حکمران اتحاد کے سبطین خان سپیکر پنجاب اسمبلی منتخب

پنجاب میں چوہدری پرویز الہیٰ کے بطور وزیر اعلیٰ منتخب ہونے کے بعد سپیکر پنجاب اسمبلی کا انتخاب ہوا جس میں حکمران اتحاد کے امیدوار سبطین خان کامیاب قرار پائے ہیں۔

سبطین خان پنجاب اسمبلی میں حکومتی اتحاد کے امیدوار ہیں (تصویر: سبطین خان/ فیس بک)

پنجاب میں چوہدری پرویز الہیٰ کے بطور وزیر اعلیٰ منتخب ہونے کے بعد سپیکر پنجاب اسمبلی کا انتخاب ہوا جس میں حکمران اتحاد کے امیدوار سبطین خان کامیاب قرار پائے ہیں۔

پنجاب اسمبلی کے اجلاس کی صدارت پینل آف چیئرمین وسیم بادوزئی نے کی جبکہ خفیہ رائے شماری کے ذریعے سپیکر پنجاب کا انتخاب ہوا۔

چوہدری پرویز الہیٰ کے وزیراعلیٰ پنجاب منتخب ہونے کے بعد پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ ق کے مشترکہ امیدوار سبطین خان تھے جبکہ ان کا مقابلہ مسلم لیگ ن اور اتحادی جماعتوں کے مشترکہ امیدوار سیف الملوک کھوکھر تھے۔

پاکستان تحریک انصاف کے رکن سبطین خان 185 ووٹ لے کر سپیکر پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے جبکہ ان کے مد مقابل ن لیگ کے امیدوار کو 175 ووٹ حاصل ہوئے۔ جبکہ چار ووٹ مسترد کیے گئے۔ سبطین خان اب پنجاب اسمبلی کے نئے کسٹوڈین ہوں گے۔ 

سپریم کورٹ کی جانب سے رواں ہفتے ڈپٹی سپیکر پنجاب کی رولنگ کو مسترد کر کے چوہدری پرویز الہیٰ کو وزیراعلیٰ پنجاب قرار دیا گیا تھا۔

پنجاب اسمبلی کا اجلاس پینل آف چیئرمین کے سینیئر ممبر نوابزادہ وسیم خان بادوزئی کی زیر صدارت ہوا۔ اجلاس میں سپیکر کے انتخاب کے لیے خفیہ رائے شماری کا طریقہ اپنایا گیا۔ ووٹنگ کے بعد بیلٹ پیپرز پولنگ ایجنٹوں کی موجودگی میں کھولے گئے اور ان کی گنتی شروع کی گئی۔

سپیکر کے انتخاب کے بعد چیئرمین وسیم خان بادوزئی نے نومنتخب سپیکر محمد سبطین خان سے سپیکر کے عہدے کا حلف لیا اور مبارکباد پیش کی۔ نو منتخب سپیکرنے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ آئین اور قانون کے مطابق ایوان کو چلائیں گے۔

انہوں نے کہا: ’میں تمام جماعتوں کے مینڈیٹ کا احترام کروں گا۔‘ نئے سپیکر نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ اسمبلی زیادہ سے زیادہ قانون سازی کرے تاکہ صوبے کے عوام کے مسائل حل ہوں اور اس کے لیے حکومت اور اپوزیشن کو مل کے آگے بڑھنا ہوگا۔ 

چونکہ انتخاب خفیہ رائے شماری کے تحت ہونا تھا اسی لیے ووٹنگ کے دوران موبائل فون لے جانے پر پابندی عائد کی گئی تھی۔

ن لیگ ارکان کی جانب سے ایوان میں کیمروں کی تنصیب کی جگہ پر اعتراض کیا گیا جس پر پولنگ بوتھ کی جگہ تبدیل کرتے ہوئے انہیں سپیکر کی نشست کے دائیں اور بائیں رکھ دیا گیا۔ ساتھ ہی بوتھ کے اوپر لگائے گئے سی سی ٹی وی کیمروں کو اوپر بھی کپڑے سے ڈھانپ دیا گیا۔

ووٹنگ کا عمل شروع ہوا تو پینل آف چئیر نے ممبران کو دوحصوں میں تقسیم کردیا جس کے بعد خفیہ رائے شماری کے ذریعے ووٹنگ کا عمل شروع ہوا۔ سپیکر پنجاب اسمبلی کے انتخابات پہلا ووٹ پی پی 254 افتخار گیلانی نے کاسٹ کیا۔

پی ٹی آئی سے منحرف ہو کر الیکشن جیتنے والے راجہ صغیر کے ووٹ ڈالنے پر ایوان لوٹے لوٹے کے نعروں سے گونج اٹھا جس پر چیئرمین نے نعرے لگانے سے منع کردیا۔ چوہدری نثار علی خان ووٹ ڈالنے نہیں آسکے۔

ن لیگ کے امیدوار سیف الملوک کھوکھر نے پرچی جاری کرنے والے ایجنٹ کا رجسٹر چھین کر پھینک دیا۔ اس ساری بگڑتی ہوئی صورت حال کو دیکھتے ہوئے پینل آف چیئرمین نے سکیورٹی ایوان کے اندر بلالی۔

مسلم لیگ ن کے رکن اسمبلی رانا مشہود اور رخسانہ کوکب نے پریزائیڈنگ آفیسر پر دھاوا بول دیا۔

اس ساری صورت حال کو دیکھتے ہوئے پی ٹی آئی کے امیدورار سبطین خان نے پینل آف چیئر کو تحریری شکایت درج کرادی اور کہا کہ  جو چار بیلٹ پیپر ز لیگی اراکین نے اسمبلی سٹاف سے چھینے ہیں انہیں ریکور کروایا جائے۔  ان کے بقول: ’یہ بیلٹ پیپرز میرے خلاف استعمال ہو سکتے ہیں۔‘ جس پر  پینل آف چیئر نے  رولنگ دی کہ بیلٹ پیپرز واپس کیے جائیں۔

اس سب کے بعد ن لیگ نے پنجاب اسمبلی میں سپیکر کا انتخاب دوبارہ کروانے کا مطالبہ کر دیا۔

ن لیگ کے رہنما عطا تارڑ نے پنجاب اسمبلی کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دراصل پولنگ میں انکشاف ہوا ہے کہ ق لیگ اور پی ٹی آئی کو جو بیلٹ پیپرز دئیے جارہے ان پر سیریل نمبر درج ہے جس سے ووٹنگ خفیہ نہیں رہی۔ ’پرویز الٰہی اور ان کے صاحبزادے نے دھاندلی کا منصوبہ بنایا ہے، یہ ووٹنگ آئین کے تحت خفیہ نہیں رہی، یہ دھاندلی ہے۔ اس پر نمبر درج نہیں ہونا چاہیے، آئینی طور پر یہ پولنگ کالعدم ہے۔ اگر یہ انتخاب دوبارہ نہ ہوئے تو قانونی چارہ جوئی کریں گے۔‘

پی ٹی آئی  کے فیاض الحسن چوہان نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سپیکر کا انتخاب اچھے طریقے سے چل رہا تھا۔ ن لیگ نے انتخاب کے دوران پی ٹی آئی ممبران پر بیلٹ پیپر چوری کرنے کا الزام لگایا گیا۔ ’بیلٹ پیپرز ن لیگ نے غائب کیے دراصل انہیں واضح شکست دکھائی دے رہی تھی۔ اب اگلامرحلہ دوست محمد مزاری کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا ہے۔‘

وزیراعلیٰ کے انتخاب کے لیے اسمبلی کا اجلاس چار بجے طلب کیا گیا تھا تاہم اجلاس ایک گھنٹے دیر سے شروع ہوا۔

پی ٹی آئی اور ق لیگ کے ممبران کی کل تعداد 186 جبکہ ن لیگ اور اتحادیوں کے ممبران کی کل تعداد 178 تھی۔

چونکہ پرویز الہیٰ اس سے قبل سپیکر پنجاب اسمبلی کے عہدے پر تھے لہذا ان کے وزیر اعلیٰ منتخب ہونے کے بعد اس عہدے پر جمعے کو انتخاب ہوا۔

پنجاب اسمبلی میں جمعے کو ہونے والے اجلاس میں ووٹنگ کے دوران حکومتی ارکان کے مطالبے پر پینل آف چیئرمین وسیم بادوزئی نے کارروائی کو کچھ وقت کے بعد روک دیا تھا۔

تاہم بعد میں کارروائی کا آغاز دوبارہ کیا گیا جس کے بعد گنتی کا عمل شروع ہوا اور پینل آف چیئرمین وسیم بادوزئی نے سبطین خان کی کامیابی کا اعلان کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خیال رہے کہ 22 جولائی کو ہونے والے پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری نے اپنی رولنگ میں مسلم لیگ ق کے صدر چوہدری شجاعت حسین کے ایک خط کا حوالہ دیتے ہوئے مسلم لیگ ق کے ارکان اسمبلی کے دس ووٹ مسترد کرتے ہوئے حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ پنجاب قرار دیا تھا۔

تاہم بعد میں مسلم لیگ ق کی درخواست پر سپریم کورٹ نے سماعت کی اور چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے اپنے فیصلے میں ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کو کالعدم قرار دیا تھا۔

سپیکر پنجاب کے انتخاب سے قبل پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ’سبطین خان کا لوگ احترام کرتے ہیں، ہو سکتا ہے انہیں زیادہ ووٹ ملیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’میرا نہیں خیال کے کسی کو کوئی سرپرائز ملے گا، سبطین خان باآسانی جیت جائیں گے۔‘

 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست