پانی کی نکاسی کے لیے ایل بی او ڈی میں شگاف پر تنازع

سندھ کے بالائی اضلاع سے سیلابی پانی کی نکاسی کے لیے لیفٹ بینک آؤٹ فال ڈرین میں شگاف ڈالنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے تاہم بدین کے رہائشی اس پر رضامند نہیں۔

بدین میں ایل بی او ڈی پر مقامی افراد بالائی علاقوں سے آتے پانی میں کشتی چلا رہے ہیں (تصویر: امر گُرڑو)

گرج دار آواز سے بہتی ایک بڑی نہر کے بندوں پر کچھ لوگ پلاسٹک کی بوریوں میں ریت بھر کر پشتوں کو مضبوط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ دو ٹریکٹر دور سے خشک مٹی لاکر ایک جگہ پر جمع کر رہے ہیں۔

نہر کے دوسرے کنارے پر ایک پرجوش مجمع کھڑا ہے، جس میں کچھ نوجوان ’سندھی قومی گیت‘ گا رہے ہیں اور نعرے لگا رہے ہیں کہ کسی بھی صورت نہر میں شگاف ڈالنے نہیں دیا جائے گا۔  

یہ مناظر ’پاکستان کے سب سے بڑے نکاسی آب کے منصوبے‘ لیفٹ بینک آؤٹ فال ڈرین یا ایل بی او ڈی پر ضلع بدین میں واقع زیرو پوائنٹ کے ہیں جس کا دورہ اس نمائندے نے اگست کے اختتام پر کیا اور جہاں شگاف ڈالنے پر ہمسایہ اضلاع کے رہائشیوں میں اتقاق نہیں ہو پا رہا۔

مجمعے میں شامل فدا حسین نوہڑیو نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ضلع بدین کے بالائی اضلاع، خاص طور پر میرپورخاص، میں لوگ چاہتے ہیں کہ ایل بی او ڈی پر زیرو پوائنٹ کے مقام پر شگاف یا کٹ لگایا جائے تاکہ وہاں جمع سیلاب کا پانی تیزی سے نکل کر سمندر میں چلا جائے۔ 

جماعت اسلامی کے مقامی رہنما سلیم جونیجو نے بھی بتایا کہ میرپور خاص میں عوامی نمائندے ایل بی ڈی او میں شگاف کے خواہاں ہیں۔ تاہم سلیم کے مطابق ایسا کرنے سے بدین کو بہت نقصان پہنچے گا۔

انہوں نے  انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’اگر اس جگہ پر کٹ لگا تو پانی تیزی سے سمندر میں جانے کے بجائے ضلع بدین اور تھرپارکر کی یونین کونسل کلوئی کو ڈبو دے گا۔ اس پانی سے لاکھوں انسان، لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں، اور آٹھ سے 10 لاکھ مویشی شدید متاثر ہوں گے۔‘

ایل بی او ڈی ہے کیا؟

سندھ حکومت کے سرکاری ریکارڈ کے مطابق ایل بی او ڈی کا منصوبہ 1986 میں شروع کیا گیا تھا، جس کی مالیت اس وقت 31 ارب پاکستانی روپے رکھی گئی تھی۔

یہ تقریباً 400 کلومیٹر لمبی نہر نما ڈرین گھوٹکی میں شروع ہوتی ہے اور بدین میں جا کر سمندر میں گرتی ہے۔

اس منصوبے کے لیے مالی معاونت عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک نے فراہم کی جبکہ واٹر اینڈ پاور اتھارٹی یعنی واپڈا نے اس منصوبے کو مکمل کیا۔  

ایل بی او ڈی مبصوبہ نواب شاہ، سانگھڑ اور میرپور خاص میں رزعی فضلے کے باعث پیدا ہونے والی سیم و تھور کو ختم کرنے کے لیے بنایا گیا تھا تاکہ وہاں سے ٹیوب ویل کی مدد سے سیم کے پانی کو نکال کر اس نہر نما منصوبے میں ڈالا جائے جو اس کے پانی کو سمندر تک لے جائے۔ 

 تاہم 1980 کی دہائی کے آخر اور 1990 کی دہائی کے آغاز میں ضلع بدین میں ایل بی او ڈی منصوبے کے خلاف ایک تحریک شروع ہوئی جس میں شامل افراد کا کہنا تھا کہ یہ نہر بدین کو مکمل طور پر تباہ کر دے گی۔  

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک بی او ڈی مخالف تحریک میں شامل رہنے والے سماجی رہنما مصطفیٰ تالپور نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’یہ منصوبہ صرف زرعی فضلہ لے جانے کے لیے بنایا گیا تھا اور اس کی گنجائش چار ہزار کیوسک رکھی گئی تھی۔ یہ بارش یا سیلاب کا پانی لے جانے کے لیے نہیں بنا تھا۔‘

انہوں نے بتایا کہ ایل بی او ڈی منصوبے کے تحت بالائی اضلاع کی زرعی زمینوں سے چھوٹی چھوٹی نہریں نکال کر مرکزی نہر یا سپائینل ڈرین میں شامل کی گئیں اور سپائینل ڈرین زیرو پوائنٹ تک لاکر اس کو شاہ سمندھو کریک میں بنائے گئے 42 کلومیٹر طویل ٹائیڈل لنک کے ساتھ جوڑا گیا، جو بحیرہ عرب میں گرتا ہے۔

مصطفیٰ تالپور نے بتایا کہ بارشوں میں اضافہ ہوا تو بالائی اضلاع میں لوگوں نے ڈوبنے سے بچنے کے لیے سیلاب کا پانی بھی اس منصوبے میں بہانا شروع کر دیا، اور یہ ڈرین اپنے مقررہ چار ہزار کیوسک کی بجائے مون سون میں 1200 کیوسک تک پانی سمندر لے جانے لگی۔

ان کا کہنا تھا: ’اس لیے پانی مکمل طور پر سمندر میں دیر سے جاتا ہے اور اس لیے بالائی اضلاع میں سیلاب والی صورت حال رہتی ہے۔‘  

مصطفیٰ تالپور کے مطابق اگر ٹائیڈل لنک کو ڈی لنک کرکے پرانے زیرو پوائنٹ پر پانی کو چھوڑ دیا جائے تو پانی رن آف کچھ کی طرف چلا جائے گا، جہاں سے پانی کا قدرتی بہاؤ ہے اور انسانی آبادی بھی نہیں تو نقصان نہیں ہوگا۔

سیلابی صورت حال  

بدین کے بالائی ضلع میرپور خاص کی تحصیل جھڈو میں دو فٹ تک سیلابی پانی جمع تھا۔ ہمارے دورے پر ہم نے کچھ مشتعل افراد کو بھی دیکھا جو ٹنڈو جان محمد کے باہر مرکزی شاہراہ کو بلاک کرکے پانی کی نکاسی کا مطالبہ کر رہے تھے۔  

ضلع میرپور خاص کی تحصیل ڈگری سے کچھ فاصلے پر واقع بدین کی تحصیل ٹنڈو باگو کا حیات خاصخیلی شہر مکمل طور پر ڈوبا ہوا نظر آیا۔ ڈرون کیمرا سے دیکھنے پر ایسا لگا جیسے ایک بڑی جھیل کے اندر کچھ مکانات اور گھر بنے ہوئے ہیں۔ ڈوبے ہوئے شہر سے کچھ افراد بچا ہوا سامان نکالتے بھی نظر آئے۔  

یہاں مقیم محمد رمضان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پُران ڈھورو نامی نہر پانی کے بہاؤ کا قدرتی راستہ تھا مگر اس میں سیمنٹ کی دیوار بنا کر پانی کو روک دیا گیا ہے، اور ایل بی او ڈی سے پانی بہت آہستہ سمندر کو جا رہا ہے، تو اس لیے یہ بالائی شہر ڈوبے ہوئے ہیں۔ 

’کٹ سے لاکھوں لوگوں کو بچایا جا سکتا ہے‘

میرپور خاص سے منتخب پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی میر منور تالپور نے چند روز قبل مقامی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ زیرو پوائنٹ پر ایل بی او ڈی کو کٹ لگا کر میرپور خاص، عمرکوٹ اور سانگھڑ سمیت چار اضلاع کے لاکھوں لوگوں کو ڈوبنے سے بچایا جاسکتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا: ’زیرو پوائنٹ پر کٹ نہ لگانے سے صرف میرپور خاص کے 20 لاکھ سے زائد لوگ شدید متاثر ہوئے ہیں۔ زیرو پوائنٹ پر چند ہزار والی انسانی آبادی کو بچانے کے لیے لاکھوں لوگوں کو داؤ پر لگا دیا گیا ہے۔‘

آن کیمرا بیان میں انہوں نے الزام عائد کیا تھا کہ رکن سندھ ارباب لطف اللہ اپنے چند قریبی زمینداروں کی زمین کو بچانے کے لیے زیرو پوائنٹ پر کٹ لگانے کی مخالفت کر رہے ہیں۔

میر منور نے دعویٰ کیا کہ بدین سے بالائی ان اضلاع کے سیلاب کا پانی کی نکاسی والی جگہ زیرو پوائنٹ پر موجود سرکاری زمینوں پر قبضے کیے گئے ہیں اور اس لیے پانی کے قدرتی بہاؤ پر موجود زمینوں سے قبضے چڑھا کر پانی کے بہاؤ کو بحال کیا جائے۔

ان کے الزامات کو رد کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے تھرکار ضلع سے منتخب رکن سندھ اسمبلی ارباب لطف اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا: ’زیرو پوائنٹ پر کٹ لگانے سے ڈیڑھ لاکھ انسانی آبادی متاثر ہوگی۔

’اوپر کے اضلاع کے لوگ چاہتے ہیں کے ان کے علاقوں سے پانی جلد از جلد نکاس ہوجائے۔ سیلاب کا پانی سمندر جانے کے لیے یہ واحد راستہ ہے۔ لوگوں کو ڈبونے کے بجائے اگر کچھ دن صبر کرلیا جائے تو پانی آرام سے سمندر چلا جائے گا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان