سعودی عرب دہائی میں تیز ترین رفتار سے ترقی کرے گا: آئی ایم ایف

عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے توقع ظاہر کی ہے کہ سعودی عرب رواں سال دنیا کی تیزی سے ترقی کرنے والی معیشتوں میں سے ایک ہوگا۔

25 اپریل 2016 کو سعودی ولی عہد شہزادہ محمد سلمان نے ریاض میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے معاشی اصلاحات کے منصوبے ویژن 2030 کا اعلان کیا (فوٹو اے ایف پی)

عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے توقع ظاہر کی ہے کہ سعودی عرب رواں سال دنیا کی تیزی سے ترقی کرنے والی معیشتوں میں سے ایک ہوگا، کیونکہ 2020 میں وبا کی وجہ سے پیدا ہونے والی کساد بازاری سے تیل کی قیمتوں اور پیداواری بجلی کی بحالی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔

آئی ایم ایف نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ سعودی عرب کی مجموعی پیداوار میں 7.6 فیصد کا اضافہ متوقع ہے جو تقریباً ایک دہائی میں تیز ترین نمو ہے۔

رپورٹ کے مطابق درآمدی اجناس کی قیمتوں میں اضافے کے باوجود 2022 میں افراط زر 2.8 فیصد رہے گی کیونکہ سعودی مرکزی بینک، امریکہ کے فیڈرل ریزرو کے لحاظ سے پالیسی سخت رکھتا ہے۔

آئی ایم ایف کی جانب سے بدھ کو جاری ہونے والی اس رپورٹ کے مطابق سعودی عرب میں تیل کی فروخت کے علاوہ حاصل ہونے والی آمدن میں اضافے اور تیل کی برآمدات سے زیادہ آمدنی کی بدولت پبلک فنانسز اور بیرونی پوزیشن کافی حد تک مضبوط ہوگی۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ تیل کی زیادہ آمدنی کے باوجود سرکاری اخراجات پر کنٹرول برقرار رکھنا اہم ہو گا لیکن مزید ٹارگٹڈ سماجی اخراجات کی گنجائش ہے۔ 

عالمی مالیاتی ادارے کا کہنا ہے کہ تیل کے علاوہ دیگر کاروباری سرگرمیوں سے مزید ٹیکس جمع کرنے کے لیے ٹیکس پالیسی اور ریونیو ایڈمنسٹریشن میں بہتری سے مالی استحکام میں مدد ملے گی۔

’تیل کی آمدنی کو پائیدار طریقے سے منظم کرنا، تاکہ اخراجات پر تیل کی قیمت کا اثر نہ ہو، مالی استحکام کو فروغ دے گا۔ اسی طرح معیشت کو متنوع بنانے کے لیے بجٹ کی منصوبہ بندی اور پالیسیاں بھی دور اندیش ہوں گی۔‘

اس کے علاوہ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ توانائی کی قیمتوں میں اصلاحات، تاکہ ملکی تیل کی قیمتیں بین الاقوامی قیمتوں کے ساتھ مل جائیں، سے مالی بچت کے ساتھ ساتھ حکام کے موسمی تبدیلیوں سے متعلق مقاصد پورے ہوں گے جو ’سعودی گرین انیشی ایٹو‘ میں طے کیے گئے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ٹارگٹڈ سکیموں کے ذریعے سماجی تحفظ کے اقدامات کو مضبوط بنانے کی جاری کوششیں، کمزور افراد کو بجلی کے زیادہ بلوں سے بچائیں گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’مرکزی بینک کی مضبوط نگرانی کی وجہ سے مالیاتی شعبہ لچکدار رہتا ہے اور نظامی خطرات کم ہوتے ہیں۔ توقع ہے کہ تیل کی زیادہ  قیمتوں اور مضبوط لیکویڈیٹی کے ہوتے ہوئے شرح سود میں اضافے کے سعودی معیشت پر کم اثرات مرتب ہوں گے۔‘

سعودی عرب کے حوالے سے عالمی مالیاتی ادارے نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ مالیاتی شعبے کے ضابطے کے فریم ورک میں مسلسل بہتری اور بڑھتے ہوئے رہن قرضوں کی مستقل نگرانی، خطرات کو روکنے کے لیے اہم ہے۔

اصلاحات کی رفتار

آئی ایم ایف کی رپورٹ میں سعودی عرب کے ترقی کرنے کی وجوہات کا بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ حکام کی جانب سے ویژن 2030 کی پالیسیوں پر مسلسل عمل درآمد سے معیشت کو متنوع اور لبرل بنانے میں مدد ملے گی اور اس طرح مزید مستحکم ترقی کی راہ ہموار ہوگی۔

’سعودی عرب کاروباری ماحول کو بہتر بنانے، غیر ملکی سرمایہ کاری کو ملک میں لانے اور نجی شعبے میں روزگار پیدا کرنے کے لیے متاثر کن اقدامات کر رہا ہے۔‘

سعودی عرب کی جانب سے اصلاحات کی تعریف کرتے ہوئے آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ ان اقدامات نے، گورننس اور لیبر مارکیٹ میں اصلاحات کے ساتھ مل کر، کاروبار کرنا آسان بنا دیا ہے (کاروبار صرف تین منٹ میں رجسٹر کیا جا سکتا ہے)، صنعتی سہولیات کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور لیبر فورس میں خواتین کی تعداد بھی بڑھی ہے۔

’باضابطہ پابندیوں کے خاتمے اور ملازمت میں مساوی مواقع کو یقینی بنانے والی قانون سازی سے گذشتہ چار سالوں میں کام کرنے والی سعودی خواتین کا تناسب دگنا ہو کر 33 فیصد تک پہنچ گیا ہے جو 2030 کے منصوبے کے تحت مقرر کردہ 30 فیصد ہدف اور مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے لیے 27 فیصد اوسط سے تجاوز کر گیا ہے۔‘

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ سعودی عرب میں بڑھتی ہوئی ڈیجیٹلائزیشن میں پیداواری صلاحیت کو بڑھانے کی صلاحیت ہے کیونکہ نوجوان آبادی ٹیکنالوجی کے استعمال میں ماہر ہے۔

’وبا کے دوران ڈیجیٹلائزیشن میں تیزی آئی جس میں آن لائن ہیلتھ سروسز، ورچوئل کورٹس، آن لائن تعلیم اور عوامی خریداری کے لیے ایک آن لائن فنانس پلیٹ فارم شامل ہے جسے Etimad کہا جاتا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا