بچے بھوکے پیٹ سوئے ہیں، ہارن نہ بجائیں

صرف صوبہ سندھ میں سیلاب سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد ایک کروڑ سے زائد ہے لیکن اب تک صرف 30 لاکھ افراد کو ہی پناہ مہیا کی جا سکی ہے۔

صوبہ بلوچستان کے سیلاب سے متاثرہ جھل مگسی علاقے میں متاثرہ بچہ جہاں گیسٹرو، ہیضہ، جلدی امراض اور ملیریا کے امراض عام ہو رہے ہیں (محمد اکمل خان)

کوئی پیمانہ ہے جو اس کرب، درد اور بیچارگی کو جانچ سکے جو شہداد کوٹ کی اس ماں کی فریاد میں تھا جس کے بچے سیلابی پانی میں گھری سڑک پر بھوک سے نڈھال سو گئے تھے؟

گاڑی کے ہارن کی آواز سے اٹھ جانے کے ڈر سے اس نے ڈرائیور کی منت کی کہ وہ ہارن نہ بجائے۔ سکھر سے شہداد کوٹ، لاڑکانہ سے دادو تک اور سندھ کے باقی متاثرہ علاقوں میں ہزاروں ماؤں کے پلو میں بچوں کے لیے بھوک اور بیماریوں کے علاوہ کچھ نہیں رہا۔

صوبہ سندھ حالیہ سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا صوبہ ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سندھ کے 30 اضلاع میں متاثر ہونے والے افراد کی تعداد ایک کروڑ سے زائد ہے جس میں سے 72 لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہو گئے ہیں۔ 17 لاکھ سے زائد گھر یا تو مکمل تباہ ہو گئے ہیں یا جزوی نقصان پہنچنے کی وجہ سے رہنے کے قابل نہیں رہے۔ صوبے میں 700 سے زائد افراد لقمہ اجل بنے اور ہزاروں زخمی ہو کر کھلے آسمان تلے پڑے ہیں۔

صوبہ سندھ کے دیہاتی علاقوں میں زرعی زمینوں کا اکثریتی حصہ زیر آب ہے۔ حالیہ سیلاب کی وجہ سے اندرون سندھ کے کئی علاقوں سے متاثرہ افراد اپنا سب کچھ کھو دینے کے بعد نقل مکانی کر کے مرکزی شاہراہوں پر بے یارو مدد گار پناہ گزین ہیں۔

حکومت سندھ اور وفاقی امدادی ادارے ابھی تک ان متاثرین میں پانچ لاکھ خیمے یا ترپالیں تقسیم کرنے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ اگر ایک خیمے میں چھ سے آٹھ افراد پناہ گزین ہیں تو اب تک صرف 30 لاکھ افراد کو ہی پناہ مہیا کیا جا سکی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صوبے میں 22 لاکھ مچھر دانیاں بھی تقسیم کی گئی ہیں تاکہ متاثرہ افراد کو ملیریا اور ڈینگی سے بچایا جا سکے۔

سندھ کے زیادہ تر علاقوں میں سیلابی پانی کی نکاسی ابھی تک ممکن نہیں ہو سکی جس کی وجہ سے گندے پانی کے جوہڑوں میں پیدا ہونے والے مچھروں سے ملیریا اور ڈینگی وبائی شکل اختیار کرتے جا ر ہے ہیں۔ پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی گیسٹرو، ہیضہ اور بہت سی دیگر بیماریوں کا باعث بن رہی ہے۔ جلدی امراض نے خاص طور پر بچوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ سیلاب زدہ علاقوں میں بچوں کی اکثریت خوراک کی کمی کا شکار ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

صوبائی وزیر صحت، عذرا افضل پیچوہو کے مطابق صرف صوبہ سندھ میں 47 ہزار سے زائد حاملہ خواتین کیمپوں اور سڑکوں پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ بہت سے علاقوں میں سڑکوں کی رسائی نہ ہونے کی وجہ سے ان خواتین کو طبی امداد مہیا کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ وزیر صحت کے مطابق حالیہ سیلاب میں 1200 سے زائد طبی مراکز بھی تباہ ہوئے ہیں۔

محکمہ صحت سندھ کے اعدادوشمار کے مطابق صوبے کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں سانس اور دمے کی شکایات کے ساتھ ساتھ ٹائیفائیڈ، ڈینگی، ملیریا اور جلد کی بیماریوں میں بے پناہ اضافہ دیکھا گیا ہے۔ سیلاب کے بعد سندھ حکومت کی جانب سے لگائے گئے سرکاری کیمپوں میں 15 ستمبر تک 13599 سانس کی تکلیف کے مریض رپورٹ ہوئے، 14263 ڈائریا جبکہ 20 ہزار سے زائد کیس جلد کے مختلف امراض میں رپورٹ ہوئے۔

محکمہ صحت سندھ کی ایک رپورٹ کے مطابق صوبے کے سرکاری کیمپوں میں جلدی امراض کے 15 ہزار کیس رپورٹ ہوئے تھے مگر دوسرے روز یہ تعداد بڑھ کر 20 ہزار سے تجاوز کر گئی۔ یہ تعداد صرف سرکاری کیمپوں میں مقیم لوگوں کی سکریننگ کے بعد کی ہے۔

صوبہ سندھ میں حالیہ سیلاب سے سانپوں کی پناہ گاہیں بھی زیر آب آئی ہیں۔ خاص طور پر شہداد کوٹ، قمبر اور خیرپور کے وہ علاقے جہاں حفاظتی بند ہیں وہاں ان کے کاٹنے کے کیسز زیادہ سامنے آ رہے ہیں۔ صوبائی محکمہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق یکم جولائی سے 13 ستمبر تک سانپ کے کاٹنے کے 134 واقعات ہو چکے ہیں۔

محکمہ صحت، صوبہ سندھ کے مطابق 14 ہزار ڈاکٹر اور 12 ہزار سے زائد پیرامیڈک سٹاف، عوام کو طبی سہولیات فراہم کر رہا ہے۔ صوبہ سندھ میں سپیشلسٹ ڈاکٹروں کی 69 فیصد، میڈیکل آفیسرز کی 33 فیصد اور نرسوں کی 24 فیصد اسامیوں پر تقرری نہیں ہو سکی۔ طبی عملے اور وسائل کی کمی بھی سیلاب کی وجہ سے پیدا ہونے والی ہنگامی صورت حال کو تشویشناک بنا رہی ہے۔

بھوک، بے گھری اور بیماریوں کا سامنا کرنے والے سیلاب متاثرین کی مشکلات میں ہر نئے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ حکومت، امدادی تنظیمیں اور رضاکار ابھی تک صوبہ سندھ کے تمام سیلاب متاثرین تک امدادی سامان نہیں پہنچا سکے۔ صوبہ بھر میں ادویات اور خوراک کی قلت کے خاتمے کے لیے ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے۔ اگر اس افسوس ناک صورت حال پر قابو پانے کے لیے جامع حکمت عملی اور اس پر فوری عمل درآمد نہ کیا گیا تو سیلاب متاثرین کی بحالی موسم سرما میں اور زیادہ مشکل ہو جائے گی۔

سیلاب زدگان کی اس حالت زار کو اگر سنجیدگی سے نہ لیا گیا تو معاملات مزید پیچیدگی کی طرف جائیں گے، اس لیے اس ماں کی فریاد کو سنیے جو بھوکے سوئے ہوئے بچوں کے اٹھ جانے کے ڈر سے ڈرائیور کو ہارن بجانے سے منع کرتی ہے۔

کہیں ایسا نہ ہو کہ ہارن کے شور سے اٹھنے والے بچے پھٹی آنکھوں سے ہارن بجاتی گاڑی کو دیکھتے ہی رہ جائیں اور اس گاڑی کے گزر جانے کے بعد بھوک سے بلک بلک کر ابدی نیند سو جائیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ