میرے ہمسفر: ’ہالہ پر ہونے والے ظلم کی انتہا ہو گئی ہے‘

رب جانے ہم ایسی سماج کی وجہ سے نفسیاتی طور پہ بیمار ہو جانے والی لڑکیوں کی کہانیوں کو اتنا پسند کیوں کرتے ہیں؟

ڈراما میرے ہمسفر پاکستانی ٹی وی چینل اے آر وائی ڈجیٹل پر نشر کیا جا رہا ہے (تصویر: اے آر وائی فیس بک)

چھ ماہ بعد ڈراما ’میرے ہمسفر‘ میں مکافات کا دور گزر رہا ہے جیسے زمانے میں مکافات کی آگ لگی ہوئی ہے۔

ڈرامے میں ہالہ کے آنسو سیلاب لے آئے ہیں اور زمانے میں ہم پہ سیلاب ہماری کچھ کوتاہیوں سے آیا ہے۔

مگر بات کچھ یوں ہے کہ چھ ماہ بعد بھی ڈراما اپنی مقبولیت قائم رکھے ہوئے ہے گرچہ کہانی طول پکڑ گئی ہے۔ ہالہ پہ ہونے والے ظلم کی انتہا ہو گئی ہے۔

رب جانے ہم ایسی سماج کی وجہ سے نفسیاتی طور پہ بیمار ہو جانے والی لڑکیوں کی کہانیوں کو اتنا پسند کیوں کرتے ہیں؟

شاید ہمارے معاشرے کے دباؤ سے ایسی لڑکیوں کی تعداد زیادہ ہوتی جا رہی ہے جو دنیا کی ترقی کے ساتھ نہ چل کر پیچھے رہ جاتی ہیں۔

ایک ایک کرکے آدھی نہیں تو ایک تہائی آبادی تو سماج کی دوڑ سے ہم نے کم از کم روایات اور سماجیات کے نام پہ الگ کر دی ہے۔ ہالہ انہیں کا نمائندہ کردار ہے۔

’میرے ہمسفر‘ ایک نفسیاتی طور پر مشکلات کا شکار لڑکی ہالہ کی کہانی ہے جس کے والد اسے بچپن میں ہی اس کی دادی اور تائی امی کے پاس چھوڑ کر بیرون ملک اپنی دوسری بیگم کے پاس چلے گئے تھے۔

نہ تایا اپنا بناتا ہے اور نہ تائی ماں نے محبت دی اور نہ کبھی اسے بچی سمجھا گیا۔ جس سے بڑے ہوتے ہوئے زندگی میں کچھ غلطیاں بھی ہوں گی اور انہیں معاف بھی کرنا ہوگا تاکہ وہ ایک اچھی اور مکمل انسان بن سکے۔

اس پہ چھوٹی عمر سے ہی تائی اور تایا کا ظلم ایسا رہا کہ وہ ایک ڈری سہمی، خوف زدہ، مایوس لڑکی بن گئی، جو نہ تو اپنےحق کے لیے بول سکتی ہے نہ دوسرے کی غلطی یا ظلم کو بتا سکتی ہے۔

جب اسے اپنے شوہر حمزہ کی صورت پہلی بار محبت ملی تو اسے عشق ہونا ہی تھا کیوں کہ اس نے کبھی پیار دیکھا ہی نہیں ہوا تھا۔

یہ عشق تم نہ کرنا، یہ روگ ہی لگائے

دفن خود ہی کرے ہے پھر سوگ بھی منائے

تھیم سانگ کا یہ مصرعہ عین ہالہ کے کردار پہ پورا اترتا ہے ہالہ جیسی لڑکی اتنا ہی چاہتی ہے اور اتنا ہی ٹوٹتی ہے، جتنا اس ڈرامے میں دکھا دیا گیا ہے کیوں کہ وہ ایک ایسی لڑکی ہے جو کسی پناہ میں، کسی گود، کسی آغوش میں بچپن سے ہی نہیں رہی جو انسان کو مضبوط بناتے ہیں اور مکمل کرتے ہیں۔

ڈرامے میں محرومیوں کی نفسیات کو محبت سے سنبھالا دینے کا ایک حسین سا سورج طلوع ہوتا ہے جس کو غروب کرنے کے لیے ہالہ کی تائی اماں (شاہ جہاں) اپنا ایڑھی چوٹی کا زور لگا لیتی ہیں لیکن قسط نمبر 35 نے جیسے تختہ ہی الٹ دیا ہے۔

شاہ جہاں جیسا کوئی بھی رشتہ جس کو حکومت کرنے کا شوق تادم آخر رہے جسے ظلم، ظلم نہ لگے جو اپنی فتح و کامیابی اور انا کی خاطر کسی بھی رشتے کے ساتھ کچھ بھی کر سکتا ہو ہمیشہ اپنے اور دوسروں کے لیے مشکلات پیدا کرتا ہے۔

ایسے رشتے ایک حاکم طبیعت انسان کو ہی بے چین و بے سکون نہیں رکھتے بلکہ پورے گھر اور خاندان کو پل صراط پہ چڑھائے رکھتے ہیں لیکن اپنی لگائی آگ میں گرتے بھی وہ سب سے پہلے خود ہی ہیں۔

شاہ جہاں صرف ہالہ کے لیے ہی نہیں اپنی بیٹی اور بیٹے بلکہ بیٹے کے گھر ہونے والی اولاد کے لیے بھی ویسا ہی ظالم کردار ہے جیسا ہالہ کے لیے ہے۔ ہالہ ان تمام مظلوم انسانوں کا استعارہ بنی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ساتھ ہی ساتھ قدرت کی چھاؤں کی پہچان بنی ہے کہ ظلم کی بھی ایک انتہا ہوتی ہے۔

شاہ جہاں کا مزاج حاکمانہ و جابرانہ ہے جو بیٹے پہ، شوہر پہ نہیں چلتا تو ان پانیوں کا رخ بیٹی رومی کی طرف ہوتا ہے لیکن شاہ جہاں یہ بھول جاتی ہے کہ رومی کی رگوں میں اس کا اپنا بھی خون ہے۔

وہ ہالہ کی طرح اپنی بیٹی پر آسانی سے حکومت نہیں کر سکے گی اور اس کی بیٹی خود اس کے سامنے دیوار بن کر کھڑی ہو جائے گی کیوں کہ اس نے گود، آغوش اوررشتوں کی پوری نرمی اور گرمی حاصل کی ہے۔

شاہ جہاں کا رومی کے ساتھ بدلا بدلا سخت رویہ اس کا باپ بھانپ لیتا ہے۔ رومی ایک لڑکے سے نکاح کر لیتی ہے یوں مکافات شاہ جہاں کے گھر میں ہی شروع ہو جاتا ہے۔

شاہ جہاں نے ہالہ کے کردار کی ہر ممکن دھجیاں اڑانے کی کوشش کی مگر حمزہ کا دل اپنی بیوی کے حوالے کسی بد گمانی کی گواہی نہیں دیتا۔ وہ اپنے گمان بادلوں کی گرج کی طرح دلیری سے بیان کر دیتا ہے جس سے اس کی ماں خوف میں بھی مبتلا ہوتی ہے۔ ایسے کردار کو آخر میں جادو گر ہی کہا جاتا ہے مگر وہ کردار ہی کیا جو جادو گری تک نہ پہنچ پائے۔

اگر کوئی بھی شوہر اپنی بیوی پہ اتنا اعتبار کرے تو کافی گھر جدائیوں سے بچ سکتے ہیں۔

ڈرامے کے ڈائیلاگ بہت ہی محنت سے لکھے گئے ہیں ورنہ جیسی کہانی ہے اس میں ڈراما اپنا معیار کھو دیتا۔ اگرچہ مکالمہ کہیں کہیں طویل ہوا ہے لیکن بوجھل نہیں ہوا۔ ڈرامے کی کامیابی میں عمدہ مکالمے کا بہت بڑا ساتھ اور ہاتھ ہے۔

’یااللہ میرا بیٹا تو اس کے دامن سے وضو کرنے کو تیار ہے۔۔،

کیا پیدا کیا ہے آپ نے امی؟ کوئی پاگل ہوں میں؟ دیوانہ ہوں میں؟

مرد ہوں ناں!

تو ایسی مردانگی پہ لعنت ہے جو اپنے ساتھ رہتی عورت کا کردار نہ بھانپ سکے۔

آپ نے ایسی عورتیں ابھی دیکھی ہی نہیں امی، پاس سے گزر جائیں ناں تو انسان ان کا کردار بھانپ لیتا ہے بالکل ویسے ہی جیسے ایک باکردار عورت کو دیکھ کر آنکھیں جھک جاتی ہیں۔‘

مصنفہ سائرہ رضا نے الفاظ کے چناؤ میں جس ہنر مندی سے کام لیا ہے وہ ان کی اپنی قوت مشاہدہ و مطالعہ کی عکاس بھی ہے۔

موسیقی بھی بہت اچھی ہے۔ بہت توجہ سے تھیم سانگ اور بیک گراونڈ میوزک ترتیب دیا گیا ہے اسی کے ساتھ ساتھ شاعری حسب ڈراما و حسب کہانی ہے۔ نوید ناشاد اور ان کی ٹیم کی محنت سے یہ گیت رومانوی گیتوں میں شمار ہو کر ہر دوسری وائرل ویڈیو میں سنائی دیتا ہے۔

ہر دور کی کامیابی کا معیار ناپنے کے اپنے کچھ اصول و قواعد ہوتے ہیں۔ آج کے ڈیجیٹل اصول و قوائد کے مطابق ’میرے ہمسفر‘ ہر اعتبار سے ایک کامیاب سیریل کے طور پہ شمار کیا جا رہا ہے۔

دیکھتے ہیں حمزہ اور ہالہ کی زندگی میں آنے والی ننھی روح ان کو کیسے ملاتی ہے کیوں کہ دونوں محبت کے نکتہ عروج پہ جدا ہوئے ہیں اور یہ پارا کم نہیں ہوا، چڑھا ہی ہے اب ملنے میں بھی ایک بار ٹوٹنا پڑے گا کہ یہ آئین فطرت ہے۔

رات کتنی ہی طویل کیوں نہ ہو اس کا سورج طلوع ہوتا ہے ’میرے ہمسفر‘ بھی طلوع آفتاب کی طرف بڑھ رہا ہے۔

آئیں مل کر سورج کی کرنوں کا دیدار کرتے ہیں جو زندگی ساتھ لاتی ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ