خیبر پختونخوا: سیلاب متاثرہ شخص کی تنخواہ سے ہی فنڈ کی کٹوتی

خیبر پختونخوا حکومت نے سیلاب زدگان کی امداد کے لیے صوبائی ملازمین کی تنخواہوں سے کٹوتی کا اعلان کیا ہے جس پر ملازمین تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔

29 اگست 2022 کی اس تصویر میں خیبرپختونخوا کے شہر چارسدہ میں سیلاب سے متاثر ہونے والے ایک خاندان کو ٹینٹ میں رہائش پذیر دیکھا جا سکتا ہے(اےا یف پی)

’میں خود ٹینٹ میں رہائش پذیر ہوں۔ گھر سیلاب میں بہہ گیا ہے لیکن حکومت اب میری تنخواہ سے بھی سیلاب متاثرین کے لیے چندے کی کٹوتی کر رہی ہے جو سمجھ سے بالاتر ہے۔‘

یہ کہنا ہے محکمہ انفارمیشن میں بطور ڈرائیور کام کرنے والے خان کا جنہوں نے تادیبی کارروائی کے ڈر سے پورا نام نہ لکھنے کی درخواست کی ہے کہ خیبر پختونخوا میں حالیہ سیلاب کی وجہ سے ان کا گھر بھی متاثر ہوا ہے۔

خان کا تعلق ضلع کرک سے ہے اور وہ تین کمروں کے کچے مکان میں پانچ بچوں کے ساتھ رہائش پذیر ہیں لیکن حالیہ سیلاب میں ان کا گھر منہدم ہونے کی وجہ سے انہیں ٹینٹ میں رہنا پڑ رہا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ’سیلاب کے دن میں ایمرجنسی ڈیوٹی پر تھا کہ مجھے گھر سے کال آئی کہ پانی گھر کے اندر داخل ہوگیا اور گھر گرنے کا خطرہ ہے۔ میں اپنے آفسر سے چھٹی لے کر گھر چلا گیا جہاں مجھے معلوم ہوا کہ سیلاب سے میرے گھر کے کمرے اور دیوار متاثر ہوئی ہے۔‘

ان کے مطابق ’میرے گھر کے تین کمروں میں سے دو کمرے تقریباً مکمل تباہ جبکہ ایک کمرہ گرنے کی قریب ہے اور اسی وجہ سے اب گھر کے احاطے میں ایک ٹینٹ لگا رکھا ہے ہے کیوں کہ اس کمرے میں رہنا کسی خطرے سے خالی نہیں۔‘

خان نے مزید بتایا کہ ’میری تنخواہ 28 ہزار ہے جس سے گھر کا خرچہ چلانا آج کل کی شدید مہنگائی میں بہت مشکل ہے۔ لیکن حکومت نے اب سیلاب زدگان کے لیے دو دن کی تنخواہ کی کٹوتی کا فیصلہ کیا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ حکومت نے غلط اقدام اٹھایا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ میں خود متاثرین میں شامل ہوں اور حکومت میری مدد کے بجائے میری ہی تنخواہ سے کٹوتی کر رہی ہے۔ ‘

خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ سکیل تین سے  سکیل 16 تک کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں سے دو دن کی تنخواہ جبکہ اس سے اوپر کے ملازمین سے پانچ دن کی تنخواہ کی کٹوتی کی جائے گی جو سیلاب زدگان فنڈ میں جمع  کروائی جائے گی۔

اسی حوالے سے صوبائی محکمہ خزانہ کی جانب سے ایک نوٹیفیکیشن بھی جاری کیا گیا ہے۔ نوٹیفیکیشن کے مطابق وزرا اور اراکین اسمبلی کی جانب سے ایک مہینے کی تنخواہ سیلاب زدگان فنڈ میں جمع کروائی جائے گی۔

تاہم خان نے بتایا کہ حکومت نے یہ فیصلہ کرنے سے پہلے ہم سے پوچھا ہی نہیں ہے اور نہ ہی اس بات کا خیال رکھا کہ جو اضلاع سیلاب سے متاثرہ ہیں وہاں کے ملازمین سے یہ کٹوتی نہ کی جائے۔

ان کے مطابق ’ابھی تک دو ہفتے سے زیادہ گزر گئے لیکن حکومت کی کوئی امداد ان کو نہیں ملی جس سے وہ مکان کے متاثرہ کمرے دوبارہ تعمیر کر سکیں کیونکہ ٹینٹ میں فیملی کے ساتھ رہنا بہت مشکل ہے۔ جبکہ دوسری طرف سکیورٹی کا مسئلہ بھی ہوتا ہے کہ کھلے آسمان تلے ٹینٹ میں سوتے ہیں۔‘

خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے ملازمین سے یہ کٹوتی متعلقہ دفاتر کریں گے اور یہ رقم صوبائی فلڈ ریلیف فنڈ میں جمع کرائی جائے گی۔

اسی حوالے سے جاری نوٹیفیکیشن میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ ’تنخواہوں سے کٹوتی ستمبر کے مہینے کی تنخواہ میں کی جائے گی لیکن اگر کسی وجہ سے دفاتر رواں ماہ کٹوتی نہیں کرتے تو پھر یہ کٹوتی اکتوبر میں کی جائے گی۔‘

نوٹیفکیشن کے مطابق ’یہ احکامات مستقل اورعارضی ملازمین سمیت تمام پراجیکٹ اور کنسلٹنٹس پر بھی لاگو ہوں گے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نجمہ بیگم (فرضی نام) ضلع پشاور کے ایک سرکاری محکمے کی ملازمہ ہیں جن کی تنخواہ 50 ہزار سے اوپر ہے لیکن ان کو حکومت کے اس رویے پر اعتراض ہے کہ ملازمین سے پوچھے بغیر حکومت ایسا کوئی اقدام نہیں اٹھا سکتی۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’میری پانچ دن کی تنخواہ سیلاب زدگان کے لیے قربان ہے اور میں چاہتی ہوں اس سے زیادہ دے دوں تاہم حکومت کو کم از کم یہ آمرانہ سوچ کی طرح کے فیصلے نہیں کرنے چاہیے بلکہ ایسے فیصلے مشاورت سے کرنے چاہییں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’مجھے اس پر بھی اعتراض ہے کہ حکومت نے کلاس فور ملازمین کی تنخواہوں سے بھی کٹوتی کا فیصلہ کیا ہے جن کی تنخواہ ہی اتنی ہوتی ہے کہ وہ گھر کا خرچہ مشکل سے برداشت کرتے ہیں۔‘

نجمہ کا کہنا ہے کہ ’حکومت کو چاہیے تھا کہ بالائی سکیل کے ملازمین کی تنخواہوں سے زیادہ دن کی کٹوتی کرتی لیکن وہ بھی مشاورت سے اور کم سکیل کے ملازمین سے ان کی مرضی کے بغیر ایک روپیہ بھی نہیں کاٹنا چاہیے تھا۔‘

حکومت کے اس فیصلے پر صوبائی اٹیچڈ ڈیپارٹمنٹ ایسوسی ایشن نے بھی تشویش کا اظہار کیا ہے اور حکومت کے اس فیصلے کو آمرانہ رویہ قرار دیا ہے۔

اسی حوالے سے ایسوسی ایشن کے صدر امین خان نے بتایا کہ ’حکومت نے تمام ملازمین سے برابر کی کٹوتی کا فیصلہ کیا ہے جبکہ مختلف شعبہ جات اور ان میں کام کرنے والے ملازمین کی تنخواہوں میں فرق ہوتا ہے۔‘

امین خان نےبتایا کہ ’پہلی بات تو یہ ہے کہ حکومت کو یہ فیصلہ کرنے سے پہلے ملازمین سے مشاورت کرنی چاہیے تھی اور اس کے بعد تنخواہ کو دیکھ کر اسی کے مطابق کٹوتی کرنی چاہیے تھی لیکن حکومت نے ایسا نہیں کیا ہے جو قابل مذمت ہے۔‘

اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے صوبائی وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا رابطہ  کر کے ان کا موقف جاننے کی کوشش کی لیکن ان کی طرف سے اس رپورٹ کے شائع ہونے تک کوئی موقف موصول نہیں ہوا۔

ان کی طرف سے موقف ملنے پر اسے اس رپورٹ میں شامل کر دیا جائے گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان