فیصل آباد: ڈینگی کنٹرول کے لیے ڈرون اور مچھلیوں کا استعمال

فیصل آباد کی انتظامیہ ڈینگی کا پھیلاؤ روکنے کے لیے آبی ذخائر میں مچھروں کے لاروا کھانے والی مچھلیاں چھوڑنے کے ساتھ ساتھ ڈرون کے ذریعے سرکاری عمارتوں کی چھتوں کی نگرانی کر رہی ہے۔

فیصل آباد میں مچھلیاں لائل پور پارک، جھال پرواسا کے واٹر ورکس اور دیگر تحصیلوں کے مختلف مقامات پر آبی ذخیروں میں چھوڑی جاتی ہیں (سکرین گریب)

پاکستان بھر میں سیلاب کے بعد ڈینگی کے پھیلاؤ میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور حکومتی سطح پر اس وبا پر قابو پانے کے لیے مختلف اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

تاہم فیصل آباد کی انتظامیہ اس وبائی مرض کا پھیلاؤ روکنے کے لیے عام ڈگر سے ہٹ کر کچھ نئے اقدامات کر رہی ہے، جن میں ڈینگی سرویلنس کے لیے ڈرون کیمروں اور صاف پانی کے ذخائر میں پرورش پانے والے لاروا کو کھانے والی تلاپیہ مچھلیوں کا استعمال شامل ہے۔

تلاپیہ ایک چھوٹی مچھلی ہے جسے قدیم مصر میں ’دوسرے جنم‘ کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ دور جدید میں سائنس دان ڈینگی اور ملیریا جیسی بیماریاں پیھلانے والے مچھروں کے خلاف اس مچھلی کے استعمال پر کام کر رہے ہیں۔ 

فیصل آباد میں ڈسٹرکٹ پروگرام کوارڈینیٹر برائے وبائی امراض ڈاکٹر محمد ذوالقرنین کے مطابق اگر کہیں سے ڈینگی لاروا ملتا ہے تو وہاں بیماری کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے تین طریقہ کار اپنائے جاتے ہیں۔

اگر پانی پرندوں کے برتنوں سے ملے تو اسے گرا دیا جاتا ہے، اگر گھروں میں ایئرکولر یا ٹائروں میں ملے تو اسے تلف کروا دیا جاتا ہے، جو میکنیکل کنٹرول کہلاتا ہے۔ 

ڈاکٹر محمد ذوالقرنین کے مطابق دوسرا طریقہ کیمیکل کنٹرول ہوتا ہے جو ایسے تالابوں میں استعمال کیا جاتا ہے جن کا سارا پانی ضائع نہیں کیا جا سکتا اور جہاں کیمیکل کے استعمال سے لاروا کو ختم کیا جاتا ہے۔  

انہوں نے بتایا کہ ڈینگی کنٹرول کا تیسرا طریقہ بائیولوجیکل ہے جس میں تلاپیہ مچھلیوں کو پانی میں چھوڑا جاتا ہے۔ یہ طریقہ ایسے آبی ذخائر کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جہاں کا پانی انسانی استعمال میں آتا ہے۔

ان کا کہنا تھا: ’محکمہ ماہی پروری والے پانی کا پی ایچ (تیزابیت یا کڑواہٹ کی سطح) چیک کرتے ہیں، اس کی کامیابی کے امکانات کا جائزہ لیتے ہیں اور پھر وہاں پر تلاپیہ اور گراس کارپ مچھلیاں چھوڑی جاتی ہیں جس سے بائیولوجیکلی ہمارا ڈینگی لاروا کنٹرول ہوتا ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ فیصل آباد شہر میں یہ مچھلیاں لائل پور پارک، جھال پرواسا کے واٹر ورکس اور دیگر تحصیلوں کے مختلف مقامات پر آبی ذخیروں میں چھوڑی جاتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا: ’پانی میں مچھلیاں چھوڑنے کا کام محکمہ ماہی پروری کرتا ہے۔ اس کے لیے وہ تمام پوائنٹس کا پہلے سروے کرتے ہیں، اس کا پی ایچ چیک کرتے ہیں اور جائزہ لیتے ہیں کہ یہاں پر مچھلیاں زندہ رہ سکیں گی یا نہیں۔‘

اس کے بعد وہ مچھلیوں کا انتظام کرتے ہیں اور وہاں پر مچھلیاں چھوڑنے کے بعد وہ ان کی مکمل دیکھ بھال بھی کرتے ہیں۔

انہوں نے بتایا: ’وہاں پر جو مچھلیاں ذخیرہ کی جاتی ہیں ان کا شکار کرنے کے لیے مچھلی کا شکار کرنے کے شوقین حضرات کو یومیہ بنیادوں پر مچھلیاں پکڑنے کے اجازت نامے بھی جاری  کیے جاتے ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ اس طرح نہ صرف ان مقامات پر مچھلیوں کی افزائش ہوتی ہے بلکہ انہیں پکڑ کر کھانے کے لیے استعمال بھی کیا جا سکتا ہے۔

ڈینگی سرویلنس کے لیے ڈرون کیمرے استعمال کرنے سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ بنیادی طور پر یہ آئیڈیا ڈپٹی کمشنر عمران حامد شیخ کا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’انہوں نے اس حوالے سے کام کیا اور پھر ہمیں یہ کہا کہ اس طرح سے کام کریں۔ اس کا سارا کریڈٹ ان کو جاتا ہے کیونکہ یہ ان کا انیشٹیو تھا اور پنجاب میں فیصل آباد پہلا ضلع ہے جہاں اس طرح سے کام کیا گیا۔‘

ڈاکٹر ذوالقرنین کے مطابق ڈرون کیمروں کے ذریعے سرکاری عمارتوں کی چھتوں کو چیک کیا گیا تاکہ پتہ چل سکے کہ وہاں چھتوں کی کیا صورت حال ہے اور پانی کی ٹینکیاں وغیرہ ڈھکی ہیں یا نہیں اور انہیں صاف کیا گیا ہے یا نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اب تک پنجاب میں ڈینگی کے1048 کیس رپورٹ ہو چکے ہیں اور سب سے زیادہ کیسز لاہور، راولپنڈی، گوجرانوالہ، شیخوپورہ اور فیصل آباد میں رپورٹ ہو رہے ہیں۔

’طے شدہ طریقہ کار کے مطابق جہاں سے بھی کوئی کیس رپورٹ ہوتا ہے ہم وہاں کی سرویلنس کرواتے ہیں اور اس جگہ سے ڈینگی کو ختم کیا جاتا ہے جہاں سے لاروا ملتا ہے تو اسے بھی ختم کیا جاتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ڈینگی کی روک تھام کے لیے حکومتی سطح پر کیے جانے والے اقدامات کے ساتھ ساتھ عام شہریوں کا تعاون بھی انتہائی ضروری ہے اور اس سلسلے میں ضلعی انتظامیہ کی طرف سے آگاہی مہم بھی چلائی جا رہی ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی صحت