لاہور ہائی کورٹ نے مریم نواز کا پاسپورٹ واپس کرنے کا حکم دے دیا

مریم نواز نے لاہور ہائی کورٹ میں ایک نئی درخواست دائر کی تھی جس میں عدالت سے استدعا کی گئی کہ ان کا پاسپورٹ واپس کیا جائے جو چار سال قبل ضمانت کے طور پر اسی عدالت میں رکھوایا گیا تھا۔

مریم نواز پانچ جولائی، 2017 کو اسلام آباد میں انسداد بدعنوانی کمیشن کے سامنے پیش ہو رہی ہیں (اے ایف پی)

مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز کی پاسپورٹ واپسی کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ نے ان کا پاسپورٹ انہیں واپس دینے کا حکم دے دیا۔ 

چند روز قبل اسلام آباد ہائی کورٹ نے مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن صفدر کو ایوان فیلڈ کیس میں دی گئی سزا کو ختم کرتے ہوئے ان دونوں کو بری کر دیا تھا جس کے بعد مریم نواز نے ایک بار پھر لاہور ہائی کورٹ میں اپنا پاسپورٹ واپس لینے کی درخواست جمع کروائی تھی جس پر پیر کے روز چیف جسٹس ہائی کورٹ  جسٹس محمد امیر بھٹی کی سربراہی میں جسٹس علی باقر نجفی اور جسٹس طارق سلیم شیخ پر مشتمل تین رکنی بنچ نے سماعت کی۔ 

اس سے پہلے رواں برس اپریل کے مہینے میں کیس کے حوالے سے تشکیل دیے گئے چار بینچ ٹوٹے اور جسٹس علی باقر نجفی، جسٹس سردار احمد نعیم  سمیت دیگر ججوں نے اس کیس کی سماعت سے معذرت کر لی تھی۔ جس کے بعد مریم نواز نے اپنے پاسپورٹ واپسی کی درخواست ہی واپس لے لی تھی۔ مریم نواز اپریل کے ہی مہینے میں عمرہ کے لیے جانا چاہتی تھیں جس ے لیے انہیں اپنا پاسپورٹ واپس چاہیے تھا۔  

اس وقت نیب نے بھی اس کیس کے حوالے سے عدالت میں اپنا جواب جمع کروایا تھا، جس میں نیب نے مریم نواز کا پاسپورٹ واپس کرنے کی مخالفت کرتے ہوئے موقف اپنایا تھا کہ چوہدری شوگر ملز کیس میں مریم کی ضمانت کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے۔ 

مریم نواز کے وکیل کے مطابق: ’چوہدری شوگر ملز کیس میں مریم نواز کی ضمانت منظور ہو چکی تھی اور انہوں نے عدالتی حکم پر پاسپورٹ جمع کروا رکھا تھا‘ لاہور ہائی کورٹ نے اس کیس میں مریم نواز کو ضمانت دیتے ہوئے پاسپورٹ جمع کروانے کا حکم دیا تھا۔ 

اس سے پہلے بھی 21 اپریل کو جسٹس شہباز علی رضوی اور جسٹس انوار الحق پنوں پرمبنی دو رکنی بینچ نے اس کیس پر سماعت سے یہ کہہ کر معذرت کرلی تھی کہ ’بہتر ہے اس کیس کی سماعت وہی معزز جج کریں جو پہلے کر رہے تھے۔‘  

مسلم لیگ ن کے رہنما عطا تارڑ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ مریم نواز آخری مرتبہ 14 جولائی 2018 کو لندن سے اپنے والد میاں نواز شریف کے ہمراہ پاکستان آئی تھیں، جس کے بعد وہ پاسپورٹ نہ ہونے کے سبب بیرون ملک سفر نہیں کر پائیں۔ 

مریم نواز اپنے والد کے ہمراہ اس وقت پاکستان آئی تھیں جب ملک میں عام انتخابات سے قبل انہیں اور ان کے والد میاں محمد نواز شریف کو ایوان فیلڈ ریفرنس کیس میں سات اور دس سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ انہیں پاکستان پہنچنے پر گرفتار کرلیا گیا تھا۔ 

نیب اور وفاقی حکومت کے وکلا نے مریم نواز کا پاسپورٹ واپس کرنے کی مخالفت نہیں کی

چیف جسٹس امیر بھٹی نے مریم نواز کے وکیل امجد پرویز ایڈووکیٹ سے استفسار کیا کہ کیا مریم نوازنے پہلے بھی پاسپورٹ واپسی کی درخواستیں دائر کی تھیں، جس پر مریم کے وکیل نے بتایا کہ موجودہ درخواست کی روشنی میں پرانی درخواستیں غیر مؤثر ہو چکیں ہیں۔ 

امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ مریم نواز کو سیاسی انتقامی کاروائی کا نشانہ بنایا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مریم نواز کو چوہدری شوگر مل کیس میں جیل سے گرفتار کیا گیا (جب وہ 2019 میں اپنے والد سے ملنے کوٹ لکھ پت جیل گئیں تھیں)۔  جسمانی ریمانڈ کے بعد مریم کو جوڈیشل کر دیا گیا تھا جس کے بعد پاسپورٹ جمع کرانے پر انہیں ضمانت ملی، چار سال ہو گئے لیکن ابھی تک چوہدری شوگر ملز کا کوئی ریفرنس نہیں آیا، نئے قانون میں چھ ماہ کا وقت دیا گیا ہے۔ اگر یہ کیس فائل کرتے اور مریم اس کا دفاع کرتیں تو صورتحال مختلف ہوتی، مریم نواز کو بنیادی حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے۔  

انہوں نے مزید کہا کہ مریم چاہتی تھیں کہ یہ کیس فائل ہوتا تاکہ وہ اس کے دفاع میں آتیں، لمبی تاخیر کرنا قانون کے غلط استعمال کے مترادف ہے، لمبی تاخیر پر عدالتیں بغیر میرٹ دیکھےکیس ختم کرا دیتی ہیں۔ 

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے حکومت کے وکیل سے اس حوالے سے ان کے موقف بارے استفسار کیا تو ڈپٹی اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ہمیں مریم نواز کے پاسپورٹ واپسی کی درخواست پر کوئی اعتراض نہیں ۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وفاقی حکومت نے مریم نواز کی ضمانت کے خلاف اپیل بھی دائر کر رکھی ہے جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ انہیں اس حوالے سے کوئی علم نہیں۔ ان کے جواب میں چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا ’تو وہ کون بتائے گا؟ یا آپ نے صرف ایک فقرہ سن لیا کہ کچھ نہیں کرنا، مخالفین آجائیں تو آپ زمین آسمان ایک کر دیتے ہیں اپنے ہوں تو زمین پر بچھ جاتے ہیں۔‘

سماعت کے دوران نیب کے وکیل کا کہنا تھا کہ مریم نواز کے خلاف اس وقت کوئی انکوائری پینڈنگ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’ہمیں مریم نواز یا ان کے پاسپورٹ کی ضرورت نہیں ہے۔‘

پاسپورٹ کب اور کیوں جمع ہوا؟ 

لاہور ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے چار نومبر 2019 کو چوہدری شوگر ملز کیس میں مسلم لیگ کی نائب صدر مریم نواز کی درخواستِ ضمانت ایک، ایک کروڑ روپے مالیت کے دو مچلکوں کے عوض منظور کی تھی اور انہیں اپنا پاسپورٹ بھی جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔ 

بینچ نے اپنا فیصلہ سماعت مکمل ہونے پر 31 اکتوبر کو محفوظ کیا تھا۔ 

ضمانت سے قبل وہ اپنے چچا زاد بھائی یوسف عباس کے ہمراہ چوہدری شوگر ملز ریفرنس میں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل میں تھیں۔ قومی احتساب بیورو (نیب) نے دونوں کو آٹھ اگست 2019 کو گرفتار کیا تھا۔ 

اس مقدمے میں ان پر الزام ہے کہ چوہدری شوگر ملز کے مختلف اکاؤنٹس رقم کی منتقلی کے لیے استعمال ہوتے رہے۔ 

عدالتی فیصلے میں کیا تھا؟ 

جسٹس علی باقر نجفی نے 24 صفحات پر مشتمل فیصلہ عدالت میں پڑھ کر سنایا تھا۔ فیصلے میں تھا کہ ’عدالت میں جمع کروائے گئے ریکارڈ کے مطابق نومبر 2011 میں مریم نواز نے چوہدری شوگر ملز کے اکاؤنٹ سے تقریباً سات کروڑ روپے نکلوائے۔ اگر دیکھا جائے تو یہ حقائق کسی بھی طرح سے پراسیکیوشن کے لیے مددگار نہیں ہیں، کیوں کہ پراسیکیوشن کا یہ مقدمہ نہیں ہے کہ چوہدری شوگر ملز دیوالیہ تھی یا نقصان میں تھی تو ( شوگر مل کا) کوئی بھی حصہ دار یا چیف ایگزیکٹیو اس کے اکاؤنٹ سے پیسے کیوں نہیں نکلوا سکتا؟ تاہم نیب اس معاملے پر مزید تحقیق کر سکتا ہے۔‘ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا تھا کہ یہ ثابت شدہ قانون ہے کہ ایسے کسی بھی لین دین میں فائدہ حاصل کرنے والے سے واضح رابطہ جوڑا جانا چاہیے اور اس میں کسی قسم کا ابہام نہیں ہونا چاہیے۔ 

عدالتی فیصلے کے مطابق: ’نیب کی طرف سے سات کروڑ روپے نکلوانے کا الزام یہ بات ثابت نہیں کرتا کہ رقم غیر قانونی طریقے سے حاصل کی گئی یا ایسی رقم ہے جس کے ذرائع آمدن کا پتہ نہیں، کیونکہ چوہدری شوگر ملز کے آفیشل ریکارڈ میں اس رقم کا بیرونی سرمایہ کاری کے طور پر اندراج موجود ہے۔‘ 

یہ پہلا موقع نہیں ہے جب مریم نواز نے اپنا پاسپورٹ واپس لینے کے لیے عدالت سے رجوع کیا۔ 2019 میں بھی انہوں نے عدالت سے درخواست کی تھی کہ وہ انہیں پاسپورٹ واپس کرنے کے احکامات جاری کرے۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست