پاکستان اور افغانستان کے درمیان بداعتمادی کی فضا برقرار

پاکستان اور افغانستان کے درمیان ڈائیلاگ کا ایک جامع نظام موجود ہے لیکن دونوں نے اس فورم کے ذریعے معاملات پر گفتگو کی بجائے میڈیا میں روایتی ’بلیم گیم‘ کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔

دو ستمبر کو ہرات میں ایک دھماکے میں دو امام ہلاک ہو گئے، جو طالبان حکومت کے لیے بڑا دھچکہ تھا (اے ایف پی)

کابل میں ایک امریکی ڈرون حملے میں القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کی ہلاکت کے بعد پاکستان اور افغانستان میں طالبان حکومت کے درمیان تعلقات دباؤ کا شکار ہیں۔

طالبان عبوری حکومت کے وزیر دفاع ملا محمد یعقوب نے 28 اگست کو کابل میں ایک پریس کانفرنس میں پاکستان پر الزام لگایا کہ افغانستان داخل ہونے والے امریکی ڈرون طیاروں کو پاکستان اپنی فضائی حدوو استعمال کی اجازت دے رہا ہے۔ انہوں نے پاکستان سے مطالبہ کیا کہ اپنی سرزمین اور فضائی حدود افغانستان کے خلاف استعمال ہونے کی اجازت نہ دے۔

ملا یعقوب کے بیان پر پاکستان کا رد عمل بھی قدرے سخت تھا۔ وزارت خارجہ کے ترجمان نے طالبان کو ان کے وعدوں کو یاد دلاتے ہوئے کہا کہ افغان سرزمین کو کسی کے خلاف استعمال نہ کرنے سے متلعق بین الاقوامی برادری سے اپنے وعدے پورے کرے۔

پاکستانی ترجمان نے امریکی ڈرون طیاروں کو فضائی حدود دینے سے متعلق ملا یعقوب کے الزام سے متعلق براہ راست کچھ بھی نہیں کہا، تاہم اس سے پہلے پاکستانی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا تھا کہ پاکستان کا امریکی حملے میں کوئی کردار نہیں تھا۔

ملا یعقوب کا بیان رانا ثناء اللہ کے وضاحت کے بعد آیا تھا جس کا مطلب یہ ہے کہ طالبان حکومت پاکستان کے موقف سے مطمئن نہیں۔ اعتماد کی بحالی کے لیے پاکستان کو طالبان کو یقین دہانی کرنی پڑے گی۔ پاکستان شاید واحد ملک تھا جس نے امریکی ڈرون حملے سے متعلق بیان جاری کیا تھا جس میں ایک لحاظ سے ڈرون حملے کی حمایت کی گئی تھی۔

جب مسائل کے حل کے لیے سفارتی چینلوں کو استعمال کرنے کی بجائے میڈیا میں روایتی ’بلیم گیم‘ کو ترجیح دی جاتی ہے تو یہ ایک دوسرے پر بد اعتمادی کا اظہار ہوتا ہے اور پاکستان اور طالبان حکومت کے مابین تعلقات میں کشیدگی 31 جولائی کو کابل میں امریکی ڈرون حملے کے بعد پیدا ہوئی ہے۔

ملا یعقوب سے متعلق افغان طالبان میں عمومی سوچ یہی ہے کہ وہ پاکستان مخالف ہیں جس کی وجہ سے جنوبی افغانستان سے تعلق رکھنے والے طالبان کی اکثریت بھی اسی کیمپ میں شامل تصور کیے جاتے ہیں۔ ملا یعقوب اس وقت طالبان کے نظام میں چند طاقتور شخیصات میں سے ایک ہیں اور ایک افغان وزیر کا عوامی فورم میں پاکستان سے متعلق بیان ایک لحاظ سے پاکستان کے لیے شرمندگی کا باعث ہے کیونکہ یہ بیان ایک وزیر کا نہیں بلکہ طالبان حکومت کا بیان تصور کیا جائے گا۔

یہ صرف ملا یعقوب کا پاکستان سے متعلق بیان نہیں بلکہ اس کے بیان سے تقریباً دس دن پہلے قندھار میں طالبان رہنماوں اور علماء کی ایک بڑی کانفرنس کے اعلامیے میں نام لیے بغیر کہا گیا کہ ’ایک پڑوسی ملک نے امریکا کو اپنی فضائی حدود استمال کی اجازت دے کر جرم میں شامل ہونے کا اعتراف کیا ہے۔‘

سب کو معلوم ہے کہ ایک پروسی ملک سے مراد کس ملک کا ہے۔ طالبان اہلکاروں کے مطابق قندھار کے اجتماع سے طالبان کے امیر شیخ ہبت اللہ نے بھی خطاب کیا تھا۔

اگر پاکستان نے طالبان حکومت کے ساتھ تعلقات میں اعتماد کی فضا قائم کرنا ہے تو طالبان کے خدشات کو دور کرنا پڑے گا جوکہ میری نظر میں اتنا آسان نہیں۔

ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات بھی متاثر ہو سکتے ہیں

کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ پاکستان ریاستی اداروں کے امن مذاکرات بھی متاثر ہونے کا خدشہ ہے کیونکہ اب طالبان حکومت کو اپنے معاملات پر توجہ دینا ہے۔ بد اعتمادی اور الزامات کے ماحول میں طالبان حکومت کے لیے مزید میزبانی کرنے میں مشکلات پیدا ہو سکتے ہیں۔

ویسے بھی اس وقت طالبان حکومت کے لیے سکیورٹی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے اور پانچ ستمبر کو کابل میں روسی سفارت خانے کے باہر خود کش حملے میں روسی سفارت خانے کے دو اہلکاروں کی ہلاکت سے طالبان کے سکیورٹی اداروں کو بہت بڑا دھچکہ لگا ہے۔ روس اس وقت طالبان کا سب سے مضبوط حامی ملک ہے اور ممکن ہے کہ اسی تعلق کی وجہ سے داعش نے سفارت خانے کو نشانہ بنایا ہے۔

پشتون مشترکہ جرگے سے کابل میں آخری نشست 30 اور 31 جولائی کو ہوئی تھی۔ دوسری جانب فائر بندی کے باوجود حالیہ دنوں میں ٹی ٹی پی کے حملوں میں اضافہ پاکستان اور طالبان حکومت کے درمیان تعلقات متاثر کرسکتی ہے کیونکہ پاکستان کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی افغانستان سے حملوں کی منصوبہ بندی کرتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ٹی ٹی پی نے ستمبر کے پہلے ہفتے میں خیبر پختونخوا کے لکی مروت، ڈیرہ اسماعیل خان، پشاورمیں پولیس اور خیبر ضلع میں ایف سی کی گاڑی پر حملوں کٰٓی ذمہ داری قبول کی ہے۔ اس کے علاوہ پانچ ستمبر کو شمالی وزیرستان ضلع کے بویا تحصیل میں پاکستانی فوج کے ساتھ جھڑپ کی تصدیق کی ہے۔ یکم جون کو نامعلوم مدت کے لیے جنگ بندی کا اعلان تو برقرار ہے لیکن عملی طور ہر فائر بندی ایک لحاظ سے ختم ہوگئی ہے کیونکہ ٹی ٹی پی اب ماضی کی طرح حملوں کی ذمہ داری لینا شروع کر دی ہے۔

ڈائیلاگ کا نظام موجود ہے لیکن غیر موثر

پاکستان اور افغانستان کے درمیان سکیورٹی سمیت اہم معاملات پر ڈائیلاگ کا ایک جامع نظام موجود ہے لیکن دونوں نے اس فورم کے ذریعے معاملات پر گفتگو کی بجائے میڈیا میں روایتی ’بلیم گیم‘ جاری رکھا۔ سابق صدر اشرف غنی کی حکومت کے دوران دونوں ممالک نے ’امن اور یکجہتی کے لیے افغان اور پاکستانی لائحۂ عمل‘ کے نام سے جامع مذاکرات کے لیے ایک نظام بنایا تھا۔

 گذشتہ سال اکتوبر میں اس وقت کے پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے دورہ کابل اور ایک ماہ بعد افغان عبوری وزیر خارجہ امیر خان متقی کی دورہ پاکستان کے دوران دونوں ممالک نے فیصلہ کیا تھا کہ دوطرفہ مذاکرات کے لیے اسی نظام کو جاری رکھا جائے گا جس میں دونوں ممالک کے فوجی افسران، انٹلیجنس اھلکاروں، وزارت خارجہم تجارتی معاملات اور مہاجرین سے متعکقہ امور پر گروپس قائم ہیں۔

کابل میں پاکستانی سفارتی نمائندگی کم ہو گئی

افغانستان کے لیے پاکستانی سفیر منصور احمد خان کی کابل میں سفارتی ذمہ داریاں مکمل ہو گئی ہیں اور وہ اسلام اباد واپس آ چکے ہیں اور اس وقت نائب سفیر اسد عباس ناظم الامور کی چیثیت سے ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں۔ خارجہ امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ چونکہ پاکستان نے اب تک طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے تو قانونی طور پر نیا سفیر نہیں بھجوایا جا سکتا۔

منصور خان کابل پر طالبان کنٹرول کے وقت کابل میں پاکستانی سفیر تھے۔ اب دونوں ممالک کے درمیان سفارتی سطح سفیر سے کم ہو کر ناظم الامور کا رہے گا۔ رپورٹوں کے مطابق پاکستان نے وزارت خارجہ کے یورپ ڈسک کے سربراہ عبید الرحمان کو کابل میں ناظم الامور کی حیثیت سے تعینانی کا فیصلہ کیا گیا ہے تاہم سرکاری طور پر اس کا اعلان نہیں ہوا ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو کو وزارت خارجہ کے ذرائع نے بتایا ہے کہ سفیر کی سطح برقرار رکھنے کے لیے منصور خان کو توسیع سے متعلق تجویز پر کسی حد تک مشورے ہوئے تھے لیکن کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہو سکا۔ ایک سفارتی اہلکار کا کہنا ہے کہ پاکستان شائد منصور خان کو کچھ عرصے کے لیے کابل میں رہنے دینے اگر طالبان حکومت سفارتی سطح برقرار رکھنے کی درخواست کرتے لیکن شاید ایسا نہیں ہوا۔ منصور خان اسی ہفتے ریٹائرڈ ہوجایئں گے۔

 گذشہ سال اگست میں کابل پر طالبان کنٹرول کے بعد پاکستان نے سب سے پہلے اسلام آباد میں افغان سفارت خانہ طالبان کے حوالے کیا تھا، طالبان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے امریکہ اور نیٹو فورسز کے خلاف جنگ کے دوران قاری یوسف کے نام سے طالبان کی ترجمانی کرنے والے سرادر شکیب احمد کو سفارتی ذمہ داریوں کے لیے نامزد کیا تھا۔

پاکستان افغانستان بس سروس بھی تعطل کا شکار

پاکستان اور طالبان حکومت جولائی میں فیصلے کے باوجود گذشتہ ماہ کے اخر تک مسافر بس شروع کرنے میں ناکام رہے۔

سیکریٹری وزارت تجارت محمد صالح احمد فاروقی کی قیادت میں پاکستانی وفد کے دورہ افغانستان میں فیصلہ ہوا تھا کہ اگست کے اخر تک پشاور اور افغانستان کے مشرقی شہر جلال اباد اور کویٹہ اور افغانستان کے جنوبی شہر کندھار کے درمیان 'لگژری' بس شروع کی جائے گی۔ دونوں ممالک کی عدم دلچسپی کی وجہ سے بس سروس ابھی تک شروع نہیں ہو سکی۔

 ملا یعقوب کا بیان اور بیان پر پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان کا ردعمل کے بعد پیدا ہونے والی کشیدگی کم کرنے کے لیے اس وقت تک کوئی کوشش نہیں ہو سکی۔ پاکستان تو طالبان حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش کرے گا لیکن اب دیکھنا ہے کہ طالبان کا کیا رد عمل سامنے آتا ہے؟

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر