شام: داعش کے سابق گڑھ میں جیکی چن کی فلم کی شوٹنگ

شوٹنگ سے پہلے ہونے والی چھوٹی سی تقریب کے دوران ایک ٹینک کے سامنے چینی، عربی اور انگریزی زبانوں میں ایک سرخ بینر لہرایا گیا تھا جس پر ’امن اور محبت‘ تحریر تھا۔

24 فروری 2022 کی اس تصویر میں شامی صوبے ادلیب کے شہر اریہا میں نوجوان اپنی ایکروبیٹک مہارت کی نمائش کرتے ہوئے(اے ایف پی)

شام کے دارالحکومت دمشق کے قریب عالمی دہشت گرد تنظیم داعش کا سابق ہیڈ کوراٹر جو 2018 کے آپریشن کے بعد ایک کھنڈر کا منظر پیش کرتا تھا اب جیکی چن کی پروڈکشن میں بننے والی ایکشن فلم کی شوٹنگ کا مرکز بنا ہوا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ’ہوم آپریشن‘ نامی یہ فلم 2015 میں یمن کی جنگ سے چینی اور دیگر غیر ملکی شہریوں کے انخلا پر بنائی جا رہی ہے۔ یہ ایک ایسا آپریشن تھا جس کو چین میں ایک سنگ میل کے طور پر دیکھا گیا۔

یمن کو شوٹنگ کے لیے انتہائی خطرناک جگہ سمجھا جاتا ہے اس لیے فلم کے کچھ مناظر شام میں شوٹ کیے جا رہے ہیں حالانکہ سکرپٹ میں ’پومن‘ نامی ایک خیالی ملک کا ذکر ہے۔

شام میں شوٹ ہونے والی اس فلم میں اماراتی پروڈکشن کمپنی بھی کام کر رہی ہے جہاں جمعرات کو دمشق کے قریب حجر الاسود کے کھنڈرات میں یمنی قبائلی لباس میں ملبوس اداکار، یونیفارم پہنے ہوئے شامی ایکسٹرا اور چینی فلم کے عملے کے ارکان کسی حقیقی جنگ کا منظر پیش کر رہے تھے۔

جیکی چن اس پروجیکٹ کے مرکزی پروڈیوسر ہیں تاہم ان کا شام کا دورہ کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔

فلم کو ایک بلاک بسٹر کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے جس میں چینی فوجی اہلکاروں کی بہادری کو اجاگر کیا گیا ہے۔

صحافیوں سے بات کرتے ہوئے فلم کے ہدایت کار ینکسی سونگ نے تصدیق کی کہ یہ ایک پروپیگنڈہ پروجیکٹ ہے۔

انہوں نے کہا: ’اس میں کمیونسٹ پارٹی سے وابستہ ان سفارت کاروں کا نقطہ نظر پیش کیا گیا ہے جنہوں نے جنگ زدہ یمن سے تمام چینی ہم وطنوں کے محفوظ انخلا کے لیے انہیں جنگی جہاز تک لاتے وقت گولیوں کی بوچھاڑ کا سامنا کیا تھا۔‘

شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت کے ساتھ اچھے سفارتی تعلقات برقرار رکھنے والے چند ممالک میں سے ایک چین کے سفیر بھی شوٹنگ کے وقت داعش کے سابق گڑھ میں موجود تھے جہاں شوٹنگ کئی دنوں تک جاری رہنے کی امید ہے۔

شوٹنگ سے پہلے ہونے والی چھوٹی سی تقریب کے دوران ایک ٹینک کے سامنے چینی، عربی اور انگریزی زبانوں میں ایک سرخ بینر لہرایا گیا تھا جس پر ’امن اور محبت‘ تحریر تھا۔

’کم لاگت والا سٹوڈیو‘

حجر الاسود جس کا عربی میں مطلب ہے ‘سیاہ چٹان‘ ہے کبھی دمشق کا ایک گنجان آباد مضافاتی علاقہ تھا جو یرموک کے فلسطینی پناہ گزین کیمپ کے ساتھ واقع ہے۔

یہ دونوں علاقے 2011 میں شروع ہونے والی خانہ جنگی کے اہم مقامات بن گئے تھے اور کم از کم جزوی طور پر داعش کے زیر کنٹرول تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مئی 2018 میں شامی حکومت کی حامی فورسز کی طرف سے دونوں علاقوں سے داعش کے خاتمے کے لیے بڑے پیمانے پر آپریشن کا آغاز کیا تھا جس کے بعد یہ علاقے کھنڈرات کا ڈھیر بن گئے۔

آپریسن کے بعد چند رہائشی اس علاقے کے سب سے کم تباہ شدہ حصوں میں واپس آ گئے ہیں باقی مکمل طور پر غیر آباد ہیں۔

اس آپریشن میں یہ علاقہ تباہ حال اور ٹوٹی ہوئی عمارتوں کے خوفناک جنگل میں تبدیل ہو گیا تھا جو فلم کی شوٹنگ کے لیے ایک آئیڈئل لوکیشن ثابت ہوئی اور پروڈکشن ٹیم کو ایسا سیٹ بنانے کے لیے خطیر رقم بھی خرچ نہیں کرنا پڑی۔

ہوم آپریشن کے شامی عملے سے وابستہ ہدایت کار رواد شاہین نے کہا: ’شام میں جنگ زدہ علاقے فلم سٹوڈیو میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ یہ علاقے فلم پروڈیوسروں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ان علاقوں سے ملتے جلتے سٹوڈیوز کی تعمیر بہت مہنگی ہے اس لیے ان علاقوں کو کم لاگت والے سٹوڈیوز تصور کیا جاتا ہے۔‘

پروڈکشن ٹیم کا کہنا ہے کہ وہ شام میں فلم بنانے کے لیے کئی دیگر مقامات کو استعمال کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جہاں صدر اسد کے دونوں اتحادی ایرانی اور روسی پروڈکشنز کے بینر تلے کئی پروجیکٹ بھی شوٹ کیے گئے ہیں۔

شام کو بین الاقوامی پابندیوں کا بھی سامنا ہے جو جنگ کے دوران نہ پھٹنے والے ہتھیاروں سے بھی بھرا ہوا ہے۔ پچھلے سال بارودی سرنگوں سے دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہلاکتیں شام میں ہی ریکارڈ ہوئی تھیں۔

بحری قزاقوں کے خلاف بحیرہ عرب میں گشت پر مامور چنی بحریہ کے جہازوں کو 2015 میں یمن کی طرف موڑ دیا گیا تھا تاکہ جنگ میں پھنسے ہوئے 10 مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے سیکڑوں افراد کو وہاں سے نکالا جا سکے۔

اس کامیاب آپریشن کو بیجنگ نے اپنی بحریہ کے لیے ایک قابل فخر لمحہ قرار دیا تھا۔

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا