میرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے

شاہ اللہ دتہ جیسے سیاحتی مقام کے تحفظ کے لیے جتنی بھی رقم لگا لیں لیکن سیاحت کا ایک اصول ہے کہ وہاں اسی وقت لوگ زیادہ سے زیادہ جائیں گے جب وہاں پر سہولیات موجود ہوں اور وہاں تک رسائی آسان اور آرام دہ ہو۔

شاہ اللہ دتہ کی تاریخی غاروں سے اوپر جاکر پہاڑ کنارے بنے ایک ریستوران کے باہر کھڑے ہوکر نظر آنے والا اسلام آباد کا نظارہ، تاہم یہاں تک جانے والا راستہ بھی کوئی بہت زیادہ ہموار نہیں ہے (فوٹو: جویریہ حنا)

گذشتہ آٹھ سال میں عالمی معیشت کے مقابلے میں سیاحت زیادہ تیزی سے بڑھی ہے۔ دنیا بھر میں ایک ارب لوگ ہر سال بیرون ملک سفر کرتے ہیں اور ان میں سے سیاحوں کی آدھی تعداد ترقی پذیر ممالک کا رخ کرتی ہے۔

ترقی پذیر ممالک میں پاکستان ایسا ملک ہے جس کے پاس سیاحوں کو دینے کے لیے بہت کچھ ہے۔

کسی ملک میں سیاحت کو چار کیٹیگریز میں بانٹا جا سکتا ہے۔ ایک ہے قدرتی مناظر، دوسری ہے تاریخی مقامات، تیسری ہے ثقافتی اہمیت کے حامل مقامات اور چوتھی ہے مصنوعی مقامات جیسے تھیم پارکس وغیرہ اور پاکستان سیاحت کی پہلی تین کیٹیگریز پر پورا اترتا ہے۔

مذہبی سیاحت بھی ایک بہت بڑی سیاحتی صنعت ہے۔ مذہبی سیاحت کی ویب سائٹس کے مطابق آج بھی کم از کم 300 ملین افراد دنیا بھر میں سیاحت کے لیے اہم مذہبی مقامات پر جاتے ہیں۔ دنیا بھر میں ہر سال 600 ملین اندرونی اور بیرونی ٹرپس کیے جاتے ہیں، جس سے دنیا بھر میں 18 ارب ڈالر آمدنی ہوتی ہے۔

چند دن قبل چند غیر ملکی دوست آئے اور پلان بنا کہ اسلام آباد میں واقع شاہ اللہ دتہ کی غاروں کا دورہ کیا جائے۔ راستے میں سیکٹر ڈی بارہ میں ان کو مارگلہ ایونیو کے بارے میں بتایا۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ ’یہ تو بہت اچھا ہے کہ شاہ اللہ دتہ، جو ایک سیاحتی مقام ہے وہاں کا راستہ آسان ہو جائے گا اور زیادہ سے زیادہ سیاح وہاں جائیں گے۔‘

لیکن پھر میں گاڑی اس سڑک پر لے گیا جہاں سے مارگلہ ایونیو بننے کے بعد شاہ اللہ دتہ گاؤں اور شاہ اللہ دتہ غاروں تک پہنچنے کا واحد راستہ ہوگا۔

سنگڑیال گاؤں کی ٹوٹی اور تنگ سڑک پر سفر کر ہی رہے تھے کہ ایک دوست نے کہا: ’رضا کیا تم سیریس ہو کہ سیاحتی مقام جانے کے لیے اس تنگ سڑک سے گزرنا ہو گا؟‘ اس پر میں نے جواب دیا کہ اسلام آباد کی ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کی دانشمندانہ سوچ یہ ہے کہ ؎

انہی پتھروں پہ چل کر اگر آ سکو تو آؤ
 میرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے

اگر یہ راستہ کافی نہیں تو شاہ اللہ دتہ کی سڑک جو شاہ اللہ دتہ غاروں کی جانب جاتی ہے، اس کا حال دیکھ کر تو میرے دوست بولے کہ ’رضا، اس سے بہتر راستہ تو فیری میڈوز کی جانب جانے والا جیپ کا رستہ تھا۔‘

پاکستان نے اب تک تیسری کیٹیگری یعنی ثقافتی سیاحت، جس میں مذہبی سیاحت بھی شامل ہے، پر اتنی زیادہ توجہ دی ہی نہیں ہے۔ ملک میں قدیم تہذیبوں کے آثار موجود ہیں۔ صوفی مزار، ہندو مندر، سکھوں کے گردوارے اور بدھ مت کی خانقاہیں موجود ہیں، لیکن غیر ملکی سیاحوں کے لیے اتنا کچھ ہونے کے باوجود پاکستان بھارت، سری لنکا اور دیگر علاقائی ممالک سے پیچھے ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں مردان، ٹیکسلا اور سوات جو بدھ مت کی گندھارا تہذیب کا گڑھ ہے اور دنیا بھر میں 500 ملین سے زیادہ بدھ متوں کے لیے بہت خاص ہے لیکن وہ لوگ یہاں نہیں آتے۔

پاکستان ہی میں دنیا کا سب سے قدیم سوئے ہوئے بدھا کا مجسمہ ہری پور میں ہے لیکن پھر بھی کوئی خاطرخواہ اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا۔ کوریا، چین اور جاپان کے 50 ملین مہایان بدھ متوں کے لیے خیبرپختونخوا میں تخت بائی اور شمالی پنجاب میں دیگر مقامات مذہبی اہمیت کے حامل ہیں، لیکن ان ممالک سے یہاں کوئی نہیں آتا۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قومی ورثہ اور ثقافت کو حال ہی میں بتایا گیا کہ پاکستان میں تاریخی مقامات کے حوالے سے ایک ایپ 23 جون تک تیار ہو جائے گی جس پر ملک بھر میں واقع تاریخی مقامات کے حوالے سے تفصیلات موجود ہوں گی۔ یہ ایک بہت ہی اچھا قدم ہے جس کی ضرورت کافی عرصے سے تھی۔

ہم میں سے کوئی بھی جب پاکستان میں سیرو تفریح کے لیے نکلتا ہے تو کتنے لوگ محکمہ سیاحت کی ویب سائٹ پر جاتے ہیں؟ بہت کم بلکہ میں غلط نہیں ہوں گا اگر میں یہ کہوں کہ شاید ہی کوئی یہ کرتا ہو۔ سرکاری ویب سائٹس کا جائزہ لیا جائے تو ایسا لگتا ہے جیسے وہ چاہتے ہی نہیں ہیں کہ کوئی ان سے رجوع کرے۔

2016  میں سفر اور سیاحت کی صنعت کا جی ڈی پی میں 6.9 فیصد حصہ تھا یعنی 19.4 ارب ڈالر اور ایک اندازے کے مطابق 2027 تک سفر اور سیاحت کا جی ڈی پی میں حصہ 7.2 فیصد تک بڑھنے کا امکان ہے۔

اور کیوں نہ بڑھے؟ یہ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی اور کئی آٹھ ہزار میٹر بلند چوٹیوں کا ملک ہے۔ بے بہا آثار قدیمہ کے مقامات یہاں ہیں، دریا ہیں، ایک طرف چولستان کا ریگستان ہے تو دوسری جانب سرفرنگا کا سرد ریگستان۔

لیکن شاہ اللہ دتہ جیسے سیاحتی مقام کے تحفظ کے لیے جتنی بھی رقم لگا لیں لیکن سیاحت کا ایک اصول ہے کہ وہاں اسی وقت لوگ زیادہ سے زیادہ جائیں گے جب وہاں پر سہولیات موجود ہوں اور وہاں تک رسائی آسان اور آرام دہ ہو۔ اگر ٹوٹی ہوئی سڑکوں ہی سے رسائی دینی ہے تو پھر حکومت سیاحت کے حوالے سے سنجیدہ نہیں ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ