ہیروئن کے نشے سے جان چھڑانے والی ہاجرہ بی بی کی کہانی

ہاجرہ کہتی ہیں کہ وہ اپنے خاندان سے ایک سال بعد اس حالت میں مل رہی ہیں کہ اب نہ ماضی کی طرح نشہ کرنے کی کوئی طلب ہے اور نہ دوا کی۔

خیبرپختونخوا کی حکومت نے ایسے سینکڑوں افراد کو علاج مکمل ہونے کے بعد ان کے خاندانوں کے حوالے کر دیا ہے، جو منشیات کے عادی تھے۔

اس حوالے سے جمعرات (25 اگست) کو پشاور کے ایک مقامی ہوٹل میں تقریب کا انعقاد کیا گیا تھا، جہاں صحت یاب ہونے والے افراد کے اہل خانہ بھی موجود تھے اور اس لمحے کا انتظار کر رہے تھے کہ وہ کب اپنے پیاروں کو اپنے ساتھ گھر  لے جا سکیں گے۔

اس تقریب میں موجود ہاجرہ بی بی ہر کسی کی توجہ کا مرکز تھیں۔

ہاجرہ بی بی فیصل آباد کی رہنے والی ہیں اور 10 سال قبل انہوں نے ہیروئن کا نشہ شروع کیا تھا۔ 

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے ہاجرہ بی بی نے بتایا کہ ’میں پشاور میں ایک پل کے نیچے دن رات بسر کرنے لگی تھی۔ نہ موسم کی پروا، نہ بھوک اور کھانے کی۔ اکثر بچوں کی یاد آتی تھی تو رونے چیخنے لگ جاتی تھی۔‘

’کوئی پرسان حال نہ تھا۔ یہاں تک کہ ایک دن حکومت والے آئے اور مجھے وہاں سے اٹھایا۔‘

ہاجرہ بی بی نے بتایا کہ جب حکومت کے اہلکار ان کو ساتھ لے جانے لگے تو وہ انتہائی ڈر گئی تھیں کہ نجانے ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔

’مجھے ایک ہسپتال میں ڈالا گیا۔ لوگوں سے ایک انجانا خوف اور اوپر سے نشہ بھی کرنے کو نہیں مل رہا تھا۔ میں خود کو مارتی تھی اور ان لوگوں کو بہت تنگ کرتی تھی، لیکن دھیرے دھیرے جب میں ٹھیک ہوتی گئی تو میرے حواس بحال ہونا شروع ہوئے۔ مجھے لگا کہ نشے کے بغیر بھی ایک زندگی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہاجرہ بی بی کے مطابق جب ہسپتال والوں نے ان سے گھر کا نمبر اور پتہ پوچھا تو انہیں کچھ یاد نہیں تھا، لیکن خوش قسمتی سے ہاجرہ کے پاس محفوظ ایک موبائل ’سم‘ تھی، جو ان کی بہن کے نام پر تھی اور وہیں سے حکومت نے ان کے خاندان کا پتہ لگایا اور انہیں اطلاع دی۔

ضلعی انتظامیہ کی جانب سے اطلاع ملنے پر ہاجرہ کی والدہ اور بہن دونوں آئیں، جو انٹرویو کے دوران ہی ہاجرہ سے بغل گیر ہوئیں اور روتے ہوئے کہا کہ وہ تو سمجھے تھے کہ ’ہاجرہ مرچکی ہوگی‘۔

ہاجرہ نے مزید بتایا کہ وہ اپنے خاندان سے ایک سال بعد اس حالت میں مل رہی ہیں کہ اب نہ ماضی کی طرح نشہ کرنے کی کوئی طلب ہے اور نہ دوا کی۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے ان کو سلائی کڑھائی کرنے میں مدد دینے اور روزگار دینے کا وعدہ کیا ہے، تاہم انہوں نے ارادہ ظاہر کیا کہ وہ اب والدہ کے ساتھ رہ کر ہی گھر پر یہ کام کریں گی، اور اپنی والدہ اور سات سال کی بیٹی کا خیال رکھیں گی۔

منشیات کے عادی افراد کی بحالی کا پروگرام

تین ماہ قبل شروع کیے گئے اس بحالی پروگرام کے نتیجے میں تقریباً 1200 افراد کو علاج مکمل ہونے کے بعد ان کے خاندانوں کے حوالے کیا گیا۔

تقریب کے دوران صحت یاب ہونے والے بعض نوجوانوں نے گیت اور ملی نغمے گاکر ناظرین کا دل موہ لیا۔

اس موقعے پر وزیراعلیٰ محمود خان اور ڈپٹی کمشنر شفیع اللہ خان  نے ’منشیات سے پاک پشاور‘ مہم پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ جہاں اس پروگرام کا مقصد منشیات کے عادی افراد کا علاج کرنا تھا، وہیں اس کا ایک اہم جز ان افراد کو روزگار مہیا کرنا اور منشیات کی ’سپلائی لائن‘ختم کرنا بھی ہے۔

خیبر پختونخوا حکومت کے اس اقدام سے قبل پشاور میں منشیات کے عادی افراد میں اضافہ دیکھا گیا تھا، جس میں حکام کے مطابق نہ صرف مرد بلکہ خواتین بھی شامل تھیں۔

ضلعی انتظامیہ کے مطابق، کئی ذی شعور شہریوں کی جانب سے بھی انہیں اس صورت حال سے آگاہ کیا گیا، جس کے بعد ایک سروے کیا گیا اور یہ معلوم ہوا کہ صرف پشاور کی سڑکوں پر دو ہزار سے زائد منشیات کے عادی افراد موجود ہیں۔

مختلف حکومتی اداروں کی مشترکہ کاوش کے نتیجے میں بننے والے اس منصوبے کے تحت روزانہ سینکڑوں افراد کو پکڑ کر مختلف ’بحالی مراکز‘ جیسے کہ دوست، الخدمت، کیئر وغیرہ بھجوا کر ان کا علاج شروع ہوا اور خاندانوں سمیت محکمہ سماجی بہبود، اینٹی نارکوٹکس، ایکسائز، پولیس اور ضلعی انتظامیہ کو مختلف ذمہ داریاں سونپی گئیں۔

ڈپٹی کمشنر شفیع اللہ خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ مہم یہیں پر ختم نہیں ہوئی، بلکہ یہ جاری رہے گی اور پاسنگ آؤٹ کا دوسرا مرحلہ اگلے ماہ یعنی ستمبر میں ہوگا۔

انہوں نے بتایا کہ ’یہ منصوبہ وزیراعلیٰ محمود خان کا وژن ہے، جنہوں نے مزید کارروائی  کے لیے ضلعی انتظامیہ کو ایک لائحہ عمل تیار کرنے کی ذمہ داری سونپی۔ ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ پبلک اور پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ذریعے منشیات کے حوالے سے ایک جامع سٹریٹیجی پر عملدآرمد ہو رہا ہے۔‘

ڈپٹی کمشنر نے بتایا کہ اس منصوبے کے دو حصے ہیں۔ ایک بحالی اور دوسرا منشیات فروخت کرنے والوں کا راستہ روکنا۔ ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ ’منشیات کی سپلائی لائن کو ختم کرنے کے خلاف اینٹی نارکوٹکس، پولیس، ایکسائز اور ضلعی انتظامیہ مل کر کام کریں گے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی