پاکستان معاشی تباہی کی طرف نہیں جا رہا: گورنر سٹیٹ بینک

سٹیٹ بینک آف پاکستان کے قائم مقام گورنر ڈاکٹر مرتضیٰ سید نے کہا عالمی سطح پر مہنگائی بڑھنے کے باوجود پاکستان اس طرح کے خطرے سے دوچار نہیں ہے جیسا کہ سمجھا جا رہا ہے۔

پاکستانی روپے کے مقابلے میں ڈالر کی اڑان مسلسل جاری ہے (اے ایف پی)

سٹیٹ بینک آف پاکستان کے قائم مقام گورنر ڈاکٹر مرتضیٰ سید نے ان خبروں کی تردید کی ہے کہ ملک معاشی تباہی کی طرف بڑھ رہا ہے۔

بینک کی طرف سے منعقد ایک پوڈ کاسٹ میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’عالمی سطح پر مہنگائی بڑھنے کے باوجود پاکستان اس طرح کے خطرے سے دوچار نہیں ہے جیسا کہ سمجھا جا رہا ہے۔‘

انہوں نے تاہم کہا کہ جیسا کہ دنیا ابھی بھی کویڈ 19 وبائی بیماری کے اثرات پر قابو پانے میں مصروف ہے، اگلے 12 ماہ عالمی معیشت کے لیے بہت چیلنجنگ ہوں گے۔

ڈاکٹر مرتضیٰ سید نے یقین دلایا کہ سٹیٹ بینک کی موجودہ قیادت تمام ریگولیٹری کاموں کے انتظام کے لیے پوری طرح اہل اور مکمل طور پر مجاز ہے۔

’ہم بین الاقوامی اقتصادی ماحول میں موجودہ مشکلات پر قابو پانے کے لیے عالمی اداروں کے ساتھ پوری طرح مصروف ہیں۔ قوم کو سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی منفی جعلی خبروں کو مسترد کرنا چاہیے کیونکہ اب ایک نیا سٹیٹ بینک بورڈ بھی مقرر کر دیا گیا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی اجناس کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافہ ہو رہا ہے اور فیڈرل ریزرو اپنی پالیسیوں کو سخت کر رہا ہے، جب کہ تمام ممالک جغرافیائی سیاسی کشیدگی سے پریشان ہیں۔ ابھرتی ہوئی منڈیوں کو افراط زر میں تیزی سے اضافے کا سامنا ہے، جبکہ قرضوں کی بلند سطح والے ممالک میں مالی دباؤ بڑھ رہا ہے۔

قائم مقام گورنر ڈاکٹر مرتضیٰ سید نے کہا، ’پاکستان دنیا کے سب سے زیادہ غیر محفوظ ممالک میں شامل نہیں ہے، اس لیے اس کے شہریوں کو گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ پاکستان کی مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) کے 70 فیصد پر قرض کی سطح معقول ہے۔

سید نے کہا کہ پاکستان کے قرض سے جی ڈی پی کے تناسب کو گھانا (80 فیصد تناسب)، مصر (90 فیصد تناسب) اور زیمبیا (100 فیصد تناسب) کے ساتھ درجہ بندی کرنا جائز نہیں ہے، جبکہ سری لنکا میں 120 فیصد تناسب ہے۔

ان کے مطابق: ’پاکستان کا بیرونی قرضہ جی ڈی پی کا 40 فیصد ہے، جب کہ تیونس کا 90 فیصد، انگولا کا 120 فیصد اور زیمبیا کا 150 فیصد ہے۔ خوش قسمتی سے پاکستان اپنے ملکی قرضوں پر زیادہ انحصار کر رہا ہے، جو ہماری اپنی کرنسی میں قابلِ ادائیگی ہیں اور ان کا انتظام کرنا آسان ہے ان بیرونی قرضوں کے مقابلے میں جو غیر ملکی کرنسیوں میں قابل ادائیگی ہیں۔‘

پاکستان کے صرف سات فیصد بیرونی قرضے قلیل مدتی ہیں، دوسرے ممالک نے بہت زیادہ قلیل مدتی بیرونی قرضے لیے ہیں، جیسے ترکی نے 30 فیصد تک۔ پاکستان نے اپنے قرضوں کا صرف 20 فیصد تجارتی شرائط پر لیا ہے، جو کہ رعایتی قرضے ہیں، جو آئی ایم ایف، ورلڈ بینک یا دوست ممالک سے لیے گئے ہیں۔ اس لیے ان قرضوں کو واپس کرنا ہمارے لیے آسان ہے اور پاکستان کے تمام قرضوں کے اشارے ان ممالک سے بہت بہتر ہیں جنہوں نے زیادہ تجارتی قرضے لیے ہیں۔

’پاکستان کی معیشت کوویڈ کے اثرات سے اچھی طرح سے بحال ہو رہی تھی، پچھلے سال چھ فیصد ترقی حاصل کی تھی اور امید ہے کہ اس سال بھی۔ لہذا، ہم اپنی معیشت کو تھوڑا سا سست کرنے کے متحمل ہوسکتے ہیں۔ ہم نے اس حکمت عملی کے مطابق اپنی پالیسیوں کو ایڈجسٹ کرنے پر کام شروع کردیا ہے۔

انہوں نے کہا: ’ایس بی پی کی طرف سے شرح سود میں بہت تیزی سے اضافہ کیا گیا ہے، جبکہ دیگر کمزور ممالک نے اپنی شرح سود میں اضافہ نہیں کیا ہے۔ اس سال پاکستان کا بجٹ مشکل ہو گا، اس لیے ہم اپنی قوم کی معاشی کمزوری کو کم کرنے کے لیے بیلٹ کو کسنے پر کام کر رہے ہیں۔

مرتضیٰ سید نے کہا کہ اگلے 12 مہینوں میں جن ممالک نے آئی ایم ایف پروگرام لیا ہے، وہ گھانا، زیمبیا، تیونس اور انگولا جیسی ریاستوں کے مقابلے میں زیادہ محفوظ ہوں گے، جنہیں آئی ایم ایف کی حمایت حاصل نہیں ہے اور انہیں بڑے دباؤ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’ہم نے آئی ایم ایف کے ساتھ موجودہ جائزہ مکمل کر لیا ہے اور ہم نے ان کی تمام ضروریات کو پورا کرتے ہوئے آئی ایم ایف سے سٹاف لیول کا معاہدہ حاصل کرنے کے مشکل کام کو کامیابی سے کیا ہے۔ اب بڑے پیمانے پر فنڈنگ حاصل کرنے کے لیے آئی ایم ایف بورڈ سے منظوری حاصل کرنا ہمارے لیے بہت آسان ہونا چاہیے۔‘

سٹیٹ بینک کے قائم مقام گورنر نے کہا، ’ہم دوست ممالک سے کچھ اضافی فنڈنگ اور تیل کی مالی اعانت بھی حاصل کریں گے۔ اس لیے پاکستانیوں کو چاہیے کہ وہ اپنے ذہنوں میں موجود تمام معاشی خدشات کو دور کر دیں۔‘

سٹیٹ بینک کے ڈپٹی گورنر ڈاکٹر عنایت نے کہا کہ پاکستان کے پاس تقریباً 9.3 بلین ڈالر کے زرمبادلہ کے ذخائر ہیں۔ ذخائر کی یہ موجودہ سطح زیادہ اچھی نہیں ہے اور ہم اسے پاکستان کے تین ماہ کے درآمدی بلوں کے برابر کرنا چاہیں گے۔ تاہم یہ موجودہ سطح قوم کے لیے بہت کم یا تشویشناک نہیں ہے۔ پاکستان کے پاس تقریباً 3.8 بلین ڈالر مالیت کے سونے کے ذخائر بھی ہیں۔‘

عنایت نے کہا، ’فی الحال ہم ایک کمزور بحران میں نہیں ہیں، لہذا ہمیں سونے کے ان ذخائر کو گروی رکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں گھبرانا نہیں چاہیے۔ میں پاکستانیوں کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ جعلی خبروں کو مسترد کر دیں جو پاکستان کے لیے قیامت کا منظر پیش کرتی ہیں۔‘

ان کے مطابق دسمبر 2021 سے روپے کی قدر میں بہت تیزی سے تقریباً 18 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ تاہم اس گراوٹ کا 12 فیصد اس لیے ہوا کیونکہ امریکی فیڈ ریزرو نے امریکی ڈالر کی قدر کو بڑھانے کے لیے اپنی شرح سود میں بہت جارحانہ اضافہ کیا۔ پاکستان میں بڑھتی ہوئی درآمدات اور ڈالر کی طلب کی وجہ سے بھی روپے پر دباؤ پیدا ہوا جبکہ جغرافیائی، سیاسی اور ملکی غیر یقینی صورت حال کے باعث ڈالر کی سپلائی کم رہی۔

’ہم توقع کرتے ہیں کہ درآمدات بتدریج کم ہوں گی، اس لیے ڈالر کی طلب اور رسد میں یہ فرق کم ہو جائے گا۔ پاکستان میں زرمبادلہ کی منڈی مستقل طور پر کام کر رہی ہے، جبکہ مرکزی بینک اس مارکیٹ کو چوکس طریقے سے کنٹرول کر رہا ہے تاکہ رکاوٹوں یا خرابیوں کو روکا جا سکے۔‘

ڈپٹی گورنر ڈاکٹر عنایت کے بقول: ’گذشتہ چند مہینوں کے دوران، تیل اور گیس کے عالمی سپلائرز نے مطالبہ کرنا شروع کر دیا ہے کہ پاکستانی بینک کی طرف سے کھولے گئے کسی بھی لیٹر آف کریڈٹ کی بین الاقوامی بینک سے تصدیق ہونی چاہیے، اس لیے پاکستان میں تیل اور گیس کے درآمد کنندگان کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ان کے درآمدی ایل سی کے طریقہ کار میں کچھ مشکلات ہیں مگر اب اس صورت حال میں نمایاں بہتری آئی ہے۔‘

ڈپٹی گورنر سیما کامل نے ’میرا پاکستان میرا گھر‘ سکیم پر تبادلہ خیال کیا۔ یہ سستی فنانسنگ سکیم کم آمدنی والے طبقے کو اپنا گھر خریدنے میں سہولت فراہم کرنے کے لیے بنائی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ تاہم اسے عارضی طور پر روک دیا گیا ہے، کیونکہ معاشی دباؤ بڑھ رہا تھا اور موجودہ حکومت کو اس بڑے پیمانے پر اقدام کے مالیاتی ماڈل میں کچھ تبدیلیاں کرنے کی ضرورت تھی۔ وزیر خزانہ نے اب فیصلہ کیا ہے کہ جن مستحقین نے تمام رسمی کارروائیاں مکمل کر لی ہیں، انہیں یہ ہاؤس لون بہت جلد جاری کر دیا جائے گا۔

’وقت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم محنت کریں اور اپنی معیشت پر اعتماد پیدا کریں، اپنے لوگوں کے حوصلے بلند کریں۔ مل کر ہم متعدد چیلنجز پر قابو پالیں گے اور تمام منفی چیزوں کو شکست دیں گے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت