مسٹر ایکس کون ہیں؟

کپتان صاحب کے پاس اگر واقعی ٹھوس ثبوت موجود ہیں تو الیکشن کمیشن، ٹربیونل یا کسی بھی عدالتی فورم کے سامنے لائے جانے چاہییں وگرنہ 2013 کے دھاندلی الزامات اور 2022 کے غیر ملکی سازش کے الزامات کی مانند یہ بھی ’شیر آیا شیر آیا‘ کی ایک فرضی چیخ پکار ہی ہوگی۔

سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان 22 جون 2022 کو اسلام آباد میں ’حکومت کی تبدیلی کی سازش اور پاکستان میں عدم استحکام‘ کے موضوع پر ایک تقریب سے خطاب کر رہے ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

آٹھ سال قبل بالی وڈ کی ایک فلم ’مسٹر ایکس‘ کے نام سے آئی تھی جو اپنی ریلیز کے ساتھ ہی بری طرح پِٹ گئی تھی، جس کی وجہ اس فلم کا کمزور سکرپٹ اور بےتکی اداکاری تھی۔

فلم کی کہانی ہی کچھ ایسی تھی کہ ایک شخص تجربہ گاہ میں کسی تجربے کے نتیجے میں پوشیدہ یا انسانی آنکھ سے اوجھل رہنے کی حالت میں چلا جاتا ہے اور پھر اس اَن چاہی زبردستی مسلط کردہ کیفیت کا غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے جاننے والوں سے گن گن کر اور چن چن کر بدلے لیتا ہے۔

پاکستانی سیاست میں بھی لگتا ہے آج کل اسی فلم کی کہانی جیسا کوئی کردار چل رہا ہے۔ کپتان صاحب تجربہ گاہ کے ناکام تجربے کے نتیجے میں اقتدار کے منظر نامے سے اوجھل کیا ہوئے ہیں، اپنے ہی کرم فرماؤں سے بدلے لیے چلے جا رہے ہیں۔ لیکن اِس سیاسی ’مسٹر ایکس‘ کی کہانی بھی ویسی ہی بوگس اور کمزور لگتی ہے جس کا عنقریب عوامی اور انتخابی باکس آفس پر پِٹ جانا مقدر کا لکھا نظر آتا ہے۔

کچھ زیادہ وقت تو نہیں گزرا، 2013 کے الیکشن کے بارے میں بھی جناب کپتان صاحب کے کم و بیش ایسے ہی الزامات تھے جیسے وہ آج ’مسٹر ایکس، مسٹر وائے‘ کے نام سے لجائے لجائے شرمائے شرمائے کھل کر نام لینے سے کترائے کترائے بیان کرتے ہیں۔

کم از کم اس وقت تو جراتِ کپتان کا یہ عالم تھا کہ سابق آرمی چیف جنرل کیانی تک کو با آوازِ بلند نام لے کر الیکشن دھاندلی میں ملوث قرار دے دیا گیا تھا۔ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری تک کو بھی نام لے کر انتخابی دھاندلی کے الزامات میں گھسیٹا گیا۔

سابق جسٹس خلیل الرحمان رمدے کا تو پورا ایک سیل تشکیل دلوا دیا گیا تاکہ الزامات کی گٹھڑی کو بھاری بھرکم دکھایا جا سکے۔ ملٹری انٹیلی جنس کے بریگیڈیئر، ایڈووکیٹ جنرل ریاض کیانی، اردو بازار سے جعلی بیلٹ پیپر چھاپنے والے حافظ سعید شوکت، 35 پنکچر کے لیے نجم سیٹھی۔۔۔ بوگس الزامات کی ایک طویل فہرست ہے جو ہماری بھولی بھالی قوم کی قلیل مدت یادداشت سے تو محو ہو سکتی ہے لیکن بطور صحافی ہم تاریخ کے ان واقعاتی لمحات کو نہ تو بھول سکتے ہیں، نہ بھولنے دے سکتے ہیں۔

اردو بازار میں چھپائی والے حافظ سعید شوکت تو الزامات کے خلاف لیگل نوٹس لے کر پہنچ گئے تھے۔ سو جنابِ کپتان کے ان تمام بوگس الزامات کا وہی حشر ہوا تھا، جیسا کہ 1981 میں پرتھ کے میدان میں ڈینس لِلی کے ہاتھوں ہوا یا جیسا ابھی حالیہ سپریم کورٹ فیصلے کے بعد بوگس اور مبینہ غیر ملکی سازش کے بیانیے کا ہوا۔

مزے کی بات تو یہ ہے کہ 2013 میں بھی کپتان صاحب کی طرف سے دھاندلی کے الزامات اور اصرار کے بعد ہی اس وقت کے چیف جسٹس پاکستان جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن تشکیل پایا، لیکن جب تحقیقات کے لیے ثبوت فراہم کرنے کا وقت آیا تو ثبوت ندارد۔

عوامی کھپت کے لیے تو میڈیا پر خوب کَھپ مچائی گئی اور کمزور بیانیے کو مصنوعی سیاسی تنفس بھی بہم پہنچایا گیا لیکن ملک کی اعلیٰ ترین عدالت میں اعلیٰ ترین کمیشن کی سربراہی میں منصفِ اعلی کے سامنے شواہد دیتے وقت کہا گیا کہ ’واقعاتی تناظر کو ثبوت‘ تسلیم کر لیا جائے، یعنی کہ محض سنی سنائی کہانیوں جو کہ چند سیاست دانوں کے بیانات اور دو عدد من پسند اینکر صاحبان کی گھڑی ہوئی داستانوں پر مشتمل تھا، اسی کی بنیاد پر فیصلہ سنا دیا جائے۔

ظاہر ہے کہ ان الزامات کا بھی وہی حشر ہو کر نشر ہونا تھا جو اب مبینہ غیر ملکی سازش کے الزامات کا ملک کی اعلیٰ ترین عدالت اور منصفِ اعلیٰ کے فیصلے میں سامنے آیا ہے۔ وہی الزامات کی گٹھڑی، وہی جوڈیشل کمیشن کا مطالباتی ڈھنڈورا، لیکن تحقیقات کے لیے ثبوت اور مواد مانگا جائے تو آئیں بائیں شائیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

گمان غالب ہے کہ اب کی بار بھی کسی نے کپتان صاحب کے کان میں کچھ پھونک دیا ہو گا اور کانوں سنی کہانی اب ’ایکس وائے‘ کے فرضی ناموں سے آگے پھیلائی جا رہی ہے۔

کپتان صاحب کے پاس اب کی بار اگر واقعی کوئی ٹھوس ثبوت موجود ہیں تو لازماً الیکشن کمیشن یا ٹربیونل یا کسی بھی عدالتی فورم کے سامنے لائے جانے چاہییں وگرنہ 2013 کے دھاندلی الزامات اور 2022 کے غیر ملکی سازش کے الزامات کی مانند یہ بھی محض ’شیر آیا شیر آیا‘ کی ایک فرضی چیخ پکار ہی ہو گی جس پر آئندہ کوئی بھی اعتبار کرنے کو تیار نہ ہو گا۔

جنابِ کپتان کے لیے ایک مخلص مشورہ یہ ہے کہ جیسے کرکٹ میں بلے اور گیند کی ساکھ برقرار رکھنے کے لیے لازم ہے کہ گراؤنڈ میں پرفارمنس دکھائی جائے، ویسے ہی سیاسی میدان میں سیاست دان کے لیے ساکھ برقرار رکھنے کے لیے لازم ہے کہ جو بات اس کے منہ سے نکلے اس کے پیچھے ٹھوس ثبوت یا بنیاد لازمی ہونی چاہیے وگرنہ ہوائی بیانات محض ہوا میں بلا گھمانے کے ہی مترادف ہوتے ہیں، جن کی وجہ سے رفتہ رفتہ سیاست دان پر وسیع عوامی اعتبار گھٹتا چلا جاتا ہے اور جناب کے معاملے میں تو یہ واضح طور پر نظر بھی آ رہا ہے۔

 2011 یا 2013 کے مقابلے میں عوام کی اب بہت کم تعداد رہ گئی ہے جو کپتان کی باتوں پر آنکھ، کان اور عقل بند، صم بکم اعتبار کرنے کو آمادہ ہے۔ خاص طور پر 10 اپریل 2022 کے بعد سے جناب خان صاحب کے بیانیے اور عوامی گرفت کی کئی ایک جہتیں عیاں و عریاں ہوئی ہیں۔

وقتی طور پر عوامی ردعمل کا ایک ’ببل‘ تو تھا جو دِکھنے میں بڑا سونامی نظر آتا تھا لیکن وقت گزرنے کے بعد یہ محض بلبلے سے زیادہ ثابت نہ ہوا۔ پہلے تو جن پر تکیہ تھا انہی پتوں نے ہوا دی اور چند پھول پتی ستارہ پتی بیانات نے لنکا ڈبو دی۔ پھر ’مرے کو مارے شاہ مدار‘ کے مصداق رہی سہی کسر سفید عمارت کے فیصلے نے سفیدی پھیر کر پوری کر دی۔

اب باقی رہ کیا گیا غیر ملکی سازش کا پھٹا ہوا ڈھول پیٹنے کو۔ ملک کے تمام اعلیٰ ترین ادارے تو اس الزام کو رد کر چکے، اب کپتان صاحب کیا سی آئی اے سے تحقیقات کروائیں گے؟

پہلے بھی کئی بار احتراماً عرض کیا کہ غیر ملکی سازش کے کمزور بیانیے کے تِلوں میں تو اب تیل باقی نہیں بچا۔ ویسے بھی دو ہی روز قبل وزیراعظم شہباز شریف نے تیل سستا کیا ہے، سو وہ ڈلوائیں اپنے دوست کی گاڑی میں یا سرکاری جہاز کے کھاتے میں، جس کے استعمال کے ریفرنس سے فی الحال اور تاحال کپتان صاحب کسی نامعلوم فیض کے صدقے محفوظ ہیں۔

اور جس طرح ضمنی الیکشن کے لیے ہنگامی طوفانی دورے کیے جا رہے ہیں، اسی طرح پنجاب اور خیبر پختونخوا میں خصوصاً اور سندھ اور ملک کے دیگر علاقوں میں عموماً اپنی جماعت کی تنظیمِ نو کی طرف بھرپور اور خصوصی توجہ دیں۔ پنجاب کے ضمنی الیکشن میں تو خان صاحب کی جماعت کتنے پانی میں کھڑی ہے یہ کل شام تک واضح ہو ہی جائے گا مگر مجموعی طور پر جماعت کا انتخابی شیرازہ بکھر رہا ہے اور اگر فوری توجہ نہ دی گئی تو پوری طرح تتر بتر ہونے کے قریب جا پہنچے گا۔

تب نہ مسٹر ایکس یا مسٹر وائے کے جعلی الزامات بچا پائیں گے بلکہ خدا نہ کرے کہ کہیں خود ہی کپتان صاحب ملکی سیاست کے مسٹر ایکس (Ex) نہ بن جائیں۔ اس کے خدشات بھی بعید از قیاس نہ رہیں گے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مشتمل ہے۔ انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ