بھارت کی روس سے تیل کی خریداری: مشرق وسطیٰ پر اثرات

جون میں بھارت کی ماسکو سے خام تیل کی درآمد میں 21 فیصد تک اضافہ ہوا ہے جس کے بعد روس بھارت کو تیل فراہم کرنے والا دوسرا سب سے بڑا ملک بن گیا۔

بھارتی شہر امرتسر میں 25 مارچ 2022 کو ایک پیٹرول پمپ پر شہری بائیک میں پیٹرول ڈلوا رہے ہیں۔ بھارت روسی تیل کا سب سے بڑا خیردار بنتا جا رہا ہے (اے ایف پی)

روس دنیا کی تیسری سب سے بڑی تیل کی منڈی بھارت میں تیزی سے قدم جما رہا ہے اور نئی دہلی کے تاریخی سب سے بڑے سپلائرز سعودی عرب اور عراق کی جگہ لے سکتا ہے۔

تجزیاتی کمپنی کپلر کی جانب سے دی انڈپینڈنٹ کو فراہم کردہ اعداد و شمار اور کے مطابق جون میں بھارت کی ماسکو سے خام تیل کی درآمد میں 21 فیصد تک اضافہ ہوا ہے جس کے بعد روس بھارت کو تیل فراہم کرنے والا دوسرا سب سے بڑا ملک بن گیا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو 2021 تک روس بھارت کو تیل فراہم کرنے والا 10واں بڑا ملک تھا۔

یوکرین پر حملے کے بعد بہت سے روایتی یورپی خریداروں کی جانب سے منہ موڑ لینے کے بعد روس نے بھارت کو سستے خام تیل کی فروخت کی پیشکش کی جس کی جنوری اور فروری تک روس سے تیل کی تجارت صفر تھی لیکن نئی دہلی کی جانب سے یہ رعایتی نرخ حاصل کرنے کے بعد جون میں یہ سپلائی بڑھ کر ریکارڈ ساڑھے نو لاکھ بیرل یومیہ تک پہنچ گئی۔

بھارت کی جانب سے اس قدر خریداری نے روس اور بھارت کے روایتی ٹاپ سپلائر عراق کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کر دیا ہے۔ جون میں عراق نے بھارت کو تقریباً 10 لاکھ بیرل یومیہ فروخت کیا جس سے مئی کے بعد بغداد سے درآمدات میں معمولی کمی واقع ہوئی۔

سعودی عرب سے درآمدات مئی میں یومیہ 697000 بیرل سے کم ہو کر جون میں 686000 بیرل یومیہ رہ گئیں۔ کویت کے ساتھ درآمدات کم ہو کر اپریل تک ایک لاکھ بیرل تک پہنچ گئیں جو رواں سال فروری میں 297000 بیرل یومیہ کی بلند ترین سطح پر تھیں۔

ان ممالک سے تیل کی درآمد جون میں معمولی طور پر بڑھ کر 233000 بیرل یومیہ ہو گئی۔

کپلر کے تیل کے لیڈ تجزیہ کار میٹ سمتھ کا کہنا ہے کہ گذشتہ دو مہینوں میں بھارت کو روسی خام تیل کی درآمدات میں بڑے پیمانے پر اضافے کا مطلب یہ ہے کہ ’مشرق وسطیٰ یعنی عراق اور سعودی عرب کے ساتھ ساتھ دیگر خطوں سے تیل کی ترسیل میں کمی آئی ہے۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ (روس سے تیل) درآمدات ’تاریخی سطح‘ پر ہیں کیونکہ یہ کمپنی کے ریکارڈ کے مطابق 2013 کے بعد سے سب سے زیادہ ہیں۔

دوسری جانب کرونا وبا کے بعد کاروبار کی بحالی کی وجہ سے 2021 کے مقابلے میں بھارت کی خام تیل کی مجموعی مانگ اس سال تقریباً 13 فیصد بڑھ گئی۔

بھارت تیل صاف کرنے کا ایک بڑا مرکز ہے جہاں خام تیل کی درآمد اور پھر اس سے ریفائنڈ مصنوعات جیسے پیٹرول اور ڈیزل کو برآمد کیا جاتا ہے۔ لہذا اس کی ریفائنڈ مصنوعات کی برآمدات میں بھی اضافہ ہوا ہے جو 2021 کے مقابلے میں تقریباً نو فیصد زیادہ ہے اور یہ نئی دہلی کے لیے ایک منافع بخش سودا ہے۔

تھنک ٹینک ڈریگن فلائی میں جنوبی ایشیا کے سکیورٹی اور سیاسی رسک کے لیڈ تجزیہ کار تھامس مرفی نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’بھارت کے لیے، سستا روسی تیل خریدنے کا موقع مغرب کے ساتھ سیاسی توازن برقرار رکھنے کا عمل ہے۔ روس سے سستا تیل حاصل کرنا قلیل مدت میں بھارت کے لیے ایک منافع بخش ڈیل کی طرح ہے۔‘ 

لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ معاہدہ طویل مدت میں کچھ سیاسی نشیب و فراز کا باعث بن سکتا ہے کیونکہ انہیں توقع ہے کہ بھارت کو یوکرین میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لیے نہ تو روس پر پابندیاں لگانے اور نہ ہی ماسکو کو جوابدہ ٹھہرانے کے لیے امریکہ اور یورپ دونوں کی طرف سے بڑھتی ہوئی تنقید اور سفارتی دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ تنازع چار ماہ سے زائد عرصے سے جاری ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بھارت کی تیل کی منڈی میں ہونے والی اس بڑی تبدیلی سے نئی دہلی کے اتحادیوں میں بھی بےچینی پیدا ہونے کی توقع ہے جن کے اقتصادی اور تجارتی روابط صدیوں پرانے ہیں۔

لندن کے کنگز کالج میں بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر ہرش وی پنت نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ اگر مشرق وسطیٰ کے تیل کے سب سے بڑے خریدار بھارت اور چین آہستہ آہستہ ان پر انحصار کرنا چھوڑ دیں تو مشرق وسطیٰ کے ممالک کو اپنی طویل مدتی حکمت عملی کے بارے میں احتیاط سے سوچنا ہو گا۔

مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک کی آمدنی کا انحصار تیل کی فروخت پر ہے۔ دنیا کے تقریباً 65 فیصد تیل کے ذخائر مشرق وسطیٰ میں ہی موجود ہیں۔

سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سمیت خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) ممالک کے ساتھ بھارت کی دو طرفہ تجارت مارچ 2022 کو ختم ہونے والے مالی سال میں 150 ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔

تاہم ان کا کہنا ہے کہ بھارت روس کے رعایتی تیل کا زیادہ سے زیادہ استعمال کر رہا ہے کیونکہ ماسکو نے متبادل خریداروں تک پہنچنے کے لیے ترغیبات دی ہیں جب کہ مشرق وسطیٰ نے توانائی کے بحران کے دوران قیمتوں میں ڈرامائی طور پر اضافہ کیا۔

ان کے بقول: ’مجھے نہیں لگتا کہ مشرق وسطیٰ اسے ایک طویل مدتی سٹریٹجک چیلنج کے طور پر دیکھے گا لیکن عارضی طور پر اس کے مشرق وسطیٰ کے لیے مضمرات ہوں گے۔ اگر آپ کے پاس چین اور بھارت جیسے خریدار ہیں جو مشرق وسطیٰ میں تیل کے دو سب سے بڑے درآمد کنندہ ہیں اور وہ روس کی ترغیب سے فائدہ اٹھا رہے ہیں، اور یہ عارضی ہو سکتا ہے، لیکن ایسا ہو رہا ہے اور کوئی نہیں جانتا کہ جنگ کب تک چلے گی۔‘

ان کا کہنا ہے کہ یہ سوال کہ آیا روس ان ایشیائی ممالک کو بھاری رعایتی سودوں کے ساتھ راغب کر سکے گا جب یورپ اس سال کے آخر تک ماسکو سے تیل خریدنا مکمل طور پر بند کر دے گا، وہ یقینی طور پر طویل مدتی پالیسیز کا تعین کرے گا۔ کیونکہ بھاری رعایتیں دینا طویل مدت کے لیے قابل عمل نہیں ہے۔

انہوں نے کہا: ’مشرق وسطیٰ کو یہ معلوم کرنا ہوگا کہ آیا انہیں اس راستے پر چلنا ہے یا تیل کی منڈیوں کو دوبارہ ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ بھارت مشرق وسطیٰ کے لیے ایک اہم مارکیٹ ہے اور دہلی کے لیے مناسب قیمت ترجیح ہے۔

دوسری جانب بھارت اور اسلامی دنیا کے درمیان نئی دراڑیں بھی ابھر رہی ہیں کیونکہ بڑھتی ہوئی اندرونی فرقہ وارانہ کشیدگی نے اسلامی ممالک کے ساتھ نئی دہلی کے تعلقات کو متاثر کیا ہے۔

جون میں 15 سے زیادہ اسلامی ممالک نے بھارت کی حکمران دائیں بازو کی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی ترجمان نوپور شرما کی جانب سے پیغمبر اسلام کے بارے میں دیے گئے توہین آمیز بیانات کی مذمت کی تھی۔

قطر، کویت اور ایران سمیت کئی مسلم اکثریتی ممالک نے بھارتی سفیروں کو طلب کرکے بی جے پی کے رہنماؤں کے بیانات پر احتجاج کیا جب کہ عرب ممالک میں مسلم علما کی جانب سے بائیکاٹ کے مطالبے کے بعد بھارتی مصنوعات کو مارکیٹس میں ہٹا دیا گیا تھا۔

اس سفارتی دباؤ پر قابو پانے کے لیے بی جے پی نے نوپور شرما اور نوین جندال کی پارٹی رکنیت معطل کر دی۔ ان رہنماؤں نے اسلام مخالف بیانات دیے تھے لیکن بی جے پی نے ان کے بیانات پر معافی نہیں مانگی وہ صرف یہ کہتے رہے کہ پارٹی ’کسی بھی مذہبی شخصیت کی توہین کی سختی سے مذمت کرتی ہے۔‘

بھارت پر روسی تیل چھوڑنے کے لیے دباؤ بڑھتا رہے گا کیونکہ امریکی صدر جو بائیڈن اگلے ماہ مشرق وسطیٰ کے اپنے دورے کے دوران سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور تیل سے مالا مال اتحادیوں کے رہنماؤں سے ملاقات کریں گے۔

امریکہ اور مغرب کے دباؤ کے باوجود یوکرین کی جنگ پر اپنے غیر جانبدارانہ موقف پر قائم رہتے ہوئے بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے یکم جولائی کو دو طرفہ تجارت اور بین الاقوامی توانائی کی صورت حال پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے روسی صدر ولادی میر پوتن سے بات کی تھی۔ 24 فروری کے حملے کے بعد یہ ان کی روسی صدر سے چوتھی ٹیلی فونک کال تھی۔

بھارت نے ایک ایسے وقت میں روس سے اپنی خریداری میں اضافہ کیا ہے جب برطانیہ، امریکہ اور یورپی یونین نے کریملن کی جنگی فنڈنگ میں کمی کے لیے ماسکو پر بھاری پابندیاں عائد کی ہیں۔ 

امریکہ نے مارچ میں روسی تیل کی درآمد پر پابندی لگا دی تھی جبکہ یورپی یونین نے کہا تھا کہ وہ رواں سال دسمبر تک روسی تیل کی خریداری کو مرحلہ وار ختم کر دے گی۔

حالیہ مہینوں میں EU-27 ممالک کو روسی تیل کی ڈیلیوری اوسطاً 12 لاکھ بیرل یومیہ رہی ہے۔ یہ اتنی مقدار ہے جس کی جانب بھارت بڑھ رہا ہے۔ یورپی یونین کی جنگ سے قبل روسی درآمدات 22 لاکھ بیرل یومیہ تھیں جو اب تقریباً ایک تہائی کم رہ گئی ہیں۔

بھارتی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر نے تجزیہ کاروں اور عالمی رہنماؤں کی جانب سے یہ پوچھے جانے پر سرزنش کی کہ کیا بھارت جنگ کے دوران مالی موقع پرستی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔

جے شنکر نے جون میں کہا تھا: ’اگر بھارت روس سے تیل خرید رہا ہے تو کیا وہ جنگ کی فنڈنگ کر رہا ہے؟ مجھے بتائیے تو پھر روسی گیس خریدنا جنگ کی فنڈنگ نہیں ہے؟ جنگ کی فنڈنگ صرف بھارتی رقم سے ہو رہی ہے اور روسی تیل صرف بھارت آ رہا ہے اور روس کی گیس یورپ نہیں آرہی؟ آئیے تھوڑا سا غیر جانب دار بنیں۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا