’انڈین جاسوس‘ قرار دیے جانے والے نوجوانوں کی مظفرآباد میں رہنے کی درخواست

'جاسوسی' کے الزام میں گرفتار انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے دو نوجوان دو سالوں سے گلگت پولیس کی حراست میں ہیں، رواں سال اپریل میں عدالت نے انہیں انڈیا واپس بھیجنے کا فیصلہ سنایا تھا۔ تاہم نوجوان ’جان کو خطرے‘ کے پیش نظر واپس جانے کو تیار نہیں۔

نور محمد وانی اور فیروز احمد لون نامی نوجوانوں کا تعلق انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع بانڈی پورا کے علاقے گریز سے ہے اور ان کی عمریں 22 سے 25 سال کے درمیان ہیں اور وہ دونوں طالب علم ہیں(تصویر: ندیم خان)

گلگت بلتستان کی سینٹرل جیل میں دو سال سے ’جاسوسی‘ کے الزم میں قید دو کشمیری نوجوانوں نے انڈیا واپس بھیجے جانے کی بجائے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں ’پناہ‘ کی اپیل کی ہے۔

نور محمد وانی اور فیروز احمد لون جون 2020 میں ’غلطی‘ سے لائن آف کنٹرول عبور کر کے استور کے راستے گلگت پہنچ گئے تھے-

دونوں کا تعلق انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع بانڈی پورا کے علاقے گریز سے ہے۔ ان کی عمریں 22 سے 25 سال کے درمیان ہیں اور دونوں طالب علم ہیں۔

گلگت بلتستان پولیس کے مطابق دونوں کشمیری اور شینا زبانیں بولنا جانتے ہیں۔

ان نوجوانوں سے متعلق جون 2020 میں گلگت بلتستان پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ دو ’انڈین جاسوس‘ گرفتار کیے گئے ہیں اور ساتھ ہی ان کے اعترافی بیان پر مبنی ایک ویڈیو میڈیا پر ریلیز ہوئی۔

ویڈیو میں نوجوانوں کو کہتے سنا جا سکتا ہے کہ وہ انڈین فوج اور خفیہ ایجنسی را کے لیے ’جاسوسی‘ کی نیت سے گلگت بلتستان میں داخل ہوئے۔

عدالت میں کشمیری نوجوانوں کے وکیل دفاع ظفر اقبال ایڈوکیٹ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 40 انڈین روپے، ایک موبائل فون اور گورنمنٹ ہائی سکول گریز کے ایک سٹوڈنٹ کارڈ کے علاوہ پولیس ایسے کوئی شواہد پیش نہیں کر سکی جن سے نوجوانوں کے جاسوسی میں ملوث ہونے کی تصدیق ہو سکے۔

جاسوسی کا الزام ثابت نہ ہونے پر اپریل 2022 میں گلگت کی سیشن کورٹ نے انہیں ’غیر قانونی طور پر سرحد عبور کرنے‘ کا مجرم قرار دیتے ہوئے دو سالہ قید کو سزا تسلیم کیا اور واہگہ بارڈر کے راستے واپس انڈیا کے حوالے کرنے کا حکم دیا۔

تاہم نوجوانوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ گرفتاری کے وقت گلگت پولیس کی جانب سے ان سے ’جبراً‘ دلوائے گئے بیان کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد انڈیا میں ان کی جان محفوظ نہیں۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے نام ایک خط میں انہوں نے اپیل کی ہے کہ انہیں واپس انڈیا کے حوالے کرنے کی بجائے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں کشمیری مہاجرین کے کسی کیمپ میں ’پناہ‘ دی جائے۔

 گلگت بلتستان میں ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان کے کوآرڈینیٹر اسرا احمد نے ٹیلی فون پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہوں نے یہ درخواست پاکستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے حکام اور دیگر متعلقہ اداروں تک پہنچا دی ہے تاہم ابھی تک کہیں سے کوئی جواب نہیں آیا۔

آئی جی جیل خانہ جات گلگت بلتستان نے ایک مراسلے میں ’سزا یافتہ‘ کشمیری نوجوانوں کو سینٹرل جیل گلگت سے کوٹ لکھپت جیل لاہور منتقل کرنے انتظامات کی ہدایت کر رکھی ہے اور ہیومین رائٹس کمیشن اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے سابق وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر نے نوجوانوں کے انڈیا واپس بھیجنے کے فیصلے کو ان کی جانیں خطرے میں ڈالنے کے مترادف قرار دیا۔

ایک بیان میں راجہ فاروق حیدر کا کہنا تھا کہ ’(منقسم) ریاست کے ایک حصے سے دوسرے حصے میں آنے والوں نے جرم نہیں کیا۔

’وہاں مظالم سے تنگ آکر یہاں نوے کی دہائی سے لیکر اب تک 50 ہزار کے قریب مہاجرین آئے۔ انہیں یہاں کسی اجنبیت کا سامنا نہیں۔ وہ ریاست کے باشندے ہیں۔

’گلگت بلتستان بھی ریاست جموں کشمیر کا حصہ ہے۔ وہاں سے ان کی بیدخلی اور عدالتی حکم کے تحت انڈیا کو واپسی کسی صورت قبول نہیں۔‘

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے محکمہ داخلہ اور کشمیر مہاجرین کی دیکھ بھال کرنے والے محکمہ بحالیات نے متعدد کوششوں کے باجود اس معاملے پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا