اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس کا تحریری حکم نامہ جاری کر دیا ہے جس میں عدالت نے عمران خان کے معافی کے بیان پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔
عدالت کی جانب سے جمعرات کی شام جاری کیے گئے تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ عمران خان کی جانب سے معافی پر مطمئن ہیں۔
حکم نامے میں مزید کہا گیا ہے کہ ’عمران خان بیان حلفی دیں تو اسے زیر غور لایا جائے گا۔‘ عمران خان کی روسٹرم پر کی گئی مکمل گفتگو تحریری حکم نامے کا حصہ بنا دی گئی ہے۔
اس سے قبل سابق وزیراعظم عمران خان نے توہین عدالت کیس میں معافی مانگنے کی پیشکش کرتے ہوئے خود کو عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔
اسلام آباد میں ایک ریلی کے دوران خاتون جج سے متعلق نامناسب الفاظ پر پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان پر توہین عدالت کیس میں آج اسلام آباد ہائی کورٹ میں فرد جرم عائد کی جانی تھی۔
مقدمے کی سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے کی۔
دو بج کر 33 منٹ پر ججز کمرہ عدالت آئے اور سماعت شروع ہوئی اور عمران خان فوراً روسٹرم پر آ گئے۔ عدالت نے کہا کہ ہم نے گزشتہ سماعت پر کہا تھا کہ ہم آج فرد جرم عائد کریں گے۔
عمران خان نے کہا کہ اسلام علیکم ججز میں ایک منٹ اس پہ لگانا چاہتے ہوں، میری 26 سال کی کوشش قانون کی حکمرانی کی ہے، میرے علاوہ کوئی بھی قانون کی حکمرانی نہیں کرتا۔ آپ جو میرے سے چاہتے ہیں کہ شاید میں نے حدود کراس کی ہیں لیکن میں بتانا چاہتا ہوں کہ میں نے حدود کراس نہیں کی اور میں خاتون جج کے پاس جا کر وضاحت بھی پیش کر سکتا ہوں کہ میرا ایسا کوئی مقصد نہیں تھا اور میں معافی بھی مانگنے کو تیار ہوں۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہمارے لیے توہین عدالت کی کاروائی شروع کرنا آسان نہیں ۔ ہم آپ کا بیان ریکارڈ کریں گے ہم اس کی حوصلہ افزائی کریں گے عدالت آج فرد جرم عائد نہیں کرے گی۔ لیکن عدالت حوصلہ افزائی کرتی ہے اگر آپ کو احساس ہے آپ عدالت میں معافی کا تحریری بیان حلفی جمع کروائیں۔
عدالت نے بعد ازاں سماعت 3 اکتوبر تک ملتوی کر دی۔
عمران خان دو بجکر ستائیس منٹ پر کمرہ عدالت میں آئے۔ صحافیوں نے سوالات کیے کہ کیا آج معافی مانگیں تو انہوں نے واضح جواب نہیں دیا بلکہ تسبیح پڑھتے ہوئے مبہم جواب دیا کہ دیکھتے ہیں کہ آج کیا کرتے ہیں۔
عدالت نے آٹھ ستمبر کو سماعت میں عمران خان کا اظہار افسوس کا دوسرا جواب بھی غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے فیصلہ سنایا تھا کہ 22 ستمبر کو ان پر فرد جرم عائد کی جائے گی۔
’کیس کریمنل توہین کا ہے‘
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے گذشتہ سماعت پر توہین عدالت کی اقسام کی مثالیں دے کر وضاحت کی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ توہین عدالت تین قسم ہوتی ہے، جسے کہ فردوس عاشق اعوان کیس میں بیان کیا گیا ہے، یعنی جوڈیشل، سول اور کرمنل توہین۔
انہوں نے کہا کہ دانیال عزیز اور طلال چوہدری کی کرمنل توہین نہیں تھی۔ ان کے خلاف عدالت کو سکینڈلائز کرنے کا معاملہ تھا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا تھا کہ سب سے سنگین کرمنل توہین ہوتی ہے اس میں آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ ’میرا ایسا کرنے کا ارادہ نہیں تھا۔ کرمنل توہین میں ارادہ معنی نہیں رکھتا۔ عمران خان کا کیس کرمنل توہین کے زمرے میں آتا ہے۔‘
قانونی ماہرین کی رائے
انڈپینڈنٹ اردو نے توہین عدالت کیس کے حوالے سے عدالتی نظیریں جاننے کے لیے قانونی ماہرین سے رابطہ کیا تو سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نے کہا کہ ’کیس کے اس موڑ پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب اگر عمران خان فرد جرم عائد ہونے کے دن معافی مانگتے ہیں یا بعد میں مانگتے ہیں تو نہال ہاشمی اور دانیال عزیز کی معافی سپریم کورٹ نے منظور نہیں کی تھی اور سزا دی تھی جبکہ ان کی توہین بھی سنگین نوعیت کی نہیں تھی تو پھر یہاں اب معافی کیسے دیں گے؟‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اگر عمران خان کو معافی دیں گے تو پھر دانیال عزیز اور نہال ہاشمی کے مقدمات کی بھی سپریم کورٹ کو نظرثانی کرنے پڑے گی، لیکن اسلام آباد ہائی کورٹ نے سپریم کورٹ کے نقش قدم پر ہی چلنا ہے۔‘
عرفام قادر نے مزید کہا: ’لیکن عدالت کے لیے معافی مانگنے کی صورت میں یہ طے کرنا مشکل ہوگا کہ معافی صدق دل سے مانگی ہے یا سزا سے بچنے کے لیے مانگی گئی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ کئی وکلا جیسے کہ علی ظفر اور سلمان اکرم راجہ کے سپریم کورٹ ججوں سے چپقلش پر لائسنس معطل ہوئے تھے تو انہیں بھی معافی مانگنی پڑی تھی بلکہ بابر اعوان جنہوں نے توہین عدالت کا نوٹس ملنے پر کہا تھا کہ ’نوٹس ملیا تے ککھ نہ ہلیا،‘ ان کو بھی معافی مانگ کر کیس ختم کرنا پڑا تھا۔
دوسری جانب سابق جج شاہ خاور نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب عدالت شوکاز کے جواب سے مطمئن نہ ہو تو پھر عدالت ٹرائل شروع کرتی ہے اور ٹرائل کا آغاز فرد جرم عائد کرنے سے ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’جب فرد جرم عائد ہو جاتی ہے تو پھر ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کو کہا جاتا کہ بطور پراسیکیوٹر وہ گواہوں کی فہرست اور ثبوت عدالت کو مہیا کریں، جس کے بعد عدالت میں ان گواہوں پر جرح کی جائے گی۔‘
بقول شاہ خاور: ’جب استغاثہ کے گواہوں کے بیان مکمل ہو جائیں گے تو پھر عدالت ملزم کو ایک سوالنامہ دے گی اور کہے گی کہ وہ اس پر جواب دیں، اس کے علاوہ وہ اپنے دفاع میں کچھ کہنا یا پیش کرنا چاہتے ہیں؟ اس کے بعد عدالت کیس فیصلہ کرے گی۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ اس میں پانچ لاکھ روپے جرمانہ اور چھ ماہ قید کی سزا ہوتی ہے اور ’اگر کوئی آرٹیکل 204 کے تحت عدالتی سزایافتہ ہو جائے تو آرٹیکل 63 کی رو سے پانچ سال کے لیے الیکشن لڑنے سے نااہل ہو جاتا ہے۔‘
شاہ خاور نے مزید کہا کہ عدالت نے عمران خان کو دو مرتبہ وقت دیا ہے۔ پہلی مرتبہ ایک ہفتہ اور دوسری دفعہ دو ہفتے کا وقت دیا تو وہ معافی مانگ سکتے تھے۔ انہوں نے کہا: ’معافی جتنی تاخیر سے مانگی جائے اتنی اس کی اہمیت کم ہو جاتی ہے، لیکن یہ اب عدالت پر منحصر ہے۔‘
سکیورٹی کے انتظامات
آج (جمعرات) دوپہر ڈھائی بجے شروع ہونے والی سماعت کے لیے سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔ وکلا، لا افسران اور صحافیوں کا کمرہ عدالت میں داخلہ خصوصی پاس سے مشروط ہے جو رجسٹرار آفس نے محدود پیمانے پر جاری کیے ہیں۔
عمران خان پر مقدمہ کب اور کیسے ہوا؟
سابق وزیراعظم عمران خان نے 20 اگست کی شب ایف نائن پارک میں دوران تقریر ایڈیشنل سیشن جج زیبا چوہدری، آئی جی اور ڈی آئی جی اسلام آباد کو نام لے کر دھمکایا تھا، جس کے بعد حکومت اور پولیس کی جانب سے سخت مذمت کرتے ہوئے مجسٹریٹ کی مدعیت میں دہشت گردی کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بعدازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے دہشت گردی کی دفعات ختم کر دیں، لیکن خاتون جج کے معاملے پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے 23 اگست کو معاملے کا نوٹس لے کر عمران خان کو اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کر دیا تھا۔
31 اگست کو توہین عدالت کی پہلی سماعت میں جمع کروائے گئے بیان پر عدالت مطمئن نہ ہوئی اور عمران خان کے وکیل حامد خان سے عدالت نے کہا کہ ’سوچ کر دوبارہ جواب داخل کریں۔ اگر آج اس جواب میں غیرمشروط معافی کے الفاظ ہوتے تو عدالت آج ہی یہ کیس ختم کر دیتی۔‘
آٹھ ستمبر کو دوسری سماعت میں جمع کروائے گئے جواب میں بھی معافی نہیں مانگی گئی بلکہ کہے گئے الفاظ پر وضاحت دینے کی کوشش کی گئی جسے عدالت نے مسترد کر دیا اور مزید دو ہفتے کا وقت دیتے ہوئے فرد جرم عائد کرنے کی تاریخ دے دی۔
لیکن ان دو ہفتوں میں بھی اسلام آباد ہائی کورٹ میں عمران خان کی جانب سے کوئی معافی نامہ جمع نہیں ہوا۔ دونوں سماعتوں میں عمران خان ذاتی حیثیت میں عدالت پیش ہوئے۔ دوسری سماعت میں انہوں نے سماعت کے اختتام پر عدالت سے بات کرنے کر کے اپنا موقف دینے کی کوشش کی لیکن عدالت نے کہا کہ آپ کا موقف آپ کے وکیل دے چکے ہیں۔