مذہبی سیاحت کے لیے جدت کی ضرورت

پاکستان میں صوفیوں کے مزار، ہندوؤں کے مندر، سکھوں کے گردوارے اور بدھ مت کی خانقاہیں موجود ہیں، لیکن غیر ملکی سیاحوں کے لیے اتنا کچھ ہونے کے باوجود پاکستان بھارت، سری لنکا اور دیگر علاقائی ممالک سے پیچھے ہے۔

17 نومبر 2021 کی اس تصویر میں سکھ یاتری کرتارپور میں سکھ مذہب کے بانی گرو نانک کے یوم پیدائش کے موقع پر گرردوارہ دربار کرتارپور صاحب سے واپس آتے ہوئے خوشی کا اظہار کر رہے ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

جب بھی پاکستان میں سیر و تفریح کا سوچا جائے تو سمجھ ہی نہیں آتی کہ کہاں جایا جائے۔ بات یہ نہیں ہے کہ ہمارے پاس اتنی زیادہ معلومات ہوتی ہیں کہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے، بلکہ بات یہ ہے کہ معلومات اور وہ بھی مستند معلومات کا فقدان ہوتا ہے۔

ہم لوگوں میں سے کوئی بھی جب پاکستان میں سیرو تفریح کے لیے نکلتا ہے تو کتنے لوگ محکمہ سیاحت کی ویب سائٹ پر جاتے ہیں؟ بہت کم بلکہ میں غلط نہیں ہوں گا اگر میں یہ کہوں کہ شاید ہی کوئی یہ کرتا ہو۔

سرکاری ویب سائٹس کا جائزہ لیا جائے تو ایسا لگتا ہے جیسے وہ چاہتے ہی نہیں ہیں کہ کوئی ان سے رجوع کرے۔

اب آپ خیبر پختونخوا کی محکمہ سیاحت کی ویب سائٹ کو ہی لے لیجیے۔ اس پر اگر کوئی غیر ملکی تو چھوڑیں ایک پاکستانی بھی تخت بائی کے حوالے سے معلومات حاصل کرنا چاہے تو اس پر دی گئی معلومات ملاحظہ کیجیے۔

’مردان سے کتنے کلومیٹر دور ہے۔ اس کے آس پاس سبزہ ہے۔ حکومت نے جگہ جگہ معلومات کے لیے بورڈ لگائے ہوئے ہیں تاکہ آنے والوں کو پاکستان میں تاریخی اور آثار قدیمہ کی جگہوں کی معلومات مل سکیں۔ گاڑی پارک کرنے کے 50 روپے اور اگر آپ اپنا ڈی ایس ایل آر کیمرہ لے کر جاتے ہیں تو اس کے 500 روپے ہوں گے۔  پاکستانیوں کے لیے انٹری فیس 20 روپے اور غیر ملکیوں کے لیے 500 روپے۔‘

کیا یہ معلومات سرکاری ویب سائٹ پر ہونی چاہییں؟ اور کیا یہ کسی بھی شخص کے لیے کافی ہیں کہ وہ تخت بائی جانے کا پلان کر سکے۔

میں نے فیری میڈوز کا پلان بنایا اور پھر انٹرنیٹ پر تلاش شروع کی۔ یو ٹیوب ویڈیوز دیکھیں، ٹریول وی لاگ دیکھے اور وہ تمام معلومات مجھے مل گئیں جو مجھے یا کسی بھی فیملی کے ساتھ جانے والے شخص کو درکار ہوتی ہیں۔

لیکن یہ معلومات سرکاری سطح پر کیوں مہیا نہیں تھیں؟

گذشتہ آٹھ سال میں عالمی معیشت کے مقابلے میں سیاحت زیادہ تیزی سے بڑھی ہے۔ دنیا بھر میں ایک ارب لوگ ہر سال بیرون ملک سفر کرتے ہیں اور ان میں سے سیاحوں کی آدھی تعداد ترقی پذیر ممالک کا رخ کرتے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک میں پاکستان ایسا ملک ہے جس کے پاس سیاحوں کو دینے کے لیے بہت کچھ ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کسی ملک میں سیاحت کو چار کیٹیگریز میں بانٹا جا سکتا ہے۔ ایک ہے قدرتی مناظر، دوسری ہے تاریخی مقامات، تیسری ہے ثقافتی اہمیت کے حامل مقامات اور چوتھی ہے مصنوعی مقامات جیسے تھیم پارکس وغیرہ اور پاکستان سیاحت کی پہلی تین کیٹیگریز پر پورا اترتا ہے۔

لیکن پاکستان نے اب تک تیسری کیٹیگری یعنی ثقافتی سیاحت جس میں مذہبی ثقافت بھی شامل ہے، پر اتنی زیادہ توجہ دی ہی نہیں ہے۔ ملک میں قدیم تہذیبوں کے آثار موجود ہیں۔ صوفی مزار، ہندو مندر، سکھوں کے گردوارے اور بدھ مت کی خانقاہیں موجود ہیں، لیکن غیر ملکی سیاحوں کے لیے اتنا کچھ ہونے کے باوجود پاکستان بھارت، سری لنکا اور دیگر علاقائی ممالک سے پیچھے ہے۔

اگرچہ ٹوارزم ڈویلپمنٹ کارپوریشن نے پنجاب میں 480 ورثے اور مذہبی مقامات کی نشاندہی کی ہے۔ ان میں 106 مقامات تاریخی طور پر اہمیت کے حامل ہیں، 120 مذہبی اور 26 مقامات ایسے ہیں جو مذہبی اور تاریخی اہمیت رکھتے ہیں۔

اب ننکانہ صاحب ہی کو لے لیں جہاں بابا گرو نانک پیدا ہوئے۔ یہ سکھ مذہب سے تعلق رکھنے والوں کے لیے مقدس ترین جگہوں میں سے ایک ہے اور ایک اندازے کے مطابق سالانہ چھ سے سات ہزار سکھ یاتری ننکانہ صاحب آتے ہیں۔

یہ درست ہے کہ بھارت سے آنے والے سیاحوں کے لیے پابندیاں زیادہ ہیں اور ویزہ پالیسی بھی سخت ہے، لیکن کیا وجہ ہے کہ بھارت سے باہر رہنے والے سکھ جن کی تعداد لاکھوں ہے، ننکانہ صاحب آنا تو چاہتے ہیں لیکن  آتے نہیں ہیں۔

کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں مردان، ٹیکسلا اور سوات جو بدھ مت کی گندھارا تہذیب کا گڑھ ہے اور دنیا بھر میں 500 ملین سے زیادہ بدھ متوں کے لیے بہت خاص ہے لیکن وہ نہیں آتے۔

پاکستان ہی میں دنیا کا سب سے قدیم سوئے ہوئے بدھا کا مجسمہ ہری پور میں ہے لیکن پھر بھی کوئی خاطرخواہ اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا۔ کوریا، چین اور جاپان کے 50 ملین مہایان بدھ متوں کے لیے خیبر پختونخوا میں تخت بائی اور شمالی پنجاب میں دیگر مقامات مذہبی اہمیت کے حامل ہیں، لیکن ان ممالک سے یہاں کوئی نہیں آتا۔

پاکستان میں سیاحت کی صنعت میں سیاسی اور سکیورٹی وجوہات کی بنا پر اتار چڑھاؤ آتا رہا ہے۔

2016 میں سفر اور سیاحت کی صنعت کا جی ڈی پی میں 6.9 فیصد حصہ تھا یعنی 19.4 ارب ڈالر اور ایک اندازے کے مطابق 2027 تک سفر اور سیاحت کا جی ڈی پی میں حصہ 7.2 فیصد تک بڑھنے کا امکان ہے۔

اور کیوں نہ بڑھے؟ یہ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی اور کئی آٹھ ہزار میٹر بلند چوٹیوں کا ملک ہے، بے بہا آثار قدیمہ کے مقامات یہاں ہیں، دریا ہیں، ایک طرف چولستان کا ریگستان ہے تو دوسری جانب سرفرنگا کا سرد ریگستان۔

سیاحت معاشی ترقی کے لیے بہت اہم ہے کیونکہ اس سے زر مبادلہ ملک میں آتا ہے اور روزگار کے مواقعے پیدا ہوتے ہیں، لیکن اگر اس کی صحیح طور پر نگرانی نہ کی جائے تو اس کے منفی اثرات بھی ہوتے ہیں جیسے کہ ماحول کی آلودگی، مقامی تہذیب کا خاتمہ وغیرہ۔

مذہبی سیاحت ایک بہت بڑی سیاحتی صنعت ہے۔ مذہبی سیاحت کی ویب سائٹس کے مطابق آج بھی کم از کم 300 ملین افراد دنیا بھر میں مذہبی سیاحت کے لیے اہم مذہبی مقامات پر جاتے ہیں۔ ہر سال 600 ملین اندرونی اور بیرونی ٹرپس کیے جاتے ہیں، جس سے دنیا بھر میں 18 ارب ڈالر آمدنی ہوتی ہے۔

جدت کا مطلب صرف ویب سائٹ بنا دینا ہی نہیں ہے بلکہ جدت یہ ہے کہ ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کو ایک ہی ویب سائٹ پر مفصل تفصیلات حاصل ہوں۔

 وقت ہے کہ حکومت سیاحت بشمول مذہبی سیاحت پر خاص توجہ دے اور دنیا بھر کی طرح اس سے فائدہ اٹھائے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ