کیا جو بائیڈن کا دورہ سعودی عرب تیل کی قیمتوں کو متاثر کرے گا؟

حالیہ دنوں میں یہ مسئلہ کہ کیا جو بائیڈن براہ راست سعودی اور خلیجی رہنماؤں سے پیداوار بڑھانے کا مطالبہ کریں گے، امریکی صدراور وائٹ ہاؤس کی پریس ٹیم کی متضاد نوعیت کی تازہ ترین مثال ہے۔

امریکی صدر جو بائیڈن 15 جولائی 2022 کو سعودی عرب کے شاہ عبدالعزیز انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر طیارے سے باہر آتے ہوئے (فوٹو: اے ایف پی)

امریکی صدر جو بائیڈن نے جب کئی مسائل پر بات چیت کے لیے مشرق وسطیٰ کے مشن کا آغاز کیا تو ان کی انتظامیہ کے لیے ایک مسئلہ مستقل وائٹ ہاؤس کے عملے اور ذرائع ابلاغ دونوں کے ذہنوں پر بھاری پڑ رہا تھا اور وہ تھا تیل کی قیمتیں۔

حالیہ دنوں میں یہ مسئلہ کہ کیا جو بائیڈن براہ راست سعودی اور خلیجی رہنماؤں سے پیداوار بڑھانے کا مطالبہ کریں گے، امریکی صدراور وائٹ ہاؤس کی پریس ٹیم کی متضاد نوعیت کی تازہ ترین مثال ہے۔

جون میں میڈرڈ میں ایک پریس کانفرنس کے دوران امریکی صدر نے براہ راست کہا تھا کہ وہ علاقائی رہنماؤں سے پیداوار بڑھانے کے لیے نہیں کہیں گے۔

30 جون کو امریکی صدر نے کہا تھا کہ ’نہیں، میں انہیں نہیں کہوں گا۔ تمام خلیجی ریاستیں جمع ہو رہی ہیں۔ میں نے انہیں اشارہ دیا ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ انہیں تیل کی پیداوار میں اضافہ کرنا چاہیے نہ کہ صرف سعودی عرب کو۔ مجھے امید ہے وہ اپنے مفاد میں اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ ایسا کرنا مناسب ہے۔‘

صدر نے مزید کہا تھا کہ اس دورے کا مقصد یہ نہیں ہے۔

اس کے باوجود چند روز بعد ان کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان وائٹ ہاؤس کے بالکل برعکس اعلان کرتے ہوئے ایک بیان جاری کرتے ہیں: ’وہ ہر ممکن کوشش کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ توانائی کی مناسب عالمی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکے اور پمپ پر امریکی مزدور خاندانوں کے لیے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمت کم کی جا سکے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ بائیڈن انتظامیہ اس بات کو ’یقینی بنانے‘ کے لیے کام کرے گی کہ پیٹرولیم کی قیمتوں پر اس کے ’مثبت اثرات‘ مرتب ہوں گے۔

جیک سلیوان نے کہا کہ ’ہم (سعودی عرب کے دورے کے دوران) اپنے عمومی نقطہ نظر سے آگاہ کریں گے۔۔۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عالمی معیشت اور پمپ پر امریکی صارفین کے تحفظ کے لیے عالمی منڈی میں مناسب ترسیل کی ضرورت ہے۔‘

جو بائیڈن نے رواں ہفتے ایک تحریر میں لکھا تھا کہ سعودی عرب کی حکومت ’اوپیک کے دیگر پروڈیوسرز کے ساتھ تیل کی منڈیوں کو مستحکم کرنے میں مدد کے لیے میرے ماہرین کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے‘، جبکہ انہوں اس بات کا ذکر نہیں کیا کہ آیا وہ اس دورے میں تیل کی عالمی فراہمی کے موضوع پر دباؤ ڈالیں گے یا نہیں۔

لیکن مملکت میں ایک سابق امریکی سفیر نے جمعرات کو ایک انٹرویو میں دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ جوبائیڈن کا مقصد صرف تیل کی پیداوار میں اضافے سے کہیں بڑا ہے۔

 ڈاکٹر جوزف ویسٹفل نے کہا کہ سابق امریکی صدر اوباما اور ٹرمپ انتظامیہ کے دوران سعودی عرب کے ساتھ خراب ہوئے تعلقات کو اس امید پر آگے بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ مستقبل میں عالمی سپلائی اس طرح متاثر نہ ہو۔

جو بائیڈن کی نائب صدر کی دوسری مدت کے دوران خدمات انجام دینے والے ڈاکٹر جوزف ویسٹفل نے کہا: ’مجھے نہیں لگتا کہ انہیں امید ہے کہ سعودی عرب تیل کی پیداوار بڑھا سکے گا۔‘

سابق سفیر نے مزید کہا کہ ’پیداوار میں اضافے کی ان کی صلاحیت اس وقت بہت، بہت کم ہے اور وہ اسے استعمال کرنے کا خطرہ مول نہیں لینا چاہتے۔ اس لیے وہ اس وقت زیادہ اضافہ نہیں کر سکتے اور وہ یہ جانتے ہیں۔‘

ڈاکٹرویسٹفل نے کہا کہ جو بائیڈن کا مقصد اس کی بجائے اوپیک ممالک کو مغرب کے ساتھ زیادہ تعاون سے کام کرنے پر آمادہ کرنا ہوگا تاکہ مستقبل میں کمی کو روکا جاسکے۔

انہوں نے کہا: ’مجھے یقین ہے کہ وہ جو کچھ کہنے جا رہے ہیں وہ یہ ہے کہ ہمیں اوپیک کے ساتھ مل کر بہتر کام کرنا چاہیے تاکہ مستقبل میں اپنی تمام معیشتوں کے لیے رسد اور قیمتیں مستحکم کی جا سکیں۔‘

یقیناً تیل کی قیمتوں سے ہٹ کر بہت سے دیگر مسائل ہیں جن پر امید ہے کہ جو بائیڈن جمعے اور ہفتے کو اپنی ملاقاتوں کے دوران توجہ دیں گے۔

امریکہ عمومی طور پر سکیورٹی اور تجارت کے معاملات پر خلیجی ممالک کے درمیان زیادہ سے زیادہ علاقائی اشتراک پر زور دے رہا ہے اور اسے امید ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے اسرائیل اور اس کے ہمسایوں کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کی جو بنیاد رکھی تھی، وہ اس کوشش میں کامیابی حاصل کر لے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

رواں ہفتے جو بائیڈن اس مہم کے دوران اسرائیل سے براہ راست سعودی عرب جانے والے پہلے امریکی صدر بن گئے ہیں۔

ڈاکٹر ویسٹفل نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ سعودی عرب روس اور چین کی جانب سے بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری کے باوجود امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کی تعمیر نو چاہتا ہے کیونکہ مملکت اب بھی امریکہ کو زیادہ قابل اعتماد شراکت دار کے طور پر دیکھتی ہے۔

لیکن فی الحال ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ جو بائیڈن واقعی سعودی حکام یا ان کے خلیجی ریاستی ہم منصبوں سے تیل کی پیداوار بڑھانے کے لیے کہتے ہیں یا نہیں، کیونکہ صدر کے دورے پر جانے سے کچھ دیر پہلے تیل کی قیمتوں میں کمی آنا شروع ہو گئی تھی اور اب وہ ہفتوں پہلے تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچنے کے بعد نیچے آنا شروع ہو گئی ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ رجحان جاری رہنے کا امکان ہے جس کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں چین میں معاشی سست روی اور امریکہ میں گھریلو گیسولین کی طلب میں کمی کے آثار شامل ہیں۔

امریکن آٹوموبائل ایسوسی ایشن (اے اے اے) کے تجزیہ کاروں نے جمعرات کو ایک بلاگ پوسٹ میں لکھا کہ ’ممکن ہے صارفین کو پمپ پر قیمتوں میں کمی دیکھنے کو ملتی رہے گی۔‘

اے اے اے کے وفاقی امور کے منیجر ڈیوین گلیڈن نے دی انڈپینڈنٹ کو ایک انٹرویو میں بتایا: ’ہمیں توقع ہے کہ تیل کی قیمتوں میں کمی جاری رہی گی، یہ رجحان ممکنہ طور پر موسم گرما کے بقیہ عرصے تک جاری رہے گا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’یوم مزدور کی چھٹی کے قریب طلب میں قدرے اضافہ ہوسکتا ہے۔‘

پیر کے بعد سے ملک بھر میں پٹرولیم کی قیمتوں میں اوسطاً سات سینٹ کی کمی واقع ہوئی ہے جس کی وجہ سے قومی اوسط قیمت 4.60 ڈالر فی گیلن رہ گئی ہے۔

نیشنل اکنامک کونسل کے ڈائریکٹر برائن ڈیز نے بدھ کو ایک انٹرویو میں یاہو فنانس کو بتایا کہ بائیڈن انتظامیہ عالمی سپلائی کو مستحکم کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہی تھی اور ہنگامی طور پر کام کر رہی تھی تاکہ قیمتوں کو مزید نیچے لایا جائے۔

’ہمارے نقطہ نظر سے، ہم قیمتوں میں کمی کو جاری رکھنے کے لیے جو کچھ ہوسکتا ہے وہ کرنے پر توجہ دے رہے ہیں۔ یہ عالمی سپلائی بڑھانے کے متعلق ہے۔‘

امریکی صدر کی توجہ جی 7 کے ساتھ کام کرنے کی کوشش میں اسی چیز پر تھی جس کو ہم روسی تیل کی قیمت کی حد کہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس سے تیل کی عالمی رسد میں استحکام اور ولادی میر پوتن پر معاشی دباؤ بھی برقرار رہے گا۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ