وفاق، پنجاب حکومتوں کے درمیان تناؤ، سرکاری افسران مشکل میں

ایک طرف وفاقی حکومت تحریک انصاف کے لگائے افسروں کی کارکردگی سے مطمئن نہیں تو دوسری جانب پنجاب میں تحریک انصاف سے تعاون کرنے والے افسران پر بھی سیاست جاری ہے۔

اسلام آباد: ڈی چوک میں 3 اپریل 2022 کو صدر کی جانب سے پارلیمان تحلیل کرنے کے بعد تحریک انصاف کے حامی احتجاج کر رہے ہیں۔ (اے ایف پی)

پاکستان میں وفاقی سطح پر حکومت کی تبدیلی کے بعد پیدا ہونے والا سیاسی بحران ختم ہونے کے بجائے مسلسل بڑھتا جا رہا ہے، جس میں ایک طرف وفاق پی ٹی آئی کے خلاف سیاسی پیش بندی جاری رکھے ہوئے ہے، تو دوسری جانب آبادی کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ پنجاب وفاقی حکومت کو چیلنج دینے میں پیش پیش ہے۔

ایک طرف وفاقی حکومت تحریک انصاف کے لگائے افسروں کی کارکردگی سے مطمئن نہیں تو دوسری جانب پنجاب میں تحریک انصاف سے تعاون کرنے والے سرکاری افسران بھی سیاسی دھکم پیل میں گھرے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔  

پہلے ن لیگی رہنماؤں کے خلاف مقدمات درج کرنے پر سی سی پی او لاہور کو وفاقی حکومت نے عہدے سے ہٹانے کا اختیار استعمال کیا، جو پنجاب حکومت نے ناکام بناتے ہوئے انہیں مکمل حمایت کے ساتھ عہدے پر برقرار بھی رکھا۔ پھر وفاقی وزیر داخلہ نے جب اسلام آباد میں سیکیورٹی کے لیے پنجاب سے پولیس کی نفری بھیجنے کا بیان دیا تو پنجاب حکومت نے سکیورٹی کے لیے صرف راولپنڈی پولیس بھیجنے تک کا جواب دیا۔

اب گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو عمران خان کے خطاب پر ہٹانے کی ہدایت کی گئی ہے مگر پنجاب حکومت ان کا بھی دفاع کر رہی ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق وفاقی اور صوبائی حکومت مخالف جماعتوں کی ہو تو ماضی میں بھی ایسا تناؤ پیدا ہوتا رہا ہے مگر اس حد تک ٹکراؤ پہلے بہت کم دیکھنے میں آیا تھا۔ ان کے خیال میں جب تک انتخابات نہیں ہوں گے سیاسی بحران ختم نہیں ہو گا۔

وفاق اور پنجاب میں اختیارات کی جنگ:

سینیئر صحافی و تجزیہ کار مجیب الرحمن شامی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وفاق اور صوبے میں جب مختلف جماعتوں کی حکومت ہو تو اس طرح کے حالات ماضی میں بھی دیکھے گئے۔ لیکن اس بار حالات کافی مختلف ہیں کہ پنجاب اور وفاق کے درمیان سرکاری افسران کے تقرر و تبادلوں پر سیاست کی جا رہی ہے۔

مجیب الرحمان شامی کے بقول یہ بات طے ہے کہ آئینی طور پر کئی محکموں کے سربراہان وفاقی حکومت کے ماتحت افسران کوتعینات کیا جاتا ہے لیکن اس میں صوبوں کی مرضی بھی شامل ہوتی ہے۔

 لیکن اس بار جو افسران پنجاب میں کام کررہے ہیں چاہے وہ سی سی پی او لاہور ہوں یا گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے وائس چانسلر، انہیں سیاسی ایشوز پر اگر وفاقی حکومت عہدوں سے ہٹانا چاہے گی تو پنجاب حکومت کی مزاحمت تو حقیقی ہے اور پھر وہ بھی پھر اپنا اختیار استعمال کریں گے۔

ان کے مطابق 25 مئی کو پی ٹی آئی لانگ مارچ کے وقت پنجاب میں ن لیگ کی حکومت تھی تو پولیس افسران نے حکام کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے امن و امان کو قائم رکھا اور کارروائی کی۔ مگر جب حکومت تبدیل ہوئی تو پی ٹی آئی کی حمایت یافتہ پنجاب حکومت نے ان پولیس افسران کے خلاف کارروائی شروع کر دی جنہوں نے احکامات کی تعمیل کی تھی۔

اسی طرح سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر اور وائس چانسلر جی سی یونیورسٹی پروفیسر اصغر زیدی اگرچہ وفاقی حکومت کےماتحت ہیں لیکن وہ تعینات پنجاب میں ہیں اور یہاں کے حکام کے مطابق کام کریں گے لہذا وفاقی حکومت کو اداروں کی خود مختاری میں مداخلت نہیں کرنا چاہیے۔

تجزیہ کار تنزیلہ مظہر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ وفاق اور پنجاب میں جن جماعتوں کی حکومت ہے وہ ایک دوسرے کے شدید مخالف ہیں اور مخالفت سیاست سے بڑھ کر ذاتی نوعیت کے ایک دوسرے کے خلاف مقدمات درج کرنے اور گرفتاریوں تک پہنچ چکی ہے۔

تنزیلہ مظہر کے مطابق وفاقی حکومت اپنے اختیارات استعمال کر رہی ہے جب کہ جہاں موقع ملتا ہے پنجاب حکومت بھی جواب دینے یا کارروائی سے اجتناب نہیں کر رہی ہے۔ مسئلہ زیادہ خراب اس لیے ہے کہ پی ٹی آئی سربراہ عمران خان اپنی سیاست کونظام سے اوپر سمجھتے ہیں اور جہاں ان کے پاس اختیار ہے وہاں وہ اپنی حکومت کے زریعے اپنی سیاسی جدوجہد کو بڑھاوا دینا چاہتے ہیں جیسا کہ انہوں نے جلسوں میں بیانات دیے کہ وہ جب چاہیں اسلام آباد کو کے پی اور پنجاب حکومت کے زریعے جام کر سکتے ہیں۔ اسی طرح وفاق میں جب پی ٹی آئی رہنماؤں کے خلاف کارروائی شروع ہوئی تو خان صاحب کی ہدایت پر پنجاب میں بھی ن لیگی رہنماؤں کے خلاف کارروائی کا آغاز کر دیا گیا جس سے حالات مزید کشیدہ ہو گئے۔

وفاق اور پنجاب میں بڑھتی سیاسی کشیدگی کے ممکنہ نتائج:

سابق نگران وزیر اعلی پنجاب اور تجزیہ کار حسن عسکری نے انڈپینڈنٹ اردوسے بات کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح سیاسی طور پر وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت میں تناؤ بڑھتا جا رہا ہے اس سے دسمبر تک حالات کافی خرابی کی طرف جاتے نظر آرہے ہیں۔ ملک میں عوام کی حالت بدتر ہورہی ہے۔ معیشت، لا اینڈ آرڈر، گڈ گورننس اور سیلاب جیسے مسائل موجود ہیں مگر حکمران اپنے اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کی جدوجہد میں لگے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حسن عسکری نے کہا اگرچہ وفاقی حکومت معیشت بہتر کرنے کی طرف توجہ دے رہی ہے، اسحاق ڈار کو بھی اسی لیے واپس بلایا گیا ہےاور پنجاب حکومت لا اینڈ آرڈر بہتر کرنے کی کوشش کر رہی ہے مگر جتنے بڑے چیلنجز کا سامنا ہے اور جو اختلافات ہیں لگتا نہیں کہ ان پر جلد قابو پایا جا سکتا ہے۔ ایسے حالات میں سب حکومتوں کو آپس میں ’ورکنگ ریلیشن شپ‘ بڑھانے کی ضرورت ہوتی مگر یہاں کشیدگی بڑھ رہی ہے۔

ان کے خیال میں موجودہ صورتحال میں عمران خان لانگ مارچ کی دھمکیاں دے کر صرف سیاسی چال چل رہے ہیں مگر حالات سے لگتا نہیں کہ وہ فوری طور پر انتہائی قدم اٹھائیں گے کیونکہ جیسے وہ اسلام آباد جانے کی کال کا کہہ رہے ہیں اس کے نتائج ان کے حق میں دکھائی نہیں دیتے اس لیے وہ صرف جلسے ہی کرتے رہیں گے۔

مجیب الرحمن شامی کے بقول سیاسی صورتحال جتنی بھی کشیدہ ہوجائے فی الحال تحریک انصاف کی جانب سے فوری لانگ مارچ کرنا اتنا آسان نہیں ہو گا۔ پنجاب اور کے پی کے میں حکومت چاہے ان کی ہے لیکن وفاقی حکومت سے زیادہ موثر نہیں ہوسکتیں اور نہ ہی ادارے ایک دوسرے کے سامنے ہونے کو تیار ہوں گے اس لیے ان حالات میں صرف سیاست تو ہو سکتی ہے مگر حالات خراب نہیں کیے جا سکتے۔

تنزیلہ مظہر نے کہا کہ پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن کی حکومتوں کے درمیان بیان بازی یا سرکاری افسران کے تقرروتبادلوں کا سلسلہ تو بڑھنے کا امکان ہے مگر جیسے خان صاحب دعوی کر رہے ہیں کہ وہ اسلام آباد کا گھراؤ کریں گے یا ان کے بقول وہ کوئی آخری واردات کریں گے تو ایسے حالات دکھائی نہیں دیتے۔ وہ اس لیے کہ اگر وہ پنجاب اور کے پی حکومت کی مشینری استعمال کرنے کا سوچ رہے ہیں تو وفاق کے ماتحت رینجرز اور دیگر سکیورٹی ادارے بھی ہیں اور پنجاب پولیس ان اداروں کے سامنے کبھی نہیں کھڑی ہو گی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست