وزارت دفاع کا سابق فوجیوں کی سوسائٹیوں سے اعلان لاتعلقی

وزارت دفاع کے ذرائع نے بتایا کہ ویٹرن آف پاکستان نامی تنظیم کی کوئی ’سرکاری حیثیت‘ نہیں ہے اور ایسی تنظیم بنانے کے لیے جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) کی منظوری لازمی ہے۔

ویٹرنز آف پاکستان نے چھ مئی 2022  کو اسلام آباد میں پریس کلب کے باہر پریس کانفرنس کی (انڈپینڈنٹ اردو)

وفاقی وزارت دفاع  نے متاثرین سیلاب کے لیے چندے و عطیات، خیراتی مقاصد یا اپنے خیالات کی ترویج کے لیے فنڈز کا تقاضہ کرنے والی پاکستان فوج کے سابق ملازمین کی تنظیموں کی سرگرمیوں سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔

جمعے کی شام ایک بیان میں وفاقی وزارت دفاع نے اس سلسلے میں جاری کیے گئے ایک بیان میں خصوصا ویٹرنز آف پاکستان یا ایکس سروس مین سوسائٹی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ سابق فوجیوں کی سوسائٹیوں کے طور پر کام کرنے یا کام کا دعویٰ کرنے والی ایسی انجمنوں کی سرگرمیوں کو تسلیم یا ان کی ترویج نہیں کی جاتی۔

بیان میں کہا گیا کہ ’پاکستان کی مسلح افواج کی جانب سے ایسی نام نہاد سابق فوجیوں کی سوسائٹیاں جو پاکستان کی مسلح افواج یا اس کی اکائیوں کے ساتھ وابستگی کا غیر قانونی دعویٰ کرتی ہیں کو تسلیم کیا گیا ہے نہ ایسی سرگرمیوں کی اجازت ہے۔‘

بیان میں واضح کیا گیا کہ وزارت دفاع پہلے ہی سابق فوجیوں کی سوسائٹیوں کے کام کرنے اور انہیں چلانے کے لیے جامع پالیسی  رہنما اصولوں پر مرتب کر چکی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وزارت کے بیان میں کہا گیا کہ مستقبل کی مشاورت یا رہنمائی کے لیے وزارت دفاع کے دفاتر میں بھی یہی پالیسی دستیاب ہے جس کے رہنما اصولوں کی تعمیل نہ کرنے والے افراد کی کوئی بھی تنظیم مجرم ہو گی اور ایسے افراد اور تنظیم کو تعزیراتی نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔

دوسری جانب وزارت دفاع کے ذرائع نے بتایا کہ ویٹرن آف پاکستان نامی تنظیم کی کوئی ’سرکاری حیثیت‘ نہیں ہے اور ایسی تنظیم بنانے کے لیے جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) کی منظوری لازمی ہے۔

ذرائع نے مزید بتایا کہ ریٹائرڈ فوجی افسران کی تنظیم کا سبکدوش ہونے والے ملٹری اہلکاروں کی فلاح و بہبود سے متعلق ہے اور ایسی تنظیمیں کسی بھی حالت میں کسی سیاسی پلیٹ فارم کے طور پر کام نہیں کر سکتیں۔

وزارت دفاع کے ذرائع کا کہنا تھا کہ ملازمتوں سے سبکدوش ہونے والے تمام فوجی ریٹائرمنٹ کے بعد سیاست میں حصہ لینے کے لیے آزاد ہونے کے علاوہ اپنی سیاسی جماعت بھی بنا سکتے ہیں یا کسی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کر سکتے ہیں۔

’لیکن سبكدوش ملازمین ریٹائرڈ آرمی افسران کے پلیٹ فارم کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کر سکتے۔‘

ایکس سروس مین ایسوسی ایشن سے ویٹرنز آف پاکستان تک کا سفر

فروری 2007 میں سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے ہاتھوں اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان افتخار احمد چوہدری کے ہٹائے جانے کے تناظر میں پاکستانی فوج کے چند سبکدوش سینیئر افسران نے جنوری 2008 میں پاکستان ایکس سروس مین ایسوسی ایشن کے نام سے ایک تنظیم قائم کی تھی۔

تنظیم کی ویب سائٹ کے مطابق اس کا مقصد مسلح افواج کے امیج کے تحفظ، پرویز مشرف کی برطرفی اور عدلیہ کو تین نومبر سے پہلے کی پوزیشن پر بحال کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا تھا۔

پاکستان ایکس سروس مین سوسائٹی نے پہلا اجلاس اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں کیا جس میں 200 سے زیادہ سابق فوجیوں نے شرکت کی اور اس میں کئی ریٹائرڈ افسران اور 1965 کی جنگ کے سابق فوجی بھی شامل تھے۔

شرکا میں ایئر مارشل (ر) اصغر خان، ایئر مارشل نور خان اور تمام رینک پر مشتمل بہت سے ریٹائرڈ اہلکار شامل ہوئے تھے۔

پاکستان ایکس سروس مین ایسوسی ایشن نے اپنے اجلاسوں میں چیف جسٹس افتخار احمد چوہدری کی بحالی کے لیے وکلا کی تحریک کی حمایت کی اور اسی سال جون میں اس سلسلے میں ہونے والی لانگ مارچ میں حصہ بھی لیا۔

لیکن بعد میں پاکستان ایکس سروس میں ایسوسی ایشن کو بین الاقوامی رنگ دینے کی غرض سے اس کا نام تبدیل کر کے ویٹرنز آف پاکستان رکھ دیا گیا تھا۔

ویٹرنز آف پاکستان سابق وزیر اعظم عمران خان کی حمایت میں بھی پیش پیش رہی ہے اور اس سلسلے میں چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کو ایک خط بھی تحریر کر چکی ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان