جرمنی: فوڈ بینک کہلانے والے سستے بازاروں میں رش بڑھنے لگا

پاکستان میں حکومت کی جانب سے غریب عوام کی سہولت کے لیے سستے بازاروں کا قیام عام بات ہے لیکن جرمنی میں بھی بڑھتی ہوئی مہنگائی کے پیش نظر اسی طرز پر فوڈ بینک موجود ہیں۔

جرمنی کے شہر برلن کے مضافات میں سپر مارکیٹوں سے ہٹ کر ایک چھوٹے سے سٹور کے باہر شاپنگ ٹرالیاں تھامے کئی شہری قطار میں کھڑے نظر آتے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

یوکرین جنگ کے پیش نظر اجناس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے جرمنی میں افراط زر 30 سال کی بلند ترین سطح  7.9 پر ہے اور فوڈ بینک کہلانے والے سستے بازاروں میں رش بڑھنے لگا ہے۔

جرمنی میں سپر مارکیٹوں سے کم قیمت پر اشیائے خورد و نوش مہیا کرنے کے لیے فوڈ بینک موجود ہیں جہاں سے مہنگائی کا شکار غریب عوام خریداری کر سکتے ہیں۔

پاکستان میں سستے بازاروں کے قیام سے عوام کو ریلیف فراہم کرنا عام بات ہے لیکن یورپ بھر میں یوکرین جنگ کی وجہ سے اجناس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے جرمنی میں بھی بعض تنظیموں کو اس طرف متوجہ کیا ہے۔

جرمنی کے شہر برلن کے مضافات میں سپر مارکیٹوں سے ہٹ کر ایک چھوٹے سے سٹور کے باہر شاپنگ ٹرالیاں تھامے کئی شہری قطار میں کھڑے نظر آتے ہیں۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں ایک فوڈ بینک موجود ہے، جہاں مارکیٹ کے مقابلے میں کم قیمت پر اشیائے ضروریہ مہیا کی جاتی ہیں۔

ان میں سے کچھ اشیا ایسی ہوتی ہیں جو سپر مارکیٹوں میں فروخت ہونے کی میعاد مکمل کر چکی ہوتی ہیں، جس کے باعث انہیں وہاں سے ہٹا دیا جاتا ہے۔

گبریل واشاہ ایک 65 سالہ خاتون ہیں اور اپنی کفالت خود کرتی ہیں۔ انہوں نے کبھی سوچا نہ تھا کہ بڑھاپے میں سستے بازاروں کے چکر لگانے پڑیں گے لیکن مہنگائی کے باعث وہ بھی فوڈ بینک سے خریداری کرتی ہیں۔

مزید پڑھیے: سکیورٹی گارڈز کو مفت فاسٹ فوڈ کھلانے والے تاجر

انہوں نے دیگر اشیا کے ساتھ دہی کے ڈبے بھی اپنی ٹرالی میں بھرے، جو سپر مارکیٹ میں فروخت ہونے کی میعاد پوری کر چکے ہیں، لیکن ان کے چہرے پر اطمینان جھلک رہا ہے۔

گبریل نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا: ’ڈبل روٹی جس کی قیمت دو یوروز ہے، میرے لیے خریدنا ممکن نہیں۔ مکھن اور ساسیج بھی۔ یہ کبھی 99 سینٹس کا ملتا تھا اب بعض اوقات دو یوروز کا پڑتا ہے۔‘

دو یوروز تقریباً 430 پاکستانی روپے بنتے ہیں۔ جڑواں شہروں راولپنڈی اور اسلام آباد میں اب بھی ڈبل روٹی کی اوسط قیمت 120 سے 150 روپے کے درمیان ہے۔

گبریل نے اپنی مجبوری بتاتے ہوئے مزید کہا کہ ’کبھی تو میں دکان سے گھر آنکھوں میں آنسو لے کر جاتی ہوں کیونکہ بہت سی اشیا ایسی ہیں جو میں اب خریدنے کی متحمل نہیں۔‘

برلن کی ایک شہری لیونی کا کہنا تھا کہ ’ہم کچھ بھی خریدنے سے پہلے دو مرتبہ سوچتے ہیں۔ ہم خود سے سوال کرتے ہیں کہ کیا ہمیں یہ واقعی چاہیے یا ہم اس کے بغیر بھی گزارہ کر سکتے ہیں اور سیل لگنے کا انتظار کریں۔‘

پیٹر بیہمی کی عمر 69 سال ہے اور انہیں شکوہ ہے کہ ریاست بڑھتی ہوئی مہنگائی پر ریلیف کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کر رہی۔

ان کا کہنا تھا: ’ریاست کی جانب سے امداد ناکافی ہے۔ صرف ایک چیز ہی نہیں بلکہ متعدد عوامل مل کر ہماری جیب پر اثرانداز ہوتے ہیں۔‘

مہنگائی کے اس دور میں فوڈ بینک سے ٹرالی بھر اشیائے خوردنوش تقریباً 30 یوروز میں خریدی جا سکتی ہیں۔

فوڈ بینک کے ڈائریکٹر نوربرٹ ویخ کا منصوبہ ہے کہ جرمنی کی سپر مارکیٹوں میں نہ بکنے والی اشیا کو عطیہ کرنے کا قانون متعارف کروایا جائے۔

نوربرٹ ویخ نے بتایا: ’ہم کافی عرصے سے حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ ایک ایسا قانون بنایا جائے جو سپر مارکیٹوں کو مجبور کرے کہ فروخت نہ ہونے والی اشیا عطیہ کر دیں، جیسا کہ فرانس میں ہے، تاہم ابھی تک اس سلسلے میں کچھ بھی نہیں ہوا۔‘

یہ بھی پڑھیے: ہانگ کانگ کی گلی میں مفت کھانا بانٹتا نیلا ریفریجریٹر

جرمن حکومت نے سکڑتی ہوئی مالی صورت حال سے دباؤ ختم کرنے کے لیے فیول پر سے ٹیکس کم کیے ہیں، لیکن پھر بھی اس کے اثرات نچلے طبقے تک پہنچ نہیں پائے۔

اب تو کئی فوڈ بینکوں کو بھی اجناس کی قیمتیں بڑھانا پڑ رہی ہیں۔

ایسے ہی ایک فوڈ بینک کی مینیجر مالینا جانکو کا کہنا ہے کہ ’ہمیں کچھ اشیا کی قیمتیں 20 سے 50 سینٹس تک بڑھانی پڑیں کیوں کہ ہمیں مزید مال خریدنے کے لیے اضافی پیسوں کی ضرورت تھی۔‘

جرمنی کی ایک غیر سرکاری تنظیم ڈیوتشیر پاریتائیشی گیسامتویر بینڈ کی دسمبر 2021 میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق جرمنی میں 16 فیصد افراد غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ تعداد ایک کروڑ 30 لاکھ بنتی ہے۔

فوڈ بینک کے ڈائریکٹر ویخ کا کہنا ہے کہ ’یہ ارادہ ہے کہ جب ہماری ضرورت نہیں رہے گی تو ہم انہیں ختم کر دیں گے۔‘

ویخ کی عمر 72 سال ہے اور ان کا کہنا ہے: ’مجھے لگتا ہے میری زندگی میں تو ایسا ممکن نہیں ہو پائے گا۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا