کامن ویلتھ گیمز: ’عجیب و غریب کھیل‘ جن کا مقصد سمجھ نہیں آتا

کامن ویلتھ گیمز وہ سینڈوچ ہیں جو آپ دوپہر اور رات کے کھانے کے درمیان کھا سکتے ہیں، تاکہ آپ کا کام چلتا رہے، لیکن آپ اس کے بغیر آسانی سے رہ سکتے ہیں۔ اگر آپ چاہیں تو تھوڑا سا لطف اندوز بھی ہو سکتے ہیں۔

29 جولائی 2022 کو وسطی انگلینڈ کے شہر برمنگھم میں کامن ویلتھ گیمز کے پہلے دن ارینا برمنگھم میں مردوں کی ٹیم کے فائنل آرٹسٹک جمناسٹک ایونٹ کے بعد انگلینڈ کے کھلاڑی گیارنی ریگنی موران اور ساتھی جشن منا رہے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

کھیلوں کے متعلق لکھے گئے اس کالم کے برے آغاز کی وجہ شاید یہ ہے کہ میں کھیلوں کا شوقین نہیں، لیکن آپ کچھ دیر تک میرے ساتھ رہیں کیوں کہ مجھے کامن ویلتھ گیمز کا مقصد سمجھ نہیں آ رہا۔

یہ باقاعدگی اور شفافیت سے اولمپک کھیلوں کے درمیانی وقفے کو پُر کرتے ہیں اور اس طرح یہ بالکل دو کھانوں کے درمیان ایک چھوٹے سے لقمے کی طرح ہیں۔

کامن ویلتھ گیمز وہ سینڈوچ ہیں جو آپ دوپہر اور رات کے کھانے کے درمیان کھا سکتے ہیں، تاکہ آپ کا کام چلتا رہے، لیکن آپ اس کے بغیر آسانی سے رہ سکتے ہیں۔ اگر آپ چاہیں تو تھوڑا سا لطف اندوز بھی ہو سکتے ہیں۔

بڑی خامی یہ ہے کہ اولمپکس، عالمی ایتھلیٹکس چیمپیئن شپ، ورلڈ کپ اور دیگر مختلف عالمی مقابلوں کے برعکس یہ بین الاقوامی مقابلے ہیں لیکن زیادہ ترممالک کو بے ترتیب انداز میں نکال دیا گیا ہے۔

یہاں کینیا کے شاندار دوڑنے والے ہوں گے لیکن صومالی نہیں ہوں گے۔ عمدہ آسٹریلوی تیراک ہوں گے، لیکن امریکی نہیں۔ یہاں چپوؤں سے کشتیاں چلانے والے برطانوی ہوں گے لیکن کوئی چینی نہیں ہوگا۔

ایک بڑی چیمپیئن شپ میں کسی بھی قسم کا تمغہ جیتنا ایک حیرت انگیز احساس ہے (میرا خیال ہے) لیکن یہ عجیب بات ہونی چاہیے کہ آپ دنیا کے نمبر ون، دوسرے یا تیسرے بہترین کھلاڑی ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتے کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ جمناسٹک کا کوئی چیک یا کوریائی کھلاڑی آپ کو آسانی سے شکست دے دیتا، اگر ان کا ملک ماضی میں کبھی برطانوی کالونی ہوتا۔

اور یہ ممالک کا ایک عجیب گلدستہ ہے، یہاں تک کہ اسے ایشین گیمز یا افریقی کپ آف نیشنز کی طرح جغرافیائی لحاظ سے بھی واضح نہیں کیا گیا۔

تاہم کامن ویلتھ گیمز پر کبھی کوئی تنقید نہیں کرتا کیونکہ ’یہ فرینڈلی گیمز‘ ہیں اور اپنے بارے میں اچھا محسوس کرواتے ہیں اور اس بار وہ باآسانی متاثر نہ ہونے والے، ملنسار سر لینی ہنری (برطانوی اداکار) کے قریب ہو رہے ہیں، جو گرم پانی کی بوتل کی مانند ہیں۔ ہر کوئی لینی ہنری کو چاہتا ہے۔

اور میں اس معاملے میں انگلینڈ کے شہر برمنگھم یا ڈڈلی کے بارے میں بدتمیزی نہیں کروں گا۔ لیسٹر کے لوگ مڈلینڈز کے قصبوں کو طنزیہ نظروں سے دیکھنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔

جب بھی میں برمنگھم گیا ، میں نے لوگوں کو غیر معمولی طور پر گرم جوش اور مہربان پایا- ان پیکی بلائنڈرز کی طرح نہیں (اگرچہ یہ کہنا ضروری ہے کہ میرے خیال میں برمنگھم کے لوگوں کو کئی دہائیوں کی مسلسل تبدیلی کے دوران بہتر ٹاؤن پلانرز کی ضرورت تھی۔ یہ برمنگھم کو ایک دائمی عمارت کا بے چین احساس دیتا ہے، جیسے کہ وہ وکٹورین فن تعمیر کے شاندار فن سے کبھی بھی خوش نہیں رہا۔)

لیکن پھر بھی، برمنگھم ایک اچھی جگہ ہے۔ سچ یہ ہے کہ یہ کھیل بہت پرانے ہیں۔ ان کا آغاز ان دنوں برٹش ایمپائر گیمز کے طور پر ہوا جب دنیا کا زیادہ تر نقشہ ایک شاہی گلابی رنگ کا تھا اور ایسا ہی عجیب و غریب جیسا کہ اب لگتا ہے اور واقعی’گلوبل برطانیہ‘ جیسی کوئی چیز تھی، اگرچہ اس مشن کا حصہ بننے والے اکثر لوگ رضامندی سے شریک نہیں تھے۔

ایک زمانے میں برطانوی سیاست دانوں کا خیال تھا کہ سلطنت، بشمول پورے ہندوستانی برصغیر اور جنوبی افریقہ کے دارالحکومت کیپ ٹاؤن سے قاہرہ تک افریقہ کے عظیم حصے کو ایک بہت بڑی سیاسی، دفاعی اور اقتصادی اکائی میں شامل کیا جا سکتا ہے، جس میں یورپی یونین کی طرح اندرونی آزاد تجارت اور باقی دنیا کے لیے مشترکہ کسٹم قوانین ہوں گے اور ان معاملات کو لندن سے چلایا جائے گا۔

یہ امریکہ اور یورپ کی سلطنتوں کی بڑھتی ہوئی طاقت کے لیے ایک خطرہ ہوسکتا ہے۔ یہ سلطنت اور کامن ویلتھ گیمز جیسے پاؤنڈ سٹرلنگ، رائل نیوی اور بادشاہت کو اس لیے ڈیزائن کیا گیا تھا کہ لوگوں اور علاقوں کے اس مختلف گروہ کو ناقابل تسخیر عالمی طاقت بنانے کے لیے متحد کرنے میں مدد مل سکے۔

یہ ایک خیال تھا اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس کا آغاز سب سے بڑے سیاست دان نے کیا تھا، جو ہلچل پیدا کرنے والے’برمگیم‘ سے ابھرے یعنی جو چیمبرلین۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بہرحال، یہ سب اب یقیناً ختم ہو گیا ہے اور جیسا کہ سر لینی ہنری نے کہا کہ کامن ویلتھ کے کچھ لوگ اپنی زندگی بہتر بنانے برطانیہ آئے تھے۔ جہاں تک عظیم شاہی سلطنت کے تصور کا تعلق ہے تو ہم نے کچھ ریکارڈ اور زمینی واقعات کو رہنے دیا ہے۔ کامن ویلتھ خود بہت پرانا ہے اور اسی طرح بچ جانے والی عجیب و غریب گیمز بھی۔

کامن ویلتھ صرف برطانویوں اور خاص طور پر ہاؤس آف ونڈسر کے لیے ایک قسم کے تسلی بخش انعام کے طور پر جاری ہیں، جو اس طرح ایک عالمی کردار کا بہانہ جاری رکھ سکتے ہیں۔

چینی بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو برطانیہ کی سابقہ کالونیوں کو بھرتی کرنے میں ایسی کامیابی ہے کہ شاید اس کا نام کامن ویلتھ کی بجائے چینی کامن ویلتھ رکھ دیا جائے۔

کامن ویلتھ کے متعلق تمام چیزیں یعنی سربراہان حکومت کی میٹنگ، ثقافتی روابط، پارلیمانی یونین اور گیمز کافی بے ضرر ہیں۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کسی کی پالتو بلی پر تبصرہ کیا جائے۔

برطانوی وزیر خارجہ لیز ٹرس ایک’نیا کامن ویلتھ معاہدہ‘ چاہتی ہیں، جس کو میں برطانیہ کے لیے یورپی یونین سے باہر اور کمزور معیشت کے ساتھ دنیا میں کچھ اثر انداز ہونے کا ایک اور طریقہ سمجھتا ہوں۔

یہ بے سود ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ برطانوی ہمیشہ ایک بڑا جیوپولیٹیکل کردار چاہتے ہیں یعنی ایمپائر، دولت مشترکہ، یورپ، بریگزٹ کے بعد کا ’گلوبل برطانیہ‘ لیکن خود اپنے آپ سے کبھی خوش نہیں ہوتے۔ یعنی یہ ایک درمیانے درجے کی، روریتانی یورپی ریاست، جو جی ڈی پی میں میکسیکو اور کوریا جیسے ملکوں سے پیچھے رہ گئی ہے اور جس کا کسی اور کو زیادہ نوٹس لینے کی ضرورت نہیں ہے۔

میں نرمی سے اس بات کی طرف اشارہ کر رہا ہوں کہ برمنگھم کو دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کروانے کے لیے برطانیہ کی طرح شوخی مارنے کی ضرورت نہیں ہے۔

اگر کامن ویلتھ اور اس کے فرینڈلی گیمز نہ ہوتے تو ہم انہیں ایجاد کرنے کے بارے میں نہیں سوچتے۔ اس کا بنیادی مقصد ملکہ کو خوش کرنا ہے۔ ورنہ اس سے بڑھ کر اور کیا؟

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کھیل