تین بچیوں کے ریپ میں ایک ہی ملزم ملوث نکلا: پشاور پولیس

خیبر پختونخوا کے آئی جی پولیس نے بتایا کہ پشاور میں رواں مہینے تین کم عمر بچیوں کے ریپ کیسز میں ایک ملزم کا ڈی این اے میچ ہوگیا۔

پشاور میں پولیس نے 28 جولائی، 2022 کو ریپ کیسز کے ملزم کو میڈیا کے سامنے پیش کیا (پشاور پولیس)

خیبر پختونخوا کے انسپکٹر جنرل پولیس معظم جاہ انصاری کا کہنا ہے کہ پشاور میں رواں مہینے تین کم عمر بچیوں کے ریپ کیسز میں زیرحراست افراد میں سے ایک ملزم کا ڈی این اے میچ ہو گیا۔

انہوں نے پشاور میں ایک پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ ان کیسز میں ملزم کی گرفتاری پولیس کے لیے ایک بڑا چیلنج تھا کیونکہ پہلے واقعے میں انہیں درکار شواہد اور ثبوت نہیں مل رہے تھے۔

’دوسرے واقعے میں ہمیں کچھ معلومات اور شواہد ملے لیکن اصل ملزم تک پہنچنے کے لیے ہم نے کئی مشتبہ افراد کو گرفتار کیا، ہزاروں گھنٹوں کی سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کرکے دیکھی، جو آسان نہ تھا۔‘

انہوں نے ملزم کی شناخت بتاتے ہوئے کہا کہ 25 سے 30 سالہ ملزم سہیل کا تعلق پشاور کے علاقے سفید ڈھیری سے ہے اور وہ پیشے کے لحاظ سے زری (کپڑوں پر کڑھائی) کا کام کرتے ہیں۔

آئی جی پولیس نے کہا کہ ملزم ذہنی طور پر ’کافی چالاک اور ہوشیار ہے، لیکن انھوں نے اپنی عقل مندی منفی کاموں میں استعمال کرنے کو ترجیح دی۔‘

واضح رہے رواں ماہ تین جولائی کو صدر چھاؤنی ریلوے کوارٹرز میں 10 سالہ بچی سودا لینے دکان گئی لیکن کچھ دیر بعد اس کی نیم برہنہ لاش ملی۔

دوسرا ریپ کا واقعہ 10 جولائی کو گلبرگ کے علاقے میں پیش آیا جب ایک پانچ سالہ بچی کو نشانہ بنا کر چھوڑ دیا گیا۔ میڈیکل رپورٹ کے مطابق بچی کا ریپ ثابت ہوا تھا۔

پشاور پولیس کے مطابق متاثرہ بچی کو مشتبہ ملزمان کی تصاویر دکھائی گئی تھیں لیکن تازہ اطلاعات کے مطابق ملزم حلیہ بدل کر بچیوں کو نشانہ بناتا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تیسرا واقعہ 17 جولائی کو پشاور صدر میں ہی کالی باڑی کے علاقے میں سات سالہ حبا کے ساتھ اس وقت پیش آیا جب وہ دکان پر اپنے نانا کو دوپہر کا کھانا پہنچا کر گھر واپس لوٹ رہی تھی۔

ملزم نے بچی کو ریپ کا نشانہ بنا کر قتل کرنے کے بعد لاش ایک خالی پلاٹ میں پھینک دی تھی۔

بچوں کے حقوق پر کام کرنے والے رضاکار عمران ٹکر کے مطابق بچوں کے ریپ کے واقعات اس سے کہیں زیادہ ہیں لیکن بدقسمتی سے وہ رپورٹ نہیں ہوتے۔

’جو رپورٹ ہو بھی جاتے ہیں اور ملزم کو گرفتار کر بھی لیا جائے تو انہیں منطقی انجام تک نہیں پہنچایا جاتا۔‘

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ایسے واقعات سے بچنے کے لیے عوام میں بہت زیادہ آگہی پھیلانے کی ضرورت ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان