بحرین اور کالام میں سیلاب سے ٹوٹی سڑکیں کھولنے کی کوششیں

سوات میں واقع بحرین روڈ حالیہ بارشوں میں بہہ گئی ہے جس پر سفر کرنے والے ایک مقامی شہری نصراللہ کا کہنا ہے کہ جب بھی سیلاب آتا ہے تو دو سال تک ان کی پریشانی ختم نہیں ہوتی۔

سوات میں سیلاب سے بحرین روڈ بہہ جانے کی وجہ سے لوگ پیدل سفر کرنے پر مجبور ہیں تاکہ اپنے خاندان کے لیے خوراک کا بندوبست کر سکیں (تصویر/سکرین گریب: شہزاد نوید)

خیبر پختونخوا کے علاقے سوات میں واقع بحرین روڈ حالیہ بارشوں کی نذر ہو گئی ہے جس پر سفر کرنے والے ایک شہری نصراللہ کا کہنا ہے کہ ’جب بھی سیلاب آتا ہے تو دو سال ان کی پریشانی ختم نہیں ہوتی۔‘

سوات میں حالیہ سیلاب کی تباہی کے بعد بحرین سے کالام تک شاہراہ جبکہ اس کے ساتھ دیگر مقامات تک جانے والی سڑکیں مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے جبکہ ان علاقوں کا زمینی رابطہ مکمل منقطع ہوچکا ہے۔

ضلعی انتظامیہ اور حکومت بحالی کی جانب سے سڑک کی بحالی کا کام شروع تو ہو چکا ہے لیکن اس کے باوجود مقامی لوگوں اپنی مدد کے تحت خود بھی اقدامات اٹھائے ہیں۔

خیبرپختونخوا کے ضلع سوات میں حالیہ سیلاب کے باعث کالام، بحرین سمیت دیگر بالائی علاقے بھی شدید متاثر ہوئے ہیں۔

ضلعی انتظامیہ کے اعداد و شمار کے مطابق مجموعی طور پر 233 مکانات، 50 ہوٹل، 41 سکول، 24 پل اور 130 کلو میٹر تک سڑکیں پانی میں بہہ گئی ہیں جبکہ اب تک 24 اموات ہوئی ہیں۔

حالیہ سیلاب میں دریائے سوات کا بہاؤ دو لاکھ 43 ہزار کیوسک ریکارڈ کیا گیا تھا جو 2010 کے سیلاب سے دگنا تھا۔

سیاحتی وادی کالام میں حکومت کے جانب سے تعمیراتی کاموں میں سست روی کی بعد مقامی لوگ خود میدان میں آگئے ہیں جہاں انہوں نے خود اپنی مدد کے تحت روڈ بحالی پر کام شروع کردیا ہے۔

ضلعی انتظامیہ کے مطابق ’رابطہ سڑکیں سیلاب سے بہہ جانے کے بعد مختلف علاقوں تک خوراک و دیگر بنیادی اشیا کے لیے آٹھ کمیپ لگائے گئے ہیں۔ مریضوں کے لیے 45 میڈیکل کیمپ کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جس میں اب تک 13 ہزار تین سو مریضوں کا چیک کیا گیا۔‘

مقامی شہری نصرالله نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’کالام سے بحرین تک 15 سے20 مقامات پر روڈ مکمل طور پر متاثر ہو چکی ہے۔‘

’پہلے ہمیں کالام تک بحرین سے 40 منٹ لگتے تھے اب چھ سے سات گھنٹے لگتے ہیں۔ بہت تشویش ناک اور افسوس ناک صورت حال ہے۔ اشیائے  خورد و نوش کے لیے مجبوراً ہمیں بحرین جانا پڑتا ہے۔ اگر ہم نہیں جاتے تو ہمارے بچے بھوک سے مر جائیں گے۔‘

نصرالله نے بتایا کہ ’یہ روڈ ہر دس سال بعد سیلاب سے متاثر ہوتی ہے۔ اس کو تعمیر کرنے کی بجائے حکومت کو چاہیے کہ دریائے سوات کے اوپر پہاڑی پر نئی روڈ تعمیر کریں تاکہ مستقبل میں اس قسم کے حالات سے نمٹا جا سکے۔‘

’کالام کے لوگ روڈ بحالی کے لیے اس لیے نکلے ہیں کہ صوبائی اور وفاقی حکومتوں کے درمیان اختلافات ہیں اور ہم ان کی وجہ سے متاثر ہو رہے ہیں۔ اب تک کالام کےمقامی لوگوں نے ڈیڑھ کلومیٹر روڈ خود اپنی مدد آپ کے تحت بنا بھی لی ہے۔‘

وادی کالام سے لوگ پیدل خطرناک پہاڑی راستوں سے بحرین منتقل ہو رہے ہیں اور اکثر مریضوں کو چارپائیوں پر پہاڑی راستوں سے منتقل کیا جارہا ہے جو انتہائی خطرناک اور حادثوں کا باعث بن سکتا ہے۔

سڑک کی تعمیر کے حوالے سے اسسٹنٹ کمشنر بحرین اسحٰق احمد نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’بحرین سے کالام تک 45 کلومیٹر روڈ بنتا ہے اور ہم نے روڈ کی بحالی کے لیے 24 گھنٹے سرگرمیاں شروع کر رکھی ہیں۔‘

’روڈ بحالی کے لیے الیون کور کے انجینیئرز، ایف ڈبلیو او اور این ایچ اے کام میں مصروف ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ ’ہماری کوشش ہے کہ لوگوں کی مشکلات کے پیش نظر سڑک کی تعمیر کو ایک ہفتے میں ممکن بنائیں۔‘

اسسٹنٹ کمشنر بحرین نے بتایا کہ ’کالام کے مقامی لوگوں نے خود اپنی مدد آپ کے تحت روڈ بحالی کا کام شروع کیا ہے یہ بہت احسن اقدام ہے۔ سال 2010 سیلاب میں بھی کالام کے لوگوں نے روڈ بحالی میں اپنا کردار ادا کیا تھا اور اب بھی  کر رہے ہیں اگر لوگوں کا تعاون رہا تو شاہراہ جلد ہی تعمیر کردی جائے گی۔‘

سوات اور ملاکنڈ ڈویژن میں بحالی کے کاموں میں حکومت کی سست روی پر لوگ نالاں ہیں  جبکہ انتظامیہ دعوے کر رہی ہے کہ وہ 24 گھنٹے مصروف عمل ہیں۔

کمشنر ملاکنڈ ڈویژن شوکت یوسفزئی کے مطابق ’بحرین سے کالام تک ڑود کلیئر کرنے کے لیے پاکستان آرمی کی مدد سے ہنگامی بنیادوں پر کام جاری ہے اور سات دنوں کے اندر روڈ آمدورفت کے لیے بحال کرنے کا ٹاسک انہیں دیا گیا ہے۔‘

صوبائی حکومت کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق ملاکنڈ ڈویژن میں 66 اموات ہوئیں اور 47 افراد زخمی ہوئے ہیں۔

2336 رہائشی مکانات، 438 سکول، 35 صحت مراکز، 517 روڈز، 141 پل، 183 ایریگیشن چینلز متاثر، 711 مویشی مارے گئے، 13 سپورٹس سہولیات اور 50 کمیونٹی بجلی گھر متاثر ہوئے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان