جوڈیشل کمیشن: ججز کی تعیناتی پر اکثریت کی مخالفت، ’اجلاس موخر‘

ججز کی تعیناتی کے معاملے پر سپریم جوڈیشل کونسل کے اجلاس کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس اور جوڈیشل کمیشن کے ممبران کو خط لکھ ہے۔

سپریم کورٹ اسلام آباد بتاریخ 25 جولائی 2022 (تصویر: اے ایف پی)

سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ ججز کی تقرری کے لیے جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کے نامزد کردہ پانچ ججز کے نام زیر غور آئے جن پر تفصیلی بحث کے بعد اجلاس مؤخر کر دیا گیا ہے۔

اجلاس میں شریک چند اراکین نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ جوڈیشل کمیشن کے پانچ ارکان نے سپریم کورٹ میں تعیناتیوں کی مخالفت کی۔

مخالفت کرنے والوں میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس سردار طارق مسعود کے علاوہ اٹارنی جنرل اشتر اوصاف، وزیر قانون اعظم نزید تارڑ اور نمائندہ پاکستان بار کونسل ایڈووکیٹ اختر حسین بھی شامل ہیں۔

اس حوالے سے سپریم کورٹ کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس نے زیر غور ججز کے حوالے سے مزید معلومات اور مزید ججز کے نام شامل کرنے کے لیے اجلاس موخر کیا۔

اعلامیے کے مطابق چیف جسٹس پاکستان کے نامزد کردہ ناموں پر جوڈیشل کونسل کے اجلاس میں تفصیلی بحث ہوئی جس کے بعد کونسل کے چیئرمین نے اجلاس مؤخر کرنے کی تجویز دی تاکہ چیف جسٹس نامزد ججز کے حوالے سے اضافی معلومات سامنے رکھ سکیں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ’چیف جسٹس پاکستان مناسب سمجھیں تو وہ اس فہرست میں مزید نام بھی شامل کر سکتے ہیں۔‘

سپریم کورٹ کے بیان کے مطابق جسٹس اعجاز الحسن، جسٹس سجاد علی شاہ، جسٹس سرمد جلال عثمانی اور اٹارنی جنرل پاکستان نے اجلاس مؤخر کرنے کی تجویز کی حمایت کی۔

بیان کے مطابق  آئندہ اجلاس کی تاریخ کے حوالے سے جلد جوڈیشل کمیشن کے ممبران کو آگاہ کیا جائے گا۔

قاضی فائز عیسیٰ کا خط

ججز کی تعیناتی کے معاملے پر سپریم جوڈیشل کونسل کے اجلاس کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس اور جوڈیشل کمیشن کے ممبران کو خط لکھ ہے۔

جسٹس قاضی فایز عیسیٰ نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ ’اجلاس کے بعد چیف جسٹس اچانک اٹھ کر چلے گئے، قوم کی نظریں جوڈیشل کمیشن پر ہیں۔ قائم مقام سیکرٹری جوڈیشل کمیشن حقائق سے میڈیا کو آگاہ کریں۔‘

خط میں مزید لکھا گیا ہے کہ ’آج ججز تعیناتی پر جوڈیشل کمیشن کا اجلاس ہوا۔ میرے اور جسٹس سردار طارق مسعود سمیت پانچ ارکان نے نامزد ججز کو مسترد کیا۔‘

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لکھا کہ ’وزیر قانون، اٹارنی جنرل، پاکستان بار نے چیف جسٹس کے نامزد ججز کو مسترد کیا۔ لاہور ہائی کورٹ کے ایک اور سندھ ہائی کورٹ کے تین جونیئر ججز کی نامزدگیوں کو مسترد کیا گیا۔‘

جوڈیشل کمیشن کا اجلاس

جوڈیشل کمیشن کا اجلاس جمعرات کو دو بجے ہونا تھا تاہم تاخیر کے بعد اجلاس تقریباً ساڑھے تین بجے شروع ہوا اور شام چھ بجے تک جاری رہا۔

اجلاس میں موجود سپریم کورٹ بار کے نمائندہ اختر حسین نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’ہمیں پہلے بھی تحفظات تھے اور سینیئر ججز کو نظر انداز کرنے پہ ابھی بھی تحفظات ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’سنیارٹی بالکل نظر انداز نہیں ہونی چاہیے۔ اگر کسی کی سنیارٹی نظر انداز ہو رہی ہے تو اس کی کوئی ٹھوس وجہ تو ہو۔‘

’ہم نے سوال اٹھایا کہ پنجاب سے سپریم میں سات ججز ہیں، ہم نے درخواست بھی کی کہ ایک جج اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کا نام پر بھی غور کر لیں وہ سینیئر جج ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

واضح رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 25 جولائی کو چیف جسٹس کو ایک خط لکھا تھا جس میں انہوں نے اجلاس کو مؤخر کرنے کی درخواست کی تھی۔ تاہم جب اجلاس موخر نہ ہوا تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپین سے بذریعہ ویڈیو لنک اجلاس میں شرکت کی، جبکہ اٹارنی جنرل اشتر اوصاف طبعیت کی ناسازی کے باعث میں امریکہ تھے، انہوں نے بھی بذریعہ ویڈیو لنک اجلاس میں شرکت کی۔

جوڈیشل کمیشن نے پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس قیصر رشید، لاہور ہائی کورٹ سے جسٹس شاہد وحید، جبکہ سندھ ہائی کورٹ سے جسٹس حسن اظہر، جسٹس شفیع صدیقی، جسٹس نعمت اللہ کے ناموں پر غور کیا جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے سینیئر جج اور چیف جسٹس اطہر من اللہ کا نام شامل نہیں کیا گیا۔

معلومات کے مطابق لاہور ہائی کورٹ میں جسٹس شاہد وحید سنیارٹی کے لحاظ سے چوتھے نمبر پہ ہیں، جبکہ سندھ ہائی کورٹ میں حسن اظہر، جسٹس شفیع صدیقی، جسٹس نعمت سندھ اللہ باالترتیب پانچویں، چھٹے اور ساتویں نمبر پر ہیں۔

اجلاس سے ایک روز قبل ججوں کی سنیارٹی کو نظر انداز کرنے کے معاملے پر سپریم کورٹ بار کے صدر احسن بھون اور پاکستان بار کے صدر نے میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا تھا کہ تمام بار ایسوسی ایشنز نے اعلیٰ عدلیہ میں سنیارٹی کے برخلاف ہونے والی تقرریوں کو نہ ماننے کا فیصلہ کیا ہے، چیف جسٹس پاکستان اور جوڈیشل کمیشن ممبران سنیارٹی اصول کو مد نظر رکھیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ آئین اجازت دیتا ہے کہ تقرری کے لیے جج کا نام کوئی بھی جوڈیشل کمیشن کا ممبر کر سکتا ہے۔ جوڈیشل کمیشن کے رولز آئین کے خلاف ہیں۔

واضح رہے کہ گذشتہ برس خاتون جج کی سپریم کورٹ تعیناتی کے وقت بھی بار نے اعتراض کیا تھا، کیونکہ وہ سنیارٹی کے اعتبار سے چھٹے نمبر پہ تھیں اور تب بھی بار کے وکلا کو سینیئر ججوں کو نظر انداز کرنے پر شدید تحفظات تھے۔جب چیف جسٹس کے نامزد ججوں کے خلاف پانچ ووٹ آئے تو اجلاس کچھ کہے بغیر ختم کر دیا گیا۔

واضح رہے کہ جوڈیشل کمیشن کے ارکان کی تعداد نو ہے جن میں اس وقت چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے علاوہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس سردار طارق، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ شامل ہیں۔

ان کے علاوہ سپریم کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج جسٹس سرمد جلال عثمانی، اٹارنی جنرل، وزیر قانون اور پاکستان بار کونسل کا ایک نمائندہ بھی اس کمیشن کے رکن ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان