جنھوں نے ورلڈ کپ کھیلنا بھی نہیں تھا وہ سپر اوور کھیلے

پاکستان کے  ورلڈ کپ سے باہر ہونے پر روایتی مایوسی اور غصے کا اظہار کم دیکھنے کو ملا اور تقریباً سب نے ہی فائنل کو انجوائے کیا۔

جوفرا آرچر۔ (اے ایف پی)

کرکٹ کے عالمی مقابلوں کا اختتام آخرکار انگلینڈ کی جیت پر ہو ہی گیا اور دنیا کو کرکٹ سکھانے والا ملک پہلی مرتبہ خود عالمی کپ جیتنا سیکھ ہی گیا۔

ورلڈ کپ سے قبل ہی بہت سوں کی خواہش تھی کہ اس مرتبہ انگلینڈ کو جیتنا چاہیے اور جب نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کی ٹیمیں فائنل میں پہنچی تو یہ بھی کہا جانا لگا کہ ’شکر ہے اس بار کوئی تو پہلی مرتبہ جیتے گا۔‘

انگلینڈ ورلڈ کپ شروع ہونے سے پہلے ہی ’فیورٹ‘ ٹیم تھی اور جب فائنل میں ایک سنسنی خیز مقابلے کے بعد انگلینڈ نے نیوزی لینڈ کی ٹیم کو شکست دی تو کم از کم مجھے تو بہت سے لوگوں کے میسجز آئے کہ ’دیکھا کہا تھا نہ کہ انگلینڈ جیتے گا۔‘ ان میں سے زیادہ تر میسجز ان لوگوں کے تھے جن خواہشات اور ٹیمیں ورلڈ کے دوران مسلسل تبدیل ہو رہی تھیں۔

خیر اچھی بات یہ ہے کہ اس مرتبہ پاکستان کے  ورلڈ کپ سے باہر ہونے پر روایتی مایوسی اور غصے کا اظہار کم دیکھنے کو ملا اور تقریباً سب نے ہی فائنل کو انجوائے کیا۔

اگر میں اپنی بات کروں تو میں نے فائنل کے سپر اوور کو دو کھلاڑیوں کی وجہ سے انجوائے کیا، یہ وہ دو کھلاڑی تھے جنھوں نے شاید ورلڈ کپ کھیلنا ہی نہیں تھا اور شاید ان دونوں ہی نے یہ نہیں سوچا ہوگا کہ ان کی وجہ سے ان کی ٹیمیں ٹرافی کے قریب پہنچ جائیں گی۔

جی میں انگلینڈ کے جوفرا آرچر اور نیوزی لینڈ کے جمی نیشم کی بات کر رہا ہوں۔ جمی نیشم اپنی ٹیم کو تقریباً ورلڈ کپ جتوا ہی چکے تھے لیکن آخری لمحے پر جوفرا آرچر نے انھیں ایسا کرنے سے روک دیا۔

جوفرا آرچر جنھیں ابتدائی طور پر انگلینڈ کے ورلڈ کپ سکواڈ میں شامل ہی نہیں کیا گیا تھا۔ ان کی سیلیکشن کو لے کر ایک طویل عرصے تک بحث ہوتی رہی تھی۔ کچھ کا کہنا تھا کہ وہ چونکہ ابھی نوجوان ہیں اور زیادہ تر ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کھیلے ہیں تو انھیں سکواڈ میں شامل کرنا صحیح نہیں ہوگا۔

جبکہ بعض کا کہنا تھا کہ ان کے پاس پیس ہے، ورائٹی ہے تو وہ انگلینڈ کے لیے کارآمد ثابت ہو سکتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسی دوران ان کی پاکستان اور آئرلینڈ کے خلاف عمدہ کارکردگی رنگ لے آئی اور انھیں سکواڈ میں شامل کر لیا گیا۔ ایک طرف تو ان کی سکواڈ میں جگہ نہیں بن رہی تھی اور دوسری طرف وہ ورلڈ کپ کے فائنل کا سب سے مشکل اوور یعنی سپر کروا رہے تھے۔

دوسری جانب جمی نیشم جو ورلڈ کپ سے قبل اپنی بری فارم اور ٹیم میں جگہ نہ بننے کے باعث کرکٹ کو خیرباد کہنے کا سوچ رہے تھے۔ چیمپیئنز ٹرافی میں بری پرفارمنس کے بعد انٹرنیشنل کرکٹ تو کیا جمی نیشم کو ڈومیسٹک ٹیم میں بھی نہیں کھیلایا جا رہا تھا۔

 

لیکن پھر قسمت نے پلٹا کھایا اور جمی نیشم نے نہ صرف ورلڈ کپ کھیلا بلکہ ٹیم کو ’آل موسٹ‘ جتوا بھی دیا تھا۔

اچانک ورلڈ کپ کے لیے ٹیم میں سیلیکٹ ہونے پر جمی نیشم نے کہا تھا کہ یہ ان کے لیے ’بالکل غیر حقیقی‘ ہے۔

یہی نہیں جب وہ فائنل میں سپر اوور کھیلنے کے لیے آئے تو انھوں نے ابتدائی پانچ گیندوں پر ہی میچ ختم کر چکے تھے۔

جمی نیشم نے پہلے تو عمدہ بولنگ کرتے ہوئے تین وکٹیں حاصل کیں اور پھر جب وہ  جوفرا آرچر کی جانب سے کروائے جانے والا سپر اوور کھیلنے آئے تو پہلی گیند پر تین رنز (وائڈ شامل ہے) بنا ڈالے، اگلی گیند پر انھوں نے چھکا لگا کر میچ اپنے ہاتھ میں کر لیا تھا۔

اسی طرح ابتدائی پانچ گیندوں پر 14 رنز بنانے کے بعد جب مارٹن گپٹل کی باری آئی تو وہ ایک گیند پر دو رنز نہ بنا سکے۔

جس طرح اس ورلڈ کپ کے فائنل میں یہ دونوں کھلاڑی آخری گیند سے قبل برابری پر کھڑے تھے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کرکٹ ’بڑے ناموں‘ کا کھیل نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی کھیل