سابق وزیراعظم عمران نے خاتون جج کو ’دھمکی‘ دینے کے حوالے سے توہین عدالت کیس میں اپنے الفاظ پر اظہار افسوس کیا ہے اور کہا ہے کہ اگر خاتون جج کے احساسات کو ٹھیس پہنچی ہے تو اس کے لیے وہ بہت شرمندہ ہیں۔
بدھ کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں عمران خان نے اپنے ضمنی جواب میں وضاحت دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا بیان حالات کے مطابق تھا۔
20 اگست کی شب سابق وزیراعظم عمران خان نے اسلام آباد کے ایف نائن پارک میں تقریر کرتے ہوئے ایڈیشنل سیشن جج زیبا چوہدری، آئی جی اور ڈی آئی جی اسلام آباد کو نام لے کر ’دھمکایا‘۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے خاتون سیشن جج زیبا چوہدری کے خلاف ’دھمکی آمیز‘ الفاظ استعمال کرنے پر عمران خان کو شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے عدالت طلب کیا تھا۔
عمران خان کے جواب میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے غیرارادی الفاظ خاتون جج کو براہ راست نہیں کہے گئے۔ ’خاتون جج کی بہت عزت کرتا ہوں۔ خاتون جج کے احساسات کو تکلیف پہنچانا مقصد نہیں تھا۔ اگر خاتون جج کے احساسات کو ٹھیس پہنچی ہے تو اس کے لیے بہت شرمندہ ہوں۔‘
تحریری جواب کے مطابق عمران خان کا کہنا ہے کہ ان کا مقصد خاتون جج کو دھمکانا نہیں تھا اور وہ نہ ایسا کرنے کا سوچ سکتے ہیں۔ جواب میں انہوں نے عدالت کو یقین دلایا ہے کہ انہیں اپنے الفاظ پر زیبا چودھری سے پچھتاوے کا اظہار کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں ہو گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جواب میں کہا گیا ہے، ’خواتین کے حقوق کی بات کرتا ہوں، خواتین ججز کی عدلیہ میں نمائندگی کا حامی ہوں۔ اپنے ادا کیے گئے الفاظ سے نظام انصاف کی راہ میں رکاوٹ کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ خاتون جج کے بارے میں قانونی ایکشن لینے کی بات کی تھی، حملہ کرنے کی نہیں۔‘
عمران خان نے اپنے جواب میں کہا کہ عدالت کا شکرگزار ہوں کو انہوں نے ایک اور جواب جمع کروانے اور موقف دینے کا موقع عطا کیا۔ ’اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے غیر ارادی کہے گئے الفاظ پر گہرے افسوس کا اظہار کرتا ہوں۔‘
واضح رہے کہ گزشتہ روز چھ ستمبر کی شام پشاور جلسے میں چئیرمین تحریک انصاف عمران خان نے خاتون جج زیبا کا دوبارہ نام لیتے ہوئے کہا تھا کہ ’ایک مجسٹریٹ زیبا کے خلاف اگر لگا کہ میں نے سخت زبان استعمال کی تو اس کی ایک وجہ تھی۔‘
دونوں جوابات میں کیا فرق ہے؟
جبکہ اس سے قبل جمع کروائے گئے جواب میں عمران خان نے موقف اپنایا تھا کہ انہیں علم نہیں تھا کہ یہ خاتون جج مجسٹریٹ ہیں بلکہ وہ اس غلط فہمی اور مغالطے کا شکار تھے کہ مجسٹریٹ زیبا چوہدری سول سرونٹ ضلعی انتظامیہ کی مجسٹریٹ ہیں جو شہباز گِل کے معاملے پر وفاقی حکومت کی ہدایات پر عمل کر رہی ہیں۔ ورنہ علم ہوتا کہ جوڈیشل مجسٹریٹ ہیں تو کبھی ایسا نہ کہتا۔
ضمنی جواب گزشتہ جواب سے کچھ مختلف ہے۔ اس میں کہے گئے الفاظ پر افسوس کا اظہار نہیں کیا گیا تھا بلکہ کہا گیا تھا کہ اگر الفاظ نامناسب ہیں تو الفاظ واپس لینے کی پیشکش کرتا ہوں۔ جبکہ ضمنی جواب میں عدالتی کارروائی کی روشنی میں تبدیلیاں کی گئی ہیں اور شرمندگی، ندامت اور افسوس جیسے الفاظ کا استعمال کیا گیا ہے جب کہ ساتھ ہی ذیلی عدالتوں کے کردار کی تعریف بھی کی گئی ہے۔
’اندازا نہیں تھا کہ غیر ارادی بیان کے کیا اثرات ہوں گے‘
بدھ کے روز توہین عدالت کیس میں انیس صفحات پر مشتمل جواب جمع کرایا گیا جس میں سے چودہ صفحات پر جواب جبکہ باقی صفحات پر شہباز گِل کیس کے حوالے عدالتی حکم نامے کی نقول منسلک کی گئیں۔
عمران خان نے اپنے جواب میں کہا کہ توہین عدالت قانون کا مطلب سزا دینا نہیں بلکہ قانون کی بالادستی قائم رکھنا ہے۔ اندازا نہیں تھا کہ تقریر میں کہے گئے الفاظ کے کیا اثرات ہوں گے۔ میں قانون و آئین کی بالادستی پر یقین رکھتا ہوں۔ تقریر میں خاتون جج اور افسران بارے کہے گئے الفاظ فی البدیہہ تھے اور تقریر میں کہے گئے الفاظ کا مقصد کسی پر ذاتی حملہ کرنا ہر گز نہیں تھا۔
عمران خان نے اپنے جواب میں کہا کہ میں سمجھا کہ شہباز گل کا فزیکل ریمانڈ ہوا اور معاملہ نچلی عدالت میں ختم ہو گیا۔ میں شہباز گِل کی پرتشدد وڈیوز دیکھ کر بہت پریشان تھا۔ میرا شیڈول بہت مصروف ہے اس لیے عدالت عالیہ میں زیر التوا کیس کے بارے میں نہیں جان سکا۔ اب مجھے سب زیر سماعت کیس سے متعلق تکنیکی نکتہ سمجھا دیا گیا ہے۔ یقین دہانی کراتا ہوں کہ مستقبل میں عدالتی زیر التوا معاملات میں محتاط رہوں گا۔
عمران نے مزید کہا: ’اس کیس میں میں ضد کر کے اپنے الفاظ پہ قائم نہیں ہوں۔ بلکہ کہے گئے الفاظ کی ایمانداری سے وضاحت کی ہے۔ میں نے اپنے الفاظ واپس لینے کی بھی پیشکش کی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ مجھے علم نہیں تھا کہ شہباز گِل کا معاملہ ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے۔ عمومی طور پر فزیکل ریمانڈ سے فزیکل ٹارچر ہی مطلب سمجھا جاتا ہے۔
’عدالت عفو و درگزر کرے‘
عمران خان نے عدالت سے درخواست کی کہ عدالتیں ہمیشہ معافی اور تحمل کے اسلامی اصولوں کو تسلیم کرتی ہیں۔ استدعا کرتا ہوں اس کیس میں بھی عدالت عفو و درگزر کا رویہ اختیار کرے اور وضاحت قبول کرکے شوکاز نوٹس ڈسچارج کیا جائے۔
توہین عدالت کیس کی سماعت بروز جمعرات نو ستمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہو گی۔ عدالت نے بیس اگست کو ایف نائن پارک میں چئیرمین تحریک انصاف عمران خان کی تقریر میں ایڈیشنل سیشن جج زیبا چوہدری سے متعلق نامناسب الفاظ پر توہین عدالت کی کارروائی کا آغاز کرتے ہوئے پانچ رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا اور عمران خان کو شوکاز نوٹس جاری کیا تھا۔