افغانستان: کیا طالبان مشکلات کا حل نکال پائیں گے؟

31 جولائی کو کابل میں امریکی ڈرون حملے میں القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کی ہلاکت سے متعلق امریکی صدر جو بائیڈن کے بیان کے بعد طالبان حکومت کو بین الاقوامی رابطوں میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

13 اگست 2022 کی اس تصویر میں افغان انتظامیہ کے وزیراعظم محمد حسن اخوند سابقہ صدارتی محل میں ایک تقریب کے دوران(اے ایف پی)

افغانستان کے دارالحکومت کابل میں چھ اگست کو ایک خصوصی انٹرویو میں افغان عبوری حکومت کے مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد اپنی حکومت کی ایک سال کی کارکردگی سے متعلق کافی مطمئن نظر آئے۔

طالبان نے 15 اگست 2021 کو صوبہ پنج شیر کے علاوہ کابل سمیت پورے افغانستان پر کنٹرول حاصل کر لیا تھا۔

جس کے بعد ستمبر کی چھ تاریخ کو طالبان نے پنجشیر پر کنٹرول کا بھی اعلان کر دیا۔ طالبان کے افغانستان پر کنٹرول کا ایک سال پورا ہونے کے باوجود کسی ایک ملک کا طالبان حکومت کو تسلیم نہ کرنا بھی طالبان کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔

 31 جولائی کو کابل میں امریکی ڈرون حملے میں القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کی ہلاکت سے متعلق امریکی صدر جو بائیڈن کے بیان کے بعد طالبان حکومت کو بین الاقوامی رابطوں میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

 طالبان حکومت کے دفاع میں بولنے والے ممالک چین، روس، پاکستان، ازبکستان اور قطر سمیت کئی دیگر ممالک کی سرگرمیاں بھی ماند پڑ سکتی ہیں۔

 اگرچہ طالبان حکومت کے لیے اس وقت اندرونی مسائل کا حل بنیادی ترجیح ہے لیکن بین الاقوامی تعلقات کو کسی بھی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

ذبیح اللہ مجاہد سے طالبان حکومت تسلیم نہ کیے جانے سے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بظاہر تو کسی بھی ملک نے ان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا لیکن ’عَملاً اسلامی امارت کی حکومت تسلیم کر لی گئی ہے کیونکہ دنیا کے اکثر ممالک کے وزرا اور دیگر حکام افغانستان کا دورہ کرتے ہیں، افغان وزرا کو دوطرفہ دوروں کی دعوت دیتے ہیں اور افغان حکومتی عہدیداروں کو کانفرنسوں میں شرکت کی دعوت بھی دیتے ہیں۔‘

 طالبان ترجمان کا کہنا تھا 20 سال کے بعد پہلی مرتبہ طالبان حکومت نے اپنے وسائل سے نیا بجٹ تیار کیا ہے۔ جنگ کے دوران روازانہ تقریبا ً 100 افراد ہلاک ہوتے تھے لیکن اب ایسا نہیں کیونکہ اب امن قائم ہوچکا ہے۔

طالبان ترجمان نے امن کے قیام کی بات تو کی لیکن جب میں کابل میں ذبیح اللہ مجاہد کا انٹرویو لے رہا تھا تو کابل میں محرم الحرام کے لیے مجالس میں شریک افراد کو مسلسل دو مرتبہ نشانہ بنایا گیا جس میں ہلاکتیں بھی ہوئی۔ داعش نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ جنگ بند ہونے کے بعد تشدد میں کمی آئی ہے لیکن داعش کی کارروائیاں اور پنج شیر کے علاوہ شمالی صوبوں کے کئی علاقوں میں بھی طالبان کو مزاحمت کا سامنا ہے۔ اگرچہ طالبان ترجمان نے اپنے وسائل سے بجٹ بنانے کی بات تو کی ہے لیکن طالبان کا پہلا سال اقتصادی طور پر افغان عوام کے لیے ایک مشکل سال رہا ہے۔

 اگست کے پہلے ہفتے میں کابل کے کئی ریسٹورنٹس میں جانے کا موقع ملا تو وہاں لوگوں سے سنا کہ ریسٹورنٹس میں اب ماضی کی طرح رش نہیں ہوتا جس کی ایک وجہ لوگوں کے پاس پیسہ نہیں ہے کہ وہ گھر سے باہر کھانا برداشت کر سکیں۔ ان ریسٹورنٹس میں لوگوں کا اس طرح رش نہیں ہوتا جس طرح پہلے ہوا کرتا تھا۔ لوگوں کی قوت خرید میں بھی کمی دیکھی گئی ہے۔

 گذشتہ 20 سالوں میں افغانستان کی معیشت جنگی وسائل کی بنیاد پر تھی اور 2014 میں امریکہ اور سابق حکومت کے درمیان دوطرفہ سکیورٹی معاہدے کے بعد امریکہ افغانستان کو ہر سال تقریبا تین ارب ڈالر فراہم کرتا تھا۔ اب نہ صرف یہ سلسلہ رک گیا ہے بلکہ افغانستان کے تقریباً نو ارب ڈالر بھی منجمد کر دیے گئے ہیں۔

اگرچہ افغانستان میں سرکاری اور نجی یونیورسٹیاں اور چھٹی جماعت تک لڑکیوں کے سکولز کھلے ہیں تاہیم ایک سال ہونے کو ہے لیکن لڑکیوں کے سکولزکھولنے کا فیصلہ ابھی تک نہیں ہوسکا۔

کابل میں کئی اہلکاروں سے ملاقاتوں میں لڑکیوں کے ہائی سکولز کھولنے سے متعلق سوال کا کوئی واضح جواب نہیں ملا۔ تاہم وسائل کی کمی، لڑکیوں کے لیے خواتین اساتذہ، الگ عمارتوں کا نہ ہونا اور لڑکیوں کے لیے ٹرانسپورٹ کے ایک موثر نظام کی عدم موجودگی کو لڑکیوں کے ہائی سکولز نہ کھولنے کی وجوہات قرار دی گئیں ہیں۔

گو کہ طالبان کے حکومتی ترجمان میڈیا پر پابندی اور صحافیوں پر تشدد کے واقعات سے انکاری تھے لیکن افغان صحافیوں سے رابطوں میں معلوم ہوا کہ طالبان حکومت کا ایک سال صحافیوں اور صحافت کے لیے مشکل تھا۔ ملک سے جانے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ میڈیا میں کام کرنے والے تقریبا 80 فیصد صحافی افغانستان چھوڑ چکے ہیں۔

 باقی رہ جانے والوں میں سے بھی کئی جانے کا پروگرام بنا رہے ہیں کیونکہ ان کا موقف ہے کہ روزگار کے مواقع ختم ہوگئے ہیں۔ اگرچہ میڈیا پر قدغن کی باتیں بھی عام ہیں لیکن جون اوراگست میں افغانستان میں تین ہفتوں کے دوران ٹی وی چینلوں پر حالات حاضرہ کے پروگرامز اور رپورٹس سے اندازہ ہوا ہے کہ اب بھی طالبان کی پالیسیوں پر تنقید ہوتی رہتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مجھے طالبان حکومت بننے کے بعد پانچ مرتبہ افغانستان جانے کا اتفاق ہوا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ طالبان کے پاس وسائل کی شدید کمی ہے۔ اگست کے پہلے ہفتے میں کابل میں بچوں کے لیے قائم اندراگاندھی ہسپتال جانے کا موقع ملا تو معلوم ہوا کہ ہسپتال کو دوائیوں کی شدید کمی کا سامنا ہے۔

جنگ ختم ہونے کے بعد اب دور دراز سے بھی لوگ علاج کے لیے کابل آتے ہیں جس سے ہسپتالوں پر مزید دباؤ آیا ہے۔ ہسپتالوں کے کئی شعبوں میں پرانی مشینوں اور جنریٹرز کو تبدیل کرنے کے لیے وسائل نہیں ہیں۔

 جنگ پر اربوں ڈالرز خرچ کرنے والوں کے لیے ایک چیلنج ہے کہ وہ افغان عوام کو کس طرح جنگ کی تباہ کاریوں سے بچاتے ہیں؟

ایک سال کی حکومت کے دوران انسانی اور خواتین کے حقوق کے حوالے سے طالبان پر تنقید ہوتی رہی ہے لیکن طالبان کا کہنا ہے کہ اسلام میں عورتوں کے حقوق کے عین مطابق خواتین کو تمام حقوق حاصل ہیں۔

جولائی میں کابل میں ہونے والے علما کانفرنس میں کابل صوبے سے علما کی نمائندگی کرنے والے شیخ الحدیث فقیر اللہ فائق نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتیا کہ ’کمائی کی ڈیوٹی مرد کی ہے، خاتون کی نہیں اور اگر خاتون اپنی مرضی سے نوکری کرنا چاہے تو پردے میں رہتے ہوئے کر سکتی ہے۔‘

ویسے تو دنیا اور امریکہ کے ساتھ تعلقات طالبان حکومت کے لیے اہم ہیں اور دونوں باقاعدہ مذاکرت بھی کرتے رہتے ہیں لیکن 31 جولائی کو کابل میں امریکی ڈرون حملے میں القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری ہلاکت سے متعلق امریکی صدر جو بائیڈن کے بیان کے بعد افغانستان میں طالبان کی حکومت کے لیے ایک مشکل صورت حال اور امریکہ کے ساتھ تعلقات میں ایک تناؤ پیدا ہوگیا ہے۔

دونوں نے ایک دوسرے پر دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی کے الزامات لگائے ہیں۔ یہ ڈرون حملہ ایسے وقت ہوا ہے جب طالبان کے وزرا اپنی حکومت کی ایک سال کی کارکردگی سے متعلق روزانہ پریس کانفرنس کرتے رہے ہیں۔

 طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے تو پالیسی بیان میں کہا کہ ’امارت اسلامیہ افغانستان کو ڈاکٹر ایمن الظواہری کی آمد اور ان کے یہاں قیام سے متعلق کوئی معلومات نہیں ہیں۔‘

طالبان نے اس بیان سے افغان عوام، اپنے رہنما اور دنیا کو مطمئن کرنے کی کوشش تو کی ہے لیکن دنیا کے لیے طالبان کے موقف کو تسلیم کرنا مشکل ہوگا۔

 البتہ اب یہ دیکھنا ہے کہ طالبان حکومت نے تحقیقات کا جو وعدہ کیا ہے وہ کب مکمل ہوگا اور کیا ان تحقیقات کے نتائج کا اعلان کیا جاتا ہے یا نہیں؟

امریکی ڈرون حملے سے چند دن پہلے طالبان حکومت کے وزیر خارجہ امیر خان متقی ازبکستان کے دارلحکومت تاشقند میں ایک بین الاقوامی کانفرنس سے واپسی پر کانفرنس کے نتائج پر بہت خوش تھے لیکن ڈرون حملے نے حالات کو مکمل تبدیل کر دیا ہے۔

 اب دیکھنا ہے کہ طالبان ان مشکل حالات سے کیسے نکلتے ہیں، یہ ناممکن تو نہیں لیکن بہت مشکل ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر