سعودی امریکی تعلقات میں اتار چڑھاؤ کے سنگ میل

امریکی صدر جو بائیڈن بطور صدر مشرق وسطیٰ کے پہلے دورے پر آج سعودی عرب پہنچیں گے۔ سعودی امریکی 90 سالہ تعلقات کے اہم سنگ میل پر ایک نظر۔

19 مئی 2017 کو لی گئی تصویر میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورے سے قبل سعودی عرب کے شہر ریاض میں ایک سڑک پر امریکی اور سعودی پرچم (فائل فوٹو: اے ایف پی)

امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان تقریباً 90 سال سے قائم تعلق کئی مرتبہ اتار چڑھاؤ سے دوچار ہوا۔ ان میں سے چند سنگ میل یہ ہیں:

1931

امریکہ نے مملکت حجاز و نجد کو تسلیم کیا، جس کے ایک سال بعد مملکت کا نام سعودی عرب رکھا گیا۔

1933

سعودی عرب نے کیلی فورنیا کی سٹینڈرڈ آئل کمپنی کو تیل تلاش کرنے کی اجازت دی۔ اس کمپنی کی سعودی شاخ، جس کا نام بعد میں ارامکو رکھا گیا، نے 1938 میں پہلی بار تجارتی پیمانے پر ملک میں تیل ڈھونڈ نکالا۔

1945

امریکہ کے صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ نے نہر سوئز میں سعودی عرب کے بانی شاہ عبدالعزیز ابن سعود کے ساتھ امریکی بحری جہاز پر ملاقات کر کے کئی دہائیوں کے لیے قریبی تعلقات کی راہ ہموار کی۔

1950

سعودی عرب نے تیل کی کھوج کے لیے ارامکو کے اجازت نامے کے متعلق دوبارہ مذاکرات کر کے اپنی آمدن کو بڑھایا۔ 

1951

دونوں ملکوں کے درمیان باہمی دفاعی معاونت کا معاہدہ طے پایا جس سے امریکی ہتھیاروں کی سعودی عرب کو فروخت کی راہ کھل گئی۔

1973

اسرائیل نے مصر اور شام کے ساتھ جنگ چھیڑی تو عرب ملکوں نے اسرائیل کے حامی امریکہ اور دیگر ملکوں کو تیل فروخت کرنے پر پابندی عائد کر دی۔

اس پابندی میں سعودی عرب بھی شریک ہوا۔ 1974 میں پابندی ختم ہونے تک تیل کی قیمت چار گنا ہو چکی تھی۔ 

1980

سعودی عرب نے ارامکو کے 100 فیصد حصص خرید لیے۔

1990

عراق نے کویت پر چڑھائی کر دی۔ اگلے سال امریکی قیادت میں بین الاقوامی افواج نے عراق کے خلاف محاذ آرائی کی تو انہیں سعودی عرب نے اپنی سرزمین فراہم کی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عراقی پسپائی کے بعد بیشتر بین الاقوامی فوجی دستے واپس چلے گئے البتہ ہزاروں امریکی فوجی سعودی عرب میں تعینات رہے۔ 

1996

سعودی شہر الخبر کے امریکی فوجی کمپلیکس میں ٹرک بم دھماکہ ہوا جس میں 19 امریکی فوجی مارے گئے۔

2001

11 ستمبر کو امریکہ میں القاعدہ کے حملوں میں شامل 19 میں سے 15 حملہ آور سعودی شہری نکلے۔

سعودی حکومت نے حملوں کے متعلق علم یا کسی بھی تعلق کی تردید کی۔

امریکی حکومت کے ایک کمیشن کو 2004 میں اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ سعودی عرب نے القاعدہ کو مالی امداد فراہم کی تھی۔

2003
سعودی عرب نے عراق پر امریکی قیادت میں غیر ملکی افواج کی چڑھائی کی مخالفت کی۔ 

امریکہ نے سعودی عرب سے تمام فوجی واپس بلا لیے۔

سعودی دارالحکومت ریاض میں تین خودکش حملوں میں کم از کم 35 افراد مارے گئے جن میں نو امریکی بھی شامل تھے۔

2013

سعودی حکمرانوں نے ایران اور شام کے متعلق اوباما انتظامیہ کی پالیسیوں پر تحفظات کا اظہار کیا۔ 

2015

عالمی طاقتوں نے ایران کے ساتھ، جوہری پروگرام روکنے کے عوض پابندیوں کے خاتمے کا معاہدہ کیا تو سعودی عرب نے خدشات کا اظہار کیا۔ 

سعودی عرب نے یمن میں ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے خلاف مہم شروع کی تو امریکہ نے فوجی مدد فراہم کی۔

2018

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے ساتھ عالمی جوہری معاہدے سے علیحدگی کا اعلان کیا جس کا سعودی عرب نے خیرمقدم کیا۔ 

نومبر میں سعودی صحافی جمال خاشقجی کا ترکی میں قتل دو طرفہ سرد مہری کا سبب بنا۔

2019

امریکی قانون سازوں نے جمال خاشقجی قتل کیس میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان پر انگلیاں اٹھائیں البتہ سعودی حکومت کی تحقیقات اس تنیجے پر پہنچیں کہ قتل میں منحرف خفیہ اہلکار ملوث تھے۔

خاشقجی کیس اور یمن کی جنگ کے بہانے امریکی قانون سازوں نے سعودی عرب کو امریکی ہتھیاروں کی فروخت پر پابندی لگانے کی کوششیں تیز کر دیں۔ 

2020

سعودی عرب نے ابراہیمی معاہدے کی حمایت کا اشارہ دیا، جو اس کے اتحادیوں متحدہ عرب امارات اور بحرین نے امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ طے کیا تھا۔ 

2021

امریکی صدر جو بائیڈن نے یمن اور خاشقجی قتل کیس کے متعلق سعودی عرب کے بارے میں سخت موقف اختیار کیا۔ 

2022

جون میں صدر بائیڈن نے کہا کہ سعودی عرب نے یمن میں اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ جنگ بندی میں توسیع کی حمایت کر کے ’جرات مندانہ قیادت‘ کا مظاہرہ کیا۔

تیل کی قیمتوں میں اضافے پر تیل پیدا کرنے والے ملکوں کے اتحاد، اوپیک پلس کی جانب سے پیدوار بڑھانے کے فیصلے کا امریکہ نے خیر مقدم کیا۔ سعودی عرب بھی اس اتحاد میں شامل ہے۔

واشنگٹن نے صدر جو بائیڈن کے دورہ سعودی عرب کا اعلان کیا۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا