’بنوں پارک نامنظور‘ کا نعرہ کیوں لگایا جا رہا ہے؟

احتجاج کے شرکا نے تقاریر کے دوران 14 اگست کو بنوں کی خواتین کا گھروں سے نکل کر متعلقہ پارک میں جانے کا اقدام ’میرا جسم میری مرضی‘ کے نعرے سے متاثرہ ایک عمل قرار دیا لیکن منتظمین کا اصل موقف کیا تھا؟

بنوں میں 21 اگست کو علما اور دیگر افراد کا احتجاج (تصویر: کریم خان)

صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں میں 21 اگست کو سینکڑوں افراد اور علما نے ایک مقامی فیملی پارک کے خلاف احتجاج کیا اور ’بنوں پارک نامنظور‘ کے نعرے لگاتے ہوئے اس میں خواتین کے داخلے پر مکمل پابندی عائد کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔

احتجاج کے شرکا نے تقاریر کے دوران 14 اگست کو بنوں کی خواتین کا گھروں سے نکل کر متعلقہ پارک میں جانے کا اقدام ’میرا جسم میری مرضی‘ کے نعرے سے متاثرہ ایک عمل قرار دیا ہے۔

مقامی لوگوں کے مطابق ’ایک مولانا نے لوگوں میں انتشار پھیلانے کے لیے من گھڑت خواب بھی سنائے اور ان کا حوالہ دے کر عوام کو سمجھانے کی کوشش کی کہ پیغمبر اسلام بھی اس پارک میں خواتین کے جانے سے ناخوش ہیں۔‘

انڈپینڈنٹ اردو نے متذکرہ حالات پر جب ضلعی انتظامیہ کا موقف لینے کی کوشش کی تو ڈپٹی کمشنر کے پبلک ریلشن آفیسر نوراسلام نے بتایا کہ ’یہ پارک بنوں چھاؤنی میں ملٹری کے زیر انتظام ہونے کے سبب سول انتظامیہ کی رٹ سے باہر ہے۔‘

انڈپینڈنٹ اردو نے کنٹونمنٹ بورڈ حکام سے بھی رابطہ کی کوشش کی جس کی حدود میں یہ پارک واقع ہے لیکن وہاں سے کوئی جواب موصول نہ ہوسکا۔

پاکستان کے 75ویں یوم آزادی پر بنوں کی خواتین کی ایک بڑی تعداد بنوں چھاؤنی میں واقع ایک عوامی پارک جو کہ حال ہی میں خواتین کے لیے مخصوص کیا گیا تھا، کا رخ کرنے لگیں۔

متعلقہ پارک کے داخلی دروازے پر اس قدر ہجوم بڑھ گیا کہ بعض علاقہ مکینوں کو تنقید کا موقع ملا اور سب سے پہلے سوشل میڈیا پر اس اقدام کا بائیکاٹ کیا گیا۔

انڈپینڈنٹ اردو کو موصول ہونے والی ایک تصویرمیں سفید برقع پوش خواتین کی ایک بڑی تعداد کو پارک کے گیٹ کے پاس کھڑے دیکھا جا سکتا ہے جبکہ کچھ مرد حضرات ان حالات کا تماشہ دیکھنے میں منہمک نظر آتے ہیں۔

مقامی صحافی عدنان بیٹنی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کی اطلاعات کے مطابق ’یوم آزادی کے موقع پر کچھ شرپسند پارک بند کروانے کی غرض سے برقع پہن کر پارک میں گھسے جبکہ بعض نے خواتین کا راستہ روکنے کی کوشش بھی کی تھی۔‘

مقامی صحافی محمد نعمان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پارک کے حوالے سے چہ میگوئیاں کئی دن سے جاری تھیں، لیکن باضابطہ احتجاج 21 اگست بروز اتوار کیا گیا۔ ’دو سال قبل بننے والا یہ پارک پہلے پہل فوجی چھاؤنی میں وہاں کی فیملیز کے لیے بنایا گیا تھا لیکن پھر پچھلے سال 14 اگست پر پارک کا عقبی گیٹ بنوں کے عوام کے لیے بھی کھول دیا گیا اور یوں فیملیز کا وہاں آنا جانا شروع ہوا۔ تاہم اس پر بھی اعتراض سامنے آیا اور خبریں سوشل میڈیا پر آنے لگیں جس کے بعد یہ پارک خواتین اور بچوں کے لیے مخصوص کر دیا گیا۔‘

پارک خواتین کے لیے مخصوص ہونے پر بھی اعتراض کیوں؟

پچھلے ایک ہفتے سے شدید تنقید کی زد میں رہنے والا بنوں چھاؤنی میں قائم فیملی پارک اعتراضات کے بعد خواتین اور بچوں کے لیے مخصوص کردیا گیا تھا لیکن اس کی مخالفت کی کیا وجہ ہوسکتی ہے۔

اس کا جواب انڈپینڈنٹ اردو نے جے یو آئی (ف) کے بنوں ڈسٹرکٹ ناظم عرفان درانی سے پوچھا کیوں کہ وہ گذشتہ روز احتجاج کی سربراہی بھی کررہے تھے اورایسی اطلاعات بھی ہیں کہ تنقید کرنے والوں اور احتجاج کے شرکا کی ایک بڑی تعداد جمعیت علمائے اسلام کی تھی۔

عرفان درانی نے احتجاج منتظمین کا موقف بتاتے ہوئے کہا کہ ’جو داخلی دروازہ عوام کے لیے کھولا گیا ہے وہ بنوں کے ایک بازار میں کھلتا ہے اور وہ اتنا چھوٹا ہے کہ باہر سے خواتین نظر آتی ہیں۔ یہ تنقید کافی عرصے سے ہورہی ہے لیکن کوئی نوٹس نہیں لیا جا رہا۔‘

عرفان درانی نے بتایا کہ اس تناظر میں تبلیغی قائد مولانا محمد عبدالغفار کی سربراہی میں ایک 31 رکنی کمیٹی بنائی گئی جس نے پہلے سول انتظامیہ سے ایک ملاقات کی لیکن ان کی جانب سے معذرت پر اب وہ کنٹونمنٹ بورڈ حکام سے ملاقات کی کوشش کریں گے تاکہ مسئلے کا کوئی حل نکال سکیں۔

جے یو آئی کی سابق خاتون رکن صوبائی اسمبلی عظمی خان نے کہا کہ ان کی جماعت ’قدامت پسند‘ بالکل بھی نہیں ہے بلکہ ان ہی کی  پارٹی نے ایم ایم اے (متحدہ مجلس عمل) حکومت کے دوران خواتین کو تفریح سے لے کر تعلیم تک تمام حقوق فراہم کیے تھے۔

بنوں کی خواتین کا موقف

بنوں سے تعلق رکھنے والی ایک نوجوان خاتون نیلم فقیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’بنوں میں قدامت پسند ماحول پایا جاتا ہے اور یہی اس پارک کے خلاف تنقید کا بنیادی نکتہ بنا۔‘

تاہم انہوں نے کہا کہ ’اچھا ہوتا اگر یہ احتجاج ان عناصر کے خلاف ہو جو اپنے مذموم مقاصد کی وجہ سے اس پارک کو بند ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں اور ایسے مرد بھی جو خواتین کی ٹوہ میں لگے رہتے ہیں تاکہ کسی طرح سے انہیں تنگ کریں یا ان کو بدنام کر سکیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نیلم فقیر نے بتایا کہ ’بنوں کے شہری علاقے میں کئی فیملیز نہایت تنگ وتاریک گھروں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ بنوں میں خواتین کے صحت کے بہت زیادہ مسائل ہیں۔‘

ان کے مطابق اس پارک میں وہ چہل قدمی کیا کرتی تھیں، کھلی فضا میں سانس لیتی تھیں۔ ساتھ بچوں کو بھی کھیل کود میں لگا دیتیں جو ان کی ذہنی وجسمانی نشوونما کے لیے موثر ثابت ہورہا تھا۔ ’ایسے میں پارک کا بند ہونا خواتین میں کئی ذہنی مسائل کو جنم دے گا۔‘

بنوں کا یہ پارک خواتین کے لیے مخصوص واحد پارک ہے۔ اس سے قبل 2010 میں ایک فیملی پارک جس کا نام ’جیل پارک‘ تھا بنایا گیا جس میں ایک ہی پارک کے اندر دیوار بنا کر خواتین کو مردوں سے الگ کردیا گیا تھا۔ تاہم ایک نوجوان خواتین کو دیکھنے کی غرض سے بجلی کے کھمبے پر چڑھ گیا تھا جس سے اس کی موت واقع ہوئی تھی۔

اس حادثے کے بعد پارک میں خواتین کا داخلہ بند کروا کر اس کو مردوں کے لیے مخصوص کردیا گیا تھا۔

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین