طالبان تاشقند کانفرنس کے نتائج سے مطمئن

افغان نمائندے کا کہنا ہے کہ پہلے افغان میں جنگ سے متعلق کانفرنسیں ہوا کرتی تھی لیکن اب افغانستان کی اقتصادی ترقی سے متعلق بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہو رہی ہے جو بہت اچھی پیش رفت ہے۔

25 اور 26 جولائی کو تاشقند میں افغان وفد کے ارکان (طالبان وزارتِ خارجہ)

افغانستان میں طالبان حکومت کے عہدیدار ازبکستان کے دارالحکومت تاشقند میں ہونے والی حالیہ بین الاقوامی کانفرنس کے نتائج سے مطمئن نظر آتے ہیں۔

افغان وزارت خارجہ کے ایک سینیئر اہلکار ذاکر جلالی کا، جو 25 اور 26 جولائی کو بین الاقوامی کانفرنس میں افغان وفد کا حصہ تھے، کہنا ہے کہ یہ کانفرنس ان کی حکومت کے ایک بڑی کامیابی تھی کہ شرکا کی اکثریت نے ’اسلامی امارت کے موقف اور مطالبات کی حمایت کی اور وہ ممالک تنہائی کا شکار نظر آ رہے تھے جن کو ہماری حکومت پر اعتراضات تھے۔‘

ذاکر جلالی نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’خطے اور دنیا کے اہم ممالک نے افغانستان میں امن، استحکام، ترقی اور ہم سے رابطوں سے متعلق ہمارے موقف کی حمایت کی۔‘

کانفرنس میں 14 رکنی افغان وفد کی قیادت وزیر خارجہ امیر خان متقی نے کی تھی۔ کانفرنس سے خطاب کے علاوہ افغان وفد کو کانفرنس کے شرکا سے دوطرفہ ملاقاتوں میں اپنا موقف براہ راست پہچانے کا موقع بھی ملا۔

امیر خان متقی کا کہنا تھا کہ پہلے افغان مسئلے مذاکرات، جنگ بندی اور جنگ ختم کرنے سے متعلق کانفرنسیں ہوا کرتی تھی لیکن اب افغانستان کی اقتصادی ترقی سے متعلق بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہو رہی ہے جو بہت اچھی پیش رفت ہے۔

کانفرنس میں تین اہم موضوعات پر بات کی گئی جن میں امریکہ کی جانب سے افغان اثاثوں کو منجمد کرنا شامل تھا۔ کئی ممالک کے وفود نے کھلے انداز اور کئی نے اشاروں میں اس کا ذکر کرتے ہوئے اس کی بحالی کا مطالبہ کیا۔ علاقے کے ممالک چین اور روس نے واضح انداز میں تقریباً نو ارب ڈالر مالیت کے افغان اثاثوں کی واپسی کا مطالبہ کیا۔

کانفرنس میں شامل ایک افغان افسر کے مطابق افغانستان کے لیے روس کے نمائندہ خصوصی ضمیر کابولوف نے کہا کہ امریکہ نے ’پیسے چوری‘ کیے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک اور اہم بات یہ تھی کہ خطے کے ممالک نے امریکہ اور مغربی ممالک سے شکایت کی کہ وہ خطے کے حالات کا ادراک نہیں کرتے اور صورت حال پر توجہ نہیں دیتے۔

کئی شرکا نے مغربی ممالک کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’وہ سب کچھ اپنی مرضی سے کرتے ہیں۔ خطے کی سکیورٹی صورت حال پر توجہ نہیں دیتے۔ اس کو توجہ دے کر ترجیحات میں شام کیا جائے۔ اگر افغانستان میں سکیورٹی کے حالات خراب ہوتے ہیں تو نقصان ہمیں پہنچتا ہے، امریکہ اور مغرب کو تو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔‘

اگرچہ ابھی تک کسی ملک نے طالبان کی اسلامی امارت کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے لیکن کانفرنس نے طالبان حکومت کو یہ موقع فراہم کیا کہ اہم ممالک کے نمائندوں کو اپنی پالیسیوں سے براہ راست اگاہ کریں۔

افغانستان کے لیے پاکستانی نمائندہ خصوصی محمد صادق کا کہنا تھا کہ کئی ممالک کی جانب سے منجمد کیے گئے افغان اثاثوں کی بحالی اس مرحلے پر افغانستان کی معیشت کے لیے بہت اہم ہے۔ ’اس لیے ہم بین الاقوامی برادری پر زور دیں گے کہ اس بات کو یقینی بنائے کہ افغان عوام کا حق ان کو دیا جائے۔ یہ اخلاقی طور پر اہم اور ایک عملی ضرورت بھی ہے۔‘

اگرچہ محمد صادق نے تقریر میں ایک وسیع البنیاد نظام کے معاملے کا تو ذکر کیا لیکن کئی دیگر شرکا کی طرح ایک وسیع البنیاد حکومت کا مطالبہ نہیں کیا۔ ان کا موقف تھا کہ سیاسی نظام روایتی طور پر اندرونی معاملہ تصور کیا جاتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں ایک مخصوص مسئلے پر زیادہ زور نہیں دینا چاہیے۔

پاکستانی نمائندے کی تقریر طالبان کے لیے اطمینان کا باعث ہو گی کیونکہ میزبان ازبکستان سمیت اکثر شرکا نے ایک وسیع البنیاد حکومت کا مطالبہ کیا تھا۔

اسلام آباد میں ازبکستان کے سفارت خانے کے مطابق کانفرنس میں برطانیہ، یورپی یونین، ایران، اٹلی، سپین، قازقستان، کرغیزستان، تاجکستان، چین، ناروے، پاکستان، روس، امریکہ، ترکی، جاپان کے افغانستان کے لیے نمائندہ خصوصی کے علاوہ اقوام متحدہ اور اس کے متعلقہ اداروں، اقتصادی تعاون کی تنظیم، اسلامی تعاون تنظیم، بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے نمائندوں کے علاوہ دیگر 40 ممالک کے اہلکاروں نے شرکت کی۔
مجموعی طور پر 100 غیر ملکی وفود نے کانفرنس میں شرکت کی۔ یہ کانفرنس 25 اور 26 جولائی کو ہونے والی کانفرنس ازبکستان کے صدر شوکت میرزییوف کی جانب سے بلائی گئی تھی۔

ازبکستان کے صدر نے اپنی تقریر میں کہا کہ ’آمو دریا‘کے اس پار (یعنی افغانستان) میں استحکام کے بغیر ازبکستان اور پورے مرکزی ایشیا میں سلامتی اور پائیدار ترقی ممکن نہیں۔‘

انہوں نے شرکا کو بتایا کہ افغانستان کو اس وقت شدید سماجی، اقتصادی اور انسانی بحران کا سامنا ہے اور اس ملک کو نظر انداز کرنا باعث تشویش ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کو 1990 کی دہائی کی غلطیاں نہیں دہرانی چاہییں۔

ان کا اشارہ سابق سوویت یونین افواج کے افغانستان سے نکلنے کے بعد بحران کی طرف تھا جس کے بعد ہونے والی خانہ جنگی نے بڑی تباہی مچائی تھی۔ ان کا موقف تھا کہ افغانستان کو بین الاقوامی تنہائی سے بچانا چاہیے کیونکہ اس سے ملک انسانی بحران کی طرف چلا جائے گا۔ انہوں نے طالبان حکومت سے مطالبہ کیا کہ دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن اقدامات اٹھائے اور تمام بین الاقوامی دہشت تنظیموں کے ساتھ تعلقات ختم کریں۔

 ازبکستان کا افغانستان پر بین الاقوامی کانفرنس اس کا مقصد سلامتی، امن، جنگ کے بعد افغانستان کی تعمیر نو اور اس کی بنیاد پر افغان عوام کے مفادات کے علاقائی تعاون کو فروغ دینا ہے۔ ازبکستان اس سے پہلے جولائی 2021 اور مارچ 2018 میں افغانستان پر بین الاقوامی کانفرنس منعقد کر چکا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اگرچہ ازبکستان کے بارے میں ماضی میں کہا جاتا تھا کہ وہ طالبان مخالف ازبک رہنما جنرل عبدالرشید دوستم کی حمایت کرتا تھا، لیکن اس وقت کئی اہم اقتصادی منصوبوں کی تکمیل اور علاقے میں تجارت کو مزید فروغ دینے کے لیے ایک آزاد پالیسی اپنائی ہوئی ہے۔ ان اہم منصوبوں میں ایک سہ ملکی ریلوے منصوبہ ازبک شہر ترمیز سے شروع ہو کر مزارشریف، کابل، جلال آباد اور پشاور تک بھی ہے۔

 گذشتہ سال جولائی اور اگست میں صوبہ بلخ کے مرکز مزار شریف سمیت افغانستان کے شمالی علاقوں میں طالبان کے حیران کن کنٹرول کے بعد کئی طالبان مخالف رہنما ازبکستان چلے گئے تھے۔ گذشتہ سال ازبکستان کے صدارتی انتخابات کی کوریج کے دوران ازبکستان کے نائب وزیر خارجہ فرقات صدیقوف نے میرے ایک سوال پر کہا کہ ’اس وقت طالبان مخالف کوئی رہنما ازبکستان میں موجود نہیں ہے۔‘

باوجود اس کے کہ کسی ملک نے طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے لیکن دنیا اور بالخصوص خطے کے ممالک افغانستان کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ امریکہ بھی طالبان حکومت کے ساتھ باقاعدہ مذاکرات کرتا ہے اور مذاکرات تازہ دور قطر میں جون میں ہوا تھا۔ ویسے بھی افغانستان کو نظر انداز کرنا بھی ایک غلطی ہو گی۔ افغانستان میں امریکہ اور ان کے نیٹو اتحاد کا 20 سال کے جنگ کا خاتمہ ہوا ہے۔

ازبکستان کی افغانستان کے ساتھ 144 کلومیٹر مشترکہ سرحد بھی ہے اور اس وسطی ایشیا کے اہم ملک کے افغانستان سے متعلق سکیورٹی خدشات بھی رہے ہیں اور کسی حد تک اب بھی موجود ہیں۔

طالبان حکام کا کہنا ہے کہ ازبکستان کی قومی سلامتی کے مشیر اور وزیر خارجہ کے علاوہ دیگر عہدیدار طالبان حکومت بننے کے بعد کابل کے دوروں میں افغانستان میں ازبک شدت پسندوں کی موجودگی پر تشویش کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔

ایک طالبان حکومتی عہدیدار کا کہنا ہے کہ چین کی طرح ازبکستان بھی شدت پسندوں کے ساتھ مذاکرات سے انکاری ہے۔

طالبان نے کئی مرتبہ پاکستان، چین اور ازبکستان کو مشورہ دیا تھا کہ شدت پسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کے مسلح مخالفین سے سیاسی مذاکرات کریں اور یہ کہ طالبان حکومت اس میں تعاون کرے گی۔ پاکستان نے تجویز مان لی تھی اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور پاکستانی ریاستی اداروں کے درمیان مذاکرات اس تناظر میں ہو رہے ہیں۔

اب جبکہ طالبان اہلکار خود تسلیم کرتے ہیں کہ کانفرنس میں موجود نمائندوں نے ان کے موقف کی حمایت کی ہے توطالبان کو بھی دنیا اور بالخصوص خطے کے ممالک کے مطالبات پر غور کرنا پڑے گا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا کے اکثر ممالک طالبان سے مسلسل مطالبہ کر رہے ہیں موجودہ نظام میں دوسروں کو بھی جگہ دیں۔ طالبان اس سے انکاری ہیں اور ان کا موقف ہے کہ افغانستان کی تمام اقوام کو حکومت میں نمائندگی دی گئی ہے۔ طالبان کے اس موقف سے دنیا متفق نہیں ہے۔ دنیا کے اکثر ممالک طالبان سے مسلسل مطالبہ کر رہے ہیں کہ چھٹی جماعت سے اوپر لڑکیوں کے سکول کھول دیے جائیں، لیکن اس فیصلے کا بھی انتظار ہے۔

انسانی بالخصوص خواتین کے حقوق سے متعلق بھی طالبان حکومت کی پالیسیوں پر دنیا کے تحفظات موجود ہیں۔ اگر طالبان کو دنیا سے توقعات ہیں اور ان کا مطالبہ ہے کہ ان کی حکومت کو تسلیم کیا جائے تو انہیں بھی دنیا کے مطالبات کا مثبت جواب دینا پڑے گا۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی رائے پر منبی ہے، ادارے کا اس سے متفق ہونا لازمی نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر