 کو احتجاج کر رہے ہیں۔ پرویز مشرف خود ساختہ جلا وطنی ختم کرکے انتخابات میں حصہ لینے وطن آئے تھے لیکن ان پر پابندی عائد کر دی گئی تھی (تصویر: اے ایف پی فائل)

پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا ہے کہ سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو پاکستان آجانا چاہیے۔

پاکستانی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے ایک پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ ’جنرل (ر) پرویز مشرف کی صحت بہت خراب ہے، اللہ تعالیٰ انہیں صحت دے، ایسی صورتحال میں پرویز مشرف کی فیملی سے رابطہ کیا گیا ہے۔ آرمی کی لیڈرشپ کا موقف ہے سابق آرمی چیف کو واپس آجانا چاہیے۔‘

پاکستانی فوج کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ’پہلے بھی واضح کر چکا ہوں، سابق وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے کہا کہ قومی سلامتی میٹنگ میں کسی نے نہیں کہا کہ سازش نہیں ہوئی، ایسا بالکل بھی نہیں ہے، اجلاس کے دوران تینوں سروسزچیفس میٹنگ میں موجود تھے، میٹنگ میں شرکا کو ایجنسیزکی طرف سے آگاہ کیا گیا، کسی قسم کی سازش کے شواہد نہیں ہیں، ایسا کچھ نہیں، میٹنگ میں کلیئر بتا دیا گیا تھا کہ کانسپیریسی کے شواہد نہیں ملے۔‘

سابق آرمی چیف و صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی طبیعت تشویشناک ہونے کی خبریں گردش میں ہیں جس کی تصدیق اُن کے اہل خانہ نے بھی کی اور دعا کی اپیل بھی کی ہے۔

اس کے بعد یہ خبریں سامنے آئیں کہ سابق آرمی چیف کی خواہش کے مطابق انہیں آخری ایام گزارنے کے لیے پاکستان لانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو نے سرکاری ذرائع سے تصدیق کی تو انہوں نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پہ کہا کہ یہ سچ ہے کہ مقتدر حلقے سابق آرمی چیف کو پاکستان لانے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں تمام تقاضے پوری کیے جا رہے ہیں۔

مزید سوال پوچھنے پر کہ سابق صدر جنرل (ر) مشرف کب تک پاکستان آجائیں گے تو انہوں نے کہا ’اس حوالے سے کچھ حتمی نہیں کہا جا سکتا کیوں کہ یہ ڈاکٹرز پر منحصر ہے کہ وہ اُن کی صحت کو دیکھتے ہوئے ہوائی سفر کی کب اجازت دیں گے۔‘

سابق وزیراعظم نواز شریف نے ٹوئٹر پر پرویز مشرف کی طبیعت اور وطن واپسی سے متعلق کہا کہ ان کی سابق صدر سے کوئی ذاتی دشمنی یا عناد نہیں ہے اور اگر وہ واپس آنا چاہیں تو حکومت سہولت فراہم کرے۔

وزیر دفاع خواجہ آصف نے اس معاملے پر سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر بیان دیا کہ ’جنرل مشرف کی خراب صحت کے پیش نظر ان کو وطن واپس آنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے۔ ماضی کے واقعات کواس سلسلے میں مانع نہیں ہونے دینا چاہیے۔ اللہ ان کو صحت دے اور وہ عمر کے اس حصہ میں وقار کے ساتھ اپنا وقت گزار سکیں۔‘

واضح رہے کہ چند روز قبل ذرائع ابلاغ پر سابق صدر اور فوجی سربراہ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے انتقال کی خبریں گردش کر رہی تھیں جس کے بعد اُن کے اہل خانہ نے جنرل مشرف کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے بیان جاری کرتے ہوئے انتقال کی تردید کی تھی

اور کہا تھا کہ ’جنرل مشرف وینٹیلیٹر پر تو نہیں تاہم گذشتہ تین ہفتوں سے ہسپتال میں داخل ہیں اور اُن کی بیماری اس سٹیج پر ہے کہ علاج ممکن نہیں رہا اور جسم کے اعضا بھی کام نہیں کر رہے اُن کی آسانی کے لیے دعا کریں۔‘

پرویز مشرف کے قریبی ساتھی میجر جنرل ریٹائرڈ راشد قریشی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ وہ اُن کے اہل خانہ کے ساتھ رابطے میں ہیں لیکن اُن کے علم میں فی الحال ایسا کچھ نہیں کہ مشرف صاحب کو پاکستان لایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ آخری ایام مادر وطن میں گزارنے کی جنرل مشرف کی خواہش ضرور ہوگی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان