روپے کی قدر میں اضافے کی وجہ سیاسی ہے: تاجر برادری

پاکستان سٹاک مارکیٹ میں ایکویٹی ٹریڈر ولید حسن نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ’نینسی پیلوسی کے دورے کے بعد دنیا بھر کی کرنسیوں میں ڈالر کے مقابلے میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

ایک پاکستانی لاہور میں 16 مئی 2019 کو منی ایکسچینج میں موجود ہے اور فون پر بات کر رہا ہے۔ گذشتہ روز پاکستانی حکومت کے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کی بحالی کے اعلان کے بعد روپے کے قابلے میں ڈالر کی قدر میں ریکارڈ کمی آئی ہے (تصویر: اے ایف پی فائل)

پاکستانی سکے روپے کی قدر میں گذشتہ روز ریکارڈ اضافہ ہوا لیکن پاکستان سٹاک مارکیٹ اور تاجر برادری روپے کی اڑان سے پر امید نہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ اس کی وجوہات سیاسی ہیں۔

دوسری جانب ایک امپورٹر نے منی چینجرز کی جانب سے ڈالر کی ہیر پھیر کا طریقہ بتایا اور ان کے خلاف سٹیٹ بینک کے سخت اقدامات کو سراہا۔

گذشتہ ہفتے کے دوران ملک میں ڈالر کی قیمت 239.94 روپے کی بلند ترین سطح پر تھی لیکن بدھ کو پاکستان میں ڈالر کی قیمت میں 9.58 روپے کی ریکارڈ کمی آئی۔

1998 میں ڈالر کی قیمت میں 5.1 روپے کی کمی کے بعد یہ ایک دن میں ڈالر کی قدر میں کمی کا نیا ریکارڈ ہے۔

معاشی ماہر اور پاکستان سٹاک مارکیٹ میں ایکویٹی ٹریڈر ولید حسن نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ڈالر کی قدر میں کمی آنے کی کئی وجوہات ہیں جس میں سب سے اہم وجہ امریکی کانگریس کی سپیکر نینسی پیلوسی کا تائیوان کا دورہ ہے، جس کے باعث چین دونوں ممالک سے سخت ناراض ہے۔ چین نے اس ملاقات کے بعد تائیوان کا محاصرہ کرکے بڑے پیمانے پر گولہ بارود اور میزائلوں کے ساتھ فوجی مشقوں کا آج آغاز کردیا ہے۔

’نینسی پیلوسی کے دورے کے بعد دنیا بھر کی کرنسیوں میں ڈالر کے مقابلے میں اضافہ دیکھا گیا اور ڈالر کی قدر میں کمی آئی تھی۔ اسی وجہ سے پاکستان میں بھی روپے کی قدر میں ریکارڈ اضافہ دیکھا گیا۔‘

ولید حسن کے مطابق: ’جمعرات کو بھی ڈالر کی قدر میں کمی کا رجحان رہا۔ ڈالر میں 3.79 روپے کی کمی ریکارڈ کی گئی جس کے بعد ڈالر انٹربینک میں 225 روپے کا فروخت ہوا۔ سٹاک مارکیٹ میں بھی تیزی کا رجحان رہا جہاں 490 سے زائد پوائنٹس کا اضافہ ہوا۔ مارکیٹ میں 100 انڈیکس 41  ہزار 560 پوائنٹس پر پہنچ گیا۔ اس کی وجہ ہے ڈالر کے ذریعے پرافٹ میکنگ۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’بدھ کو جب ڈالر کی قدر میں کمی آئی تو لوگوں نے ڈالرز کو بیچنا شروع کردیا جس کے بعد جمعرات کو بھی اس کی قدر میں کمی واقع ہوئی۔ یہاں ڈیمانڈ اینڈ سپلائی کا آسان فارمولا چلتا ہے۔ جیسے ہی مارکیٹ میں ڈالر کی سپلائی بڑھ جاتی ہے تو ریٹ نیچے آجاتا ہے۔ مگر جب حکومت کے لیے ادائیگیاں کرنے کا وقت آئے گا، آئل یا دیگر قرضوں کی ادائیگی کرنی ہوگی تو ڈالر مارکیٹ سے شارٹ ہوجائے گا اور اس میں پھر اضافہ ہوگا۔‘

ایکوٹی ٹریڈ رکا کہنا تھا کہ ’اب ڈالر 208 سے 225 روپے کے بیچ میں کم زیادہ ہوتا رہے گا۔ ڈالر کے اتنے زیادہ ریٹ پر 10 روپے کم ہونا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔‘

پاکستان سٹاک مارکیٹ کے ایک اور ایکویٹی ٹریڈر شہزاد مٹھانی نے کہا کہ ’مجھے نہیں لگتا کہ روپے کی قدر میں مذید اضافہ ہوگا۔ یہ ریکارڈ اضافہ بھی سیاسی مداخلت کے باعث ہوا ہے کیوں کہ موجودہ حکومت کے دوران ڈالرانٹر بینک میں 240 روپے تک پہنچ گیا ہے۔ یہ حکومت کی ناکامی ہے۔ ملکی معاشی صورت حال کو بہتر دکھانے کے لیے روپے کی قدر میں اضافہ کیا گیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کے مطابق: ’بدھ کی رات کو اوپن مارکیٹ میں ڈالر کا ریٹ 218 دکھایا جارہا تھا۔ مگر جمعرات کے دن اوپن مارکیٹ میں ڈالر 226 کے ریٹ پر بند ہوا ہے۔ تو جمعرات کے روز انٹربینک میں ہم نے ڈالر میں کوئی خاص کمی نہیں دیکھی۔ اگر روپیہ واقعی میں اڑان بھر رہا ہوتا تو اگلے دن بھی اس میں خاطر خوا اضافہ ہوتا۔ مستقبل قریب میں مجھے ڈالر 200 روپے تک آتا نظر نہیں آرہا اور نہ ہی سٹاک مارکیٹ کی حالت بہت بہتر نظر آرہی۔‘

اے کے وائی سکیورٹیز کے مالک، سابق ڈائریکٹر پاکستان سٹاک ایکسچینج اور پاکستان کیمیکل اینڈ ڈائز ایسوسیشن کے سابق چیئرمین امین یوسف نے کہا کہ ’ملک میں ڈالر کو مستحکم رکھنے کے لیے واضح اقدامات کرنا ہوں۔ خاص طور سے کرنسی کی کمپنیوں پر چیک اینڈ بیلینس رکھنا چاہیے۔ ایک ایسا نظام ہونا چاہیے جس سے سٹاک ایکسچینج کو یہ معلومات حاصل ہوسکیں کہ کمپنیوں نے یا عام لوگوں نے کتنا ڈالر خریدا ہے۔ ابھی ایسا کوئی نظام نہیں ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوگا کہ کون ڈالر خرید رہا ہے اور کون بیچ رہا ہے۔ اس سے ناصرف ٹرانسپیرنسی رہے گی بلکہ ڈالر کی ہیر پھیر کرنے والوں کا احتساب بھی ہوسکے گا۔‘

سٹیٹ بینک آف پاکستان کی بیان کے مطابق: ’قوائد و ضوابط کی خلاف ورزیوں کے باعث سٹیٹ بینک نے چھ مختلف منی ایکسچینج کمپنیوں کی 13 فرنچائزز کو بند کردیا ہے جبکہ کچھ کمپنیوں پر جرمانے بھی عائد کیے گئے ہیں۔ گیلیکسی منی ایکسچینجر اور ال حمید انٹرنیشنل منی ایکسچینج کی چار برانچز کے آپریشنز کو بھی معطل کردیا گیا ہے۔‘

امین یوسف نے بتایا کہ ’سسٹم میں ابھی بھی کافی خرابیاں ہیں۔ اکثر منی ایکسچینجرز پر یہ بھی ہوتا ہے کہ جب ڈالرز خریدنے جاتے ہیں تو ایکسچینج والا پوچھتا ہے کہ فنگر پرنٹس کے ساتھ لینا ہے یا اس کے بغیر۔ فنگر پرنٹس کے بغیر ڈالر خریدنے کا بھی اپنا ایک ریٹ ہوتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ سسٹم میں ابھی بھی خرابیاں ہیں اور کافی بڑے پیمانے پر ڈالر کی ہیر پھیر جاری ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت