باجوڑ کے وہ گاؤں جہاں 1947 سے کوئی سرکاری سکول نہیں بنا

ضلعی ایجوکیشن آفیسر شیرین زادہ کے مطابق ضلع باجوڑ میں 265 گاؤں ایسے بھی ہیں، جہاں یا تو لڑکیوں یا لڑکوں کے پرائمری سکول نہیں ہیں یا پھر دونوں نہیں ہیں۔

ضلع باجوڑ کے گاؤں اسلام گٹ سمیت چار پانچ گاؤں ایسے ہیں، جہاں قیام پاکستان سے لے کر اب تک کوئی بھی سرکاری سکول قائم نہیں کیا گیا جبکہ ضلعے میں 265 گاؤں ایسے بھی ہیں جہاں یا تو لڑکیوں اور لڑکوں یا پھر دونوں کے لیے سکول نہیں ہیں۔

ایک ہزار کے قریب گھرانوں پر مشتمل اسلام گٹ سمیت چار گاؤں کے لیے ایک غیر سرکاری تنظیم نے عارضی سکول قائم کیا ہے۔

اسلام گٹ باجوڑ کے ہیڈ کوارٹر خار سے تقریباً 35 کلومیٹر دور قدرتی حسن سے مالا مال سرحدی علاقہ ہے لیکن خراب سڑکیں اور دشوار پہاڑی راستوں کی وجہ سے وہاں جانا کسی مصیبت سے کم نہیں۔

جنرل کونسلر لعل محمد جو باجوڑ کے علاقے اسلام گٹ کے رہائشی ہیں، نے سکول سے متعلق بتایا کہ وہ بھی کبھی بند اور کبھی کھلا رہتا ہے جب اساتذہ کو پراجیکٹ سے تنخواہ نہیں دی جاتی تو پھر وہ اپنی مدد آپ کے تحت گاؤں والے اساتذہ کو پیسے دیتے ہیں تاکہ بچوں کی پڑھائی متاثر نہ ہو۔ 

وہاں کے ایک رہائشی محمد طاہر نے بتایا: ’ہم نے بار بار حکومت کو درخواست دی کہ ہمارے علاقے میں سکول قائم کیا جائے کیونکہ ہمارے بچے حصول تعلیم سے محروم ہیں اورعارضی سکول میں پرائمری تعلیم حاصل کرنے کے بعد مڈل سکول نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ تر بچے تعلیم ادھوری چھوڑ کر اندرون و بیرون ملک مزدوری کے لیے جاتے ہیں۔‘

محمد طاہر خود بھی سعودی عرب میں مزدوری کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس علاقے کے باسیوں کو صحت اور تعلیم سمیت کوئی بھی سہولت میسر نہیں۔

16 سالہ محمد یار نے اسلام گٹ کے اس پراجیکٹ سکول سے پرائمری تعلیم حاصل کی اور اب وہ دہم جماعت کے طالب علم ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ جب وہ نرسری کلاس میں تھے تو ان کے ساتھ 76 طلبہ تھے اور چوتھی کلاس تک صرف چھ رہ گئے۔

محمد یار نے بتایا: ’ان سب کو پتہ تھا کہ پرائمری سکول کے بعد ہم کہاں جائیں گے۔ پرائمری سکول پاس کرنے کے بعد میرے ساتھ صرف ایک دوست سعد رہ گیا اور ہم دونوں نے گورنمنٹ ہائی سکول ناراضہ میں داخلہ لیا لیکن سعد نے بھی آٹھویں کلاس میں سکول چھوڑ دیا۔‘

محمد یار خود تو ہر روز سکول جاتے ہیں لیکن سکول آنا جانا ان کے لیے اتنا آسان نہیں۔

ان کے مطابق علاقے میں سڑک نہ ہونے کی وجہ سے  وہ ہر روز ایک گھنٹہ جانے اورایک گھنٹہ واپسی پر پیدل سفر کر کے اپنا تعلیم جاری رکھے ہوئے ہیں۔

محمد یار نے اپنے پرائمری سکول کے دوست سعد کے حوالے سے بتایا کہ وہ ہر روز یہ سفر پیدل طے کرنے کو تیار نہیں تھا، یہی وجہ ہے کہ وہ سکول چھوڑ کر کراچی مزدوری کرنے چلا گیا۔

باجوڑ کے 265 گاؤں سکول کے بغیر

ضلعی ایجوکیشن آفیسر باجوڑ شیرین زادہ کے مطابق ضلع باجوڑ میں 265 گاؤں ایسے ہیں جہاں یا تو گرلز پرائمری سکول نہیں ہے یا بوائز پرائمری سکول نہیں ہے یا پھر دونوں نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ محکمہ تعلیم ان علاقوں کو سکولوں کے لیے موزوں قرار دیتا ہے جس کی آبادی 800 سے زیادہ ہو۔

بقول شیرین زادہ 265 گاؤں کے علاوہ چھوٹے چھوٹے مزید گاؤں بھی ہیں لیکن وہاں پر انہوں نے سکول بنانے کے لیے سفارشات نہیں بھجوائی ہیں کیونکہ پالیسی کے مطابق سکول اس گاؤں میں بنے گا جس کی آبادی 800 نفوس سے زیادہ ہو۔

لڑکیاں کیوں سکول چھوڑ دیتی ہیں؟

باجوڑ کی تحصیل ماموند کے علاقے ڈبر سے تعلق رکھنے والی حنا گل (فرضی نام) نے پانچویں جماعت تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد سکول اس لیے چھوڑ دیا کہ ان کے گاؤں کے قریب کوئی مڈل سکول نہیں تھا اور جس پرائمری سکول میں وہ زیر تعلیم تھیں وہ بھی ان کے گاؤں سے دو کلومیٹر دور تھا۔

حنا گل نے بتایا: ’دل میں خواہش تھی کہ میں ڈاکٹر بنوں گی لیکن قریب سکول نہ ہونے کی وجہ سے میری یہ خواہش پوری نہیں ہوئی۔‘

یہ کہانی باجوڑ میں صرف حنا گل کی نہیں بلکہ ضلعے کے دور افتادہ علاقوں میں تقریباً ہزاروں لڑکیوں کی ہے، جن کے علاقوں میں گرلز مڈل اور ہائی سکول نہ ہونے کی وجہ وہ تعلیم سے محروم ہیں۔

حنا گل کے والد نے بتایا: ’میری بیٹی کا روزانہ سکول آنا جانا بہت مشکل تھا لیکن اس کے باوجود بھی میری بیٹی نے پانچویں جماعت تک تعلیم حاصل کی۔‘   

ضلع باجوڑ میں تعلیمی اداروں کے فقدان کی وجہ سے اکثر لڑکیاں پرائمری سکول پاس کرنے کے بعد تعلیم چھوڑ دیتی ہیں۔ رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت حاصل کی گئی معلومات کے مطابق باجوڑ میں پرائمری کے بعد لڑکیوں کے انرولمنٹ میں واضح کمی دیکھی گئی ہے۔ 

محکمہ تعلیم کی سال 2022 کی رپورٹ کے مطابق ضلع بھر میں پرائمری سکولوں میں زیر تعلیم لڑکیوں کی تعداد 40509 ہیں۔ مڈل سکولوں میں لڑکیوں کی تعداد 4370، ہائی سکولوں میں 1322جبکہ ہائر سیکنڈری سکول میں تعداد 448 ہے۔

اس حوالے سے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر باجوڑ شیرین زادہ نے بتایا: ’لڑکیوں کی شرح خواندگی کم ہونے کی چار بنیادی وجوہات ہیں۔ ایک وجہ قدامت پسند معاشرہ ہے جس میں پرائمری کے بعد لڑکیاں سکول جانا چھوڑ دیتی ہیں۔ دوسری وجہ کم عمری کی شادی ہے، تیسرا سکولوں کی کمی یا سکولوں کا دور ہونا ہے اور زیادہ تر والدین میں خواتین کی تعلیم کی اہمیت کے حوالے سے آگاہی کی کمی ہونا شامل ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ہر سال پرائمری تعلیم پاس کرنے کے بعد مڈل سکولوں میں لڑکیوں کی تعداد میں کافی کمی آتی ہے۔
 
لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کے سکولوں کی تعداد بہت کم

ضلع باجوڑ میں لڑکوں اور لڑکیوں کے سکولوں کو اگر دیکھا جائے تو لڑکیوں کے سکول لڑکوں کے مقابلے میں بہت کم ہیں۔ 

رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت حاصل کی گئی معلومات کے مطابق ضلعے بھر میں لڑکوں کے پرائمری سکولوں کی تعداد 360 جبکہ لڑکیوں کے پرائمری سکولوں کی تعداد 184 ہے۔ اسی طرح لڑکوں کے مڈل سکولز 64 جبکہ لڑکیوں کے لیے 42 مڈل سکولز ہیں۔ 

لڑکوں کے لیے ہائی سکولز کی تعداد 35 جبکہ لڑکیوں کے لیے صرف 14 ہائی سکولز ہیں۔ آر ٹی آئی ایکٹ کے تحت محکمہ تعلیم باجوڑ سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق باجوڑ میں لڑکیوں کی آبادی لڑکوں سے زیادہ ہے۔

ان معلومات کے مطابق ضلعے میں چار سال سے لے کر 10 سال تک کی عمر کے بچوں کی تعداد 274481 ہے، جن میں سے لڑکیوں کی تعداد 139985 جبکہ لڑکوں کی تعداد 134496 ہے۔ 

ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر باجوڑ شیرین زادہ کا کہنا تھا کہ ماضی میں لڑکیوں کی تعلیم پر کوئی توجہ نہیں دی گئی تھی اور ایک وجہ یہ تھی کہ لوگوں نے لڑکیوں کی تعلیم کو اتنی اہمیت نہیں دی، گذشتہ دو سالوں کے دوران خیبر پختونخوا حکومت نے 12 نئے پرائمری سکولوں کی تعمیر کی منظوری دی ہے، جس پر کام جاری ہے۔ 

’ہم نے ان سکولوں میں ترجیح لڑکیوں کے سکولوں کو دی کیونکہ لڑکیوں کے سکولز بہت کم ہیں۔ ان 12 سکولوں میں نو سکول لڑکیوں کے ہیں جبکہ تین پرائمری سکول لڑکوں کے لیے بنائے جا رہے ہیں۔‘
  
ضلع باجوڑ میں سکول سے باہر بچوں کی تعداد

محکمہ تعلیم باجوڑ کے 2022 میں ہونے والے سروے کے مطابق 86 ہزار 640 بچے سکولوں سے باہر ہیں، جن میں 82 ہزار 135 لڑکیاں ہیں جبکہ چار ہزار 505 لڑکے ہیں۔ 

باجوڑ کی تحصیل نواگئی شریف خانہ کے رہائشی عبد الجواد نے بتایا کہ ان کے علاقے میں گرلز مڈل سکول نہ ہونے کی وجہ سے لڑکیاں پانچویں جماعت کے بعد تعلیم کو خیرباد کہتی ہے۔

ان کا کہنا تھا: ’بہن کے لیے ہر ماہ 10 ہزار سے زیادہ پیسے ایک سوزوکی ڈرائیور کوصرف ٹرانسپورٹ کے مد میں دیتا ہوں۔‘

عبدالجواد کا کہنا تھا کہ شریف خانہ میں لوگ اپنے بیٹیوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنا چاہتے ہیں مگر حکومت کی جانب سے اس گاؤں میں ابھی تک گرلز مڈل سکول قائم نہیں کیا گیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس گاؤں میں زیادہ تربچیاں پیدل سکول جاتی ہیں کیونکہ اس علاقے میں گاڑیوں کی آمد و رفت نہ ہونے کے برابر ہے۔

باجوڑ سے تعلق رکھنے والے سینیئر صحافی انور اللہ خان کا کہنا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 25 اے کے تحت ریاست پانچ سال سے لے کر 16 سال تک کے تمام بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرے گی لیکن باجوڑ کے ہزاروں بچے سکول نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم سے محروم ہیں۔

انوراللہ خان کا مزید کہنا تھا کہ چونکہ قبائلی اضلاع میں تعلیمی اداروں کی کمی کی وجہ سے لڑکیاں دور دراز علاقوں میں قائم سکول نہیں جا سکتیں۔ 

اس میں ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں کے زیادہ تر باشندے ملک کے دوسرے شہروں یا خلیجی ممالک میں محنت مزدوری کے سلسلے میں گھر سے باہر ہوتے ہیں تو ان لڑکیوں کو سکول آنے جانے کے لیے خاص بندوسبت کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کے مطابق صرف ان علاقوں میں بلوغت کے بعد لڑکیاں تعلیم جاری رکھتی ہیں جہاں ہائی سکول ان کے قریب ہو۔ اس کے علاوہ جن علاقوں میں سڑکیں نہیں ہیں وہاں ٹرانسپورٹ کا بڑا مسئلہ رہا ہے اور گاڑیوں کی آمد ورفت کم ہونے کے باعث اکثر لوگ بچیوں کو سکول نہیں بھجواتے۔
 
بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی سماجی تنظیم ’چائلڈ رائٹس کمیٹی‘ کے اہلکار حنیف اللہ نے بتایا: ’ڈراپ آؤٹ یا داخلہ نہ لینے کی وجوہات میں ایک مہنگائی بھی ہے کیونکہ زیادہ تر لوگ تعلیم کا خرچہ برداشت نہیں کرسکتے۔ دور دراز علاقوں میں بچیوں کو سکول آنے جانے کے لیے ٹرانسپورٹ کا خرچہ جو کم ازکم ماہانہ پانچ ہزار تک بنتا ہے، ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’زیادہ تر بچیاں اپنے گھروں کے چولہوں کو جلانے کے لیے علاقے میں خشک لکڑیاں اور کاغذات جمع کرتی ہیں۔‘

صوبائی حکومت کا موقف

باجوڑ میں لڑکیوں کے مڈل اور ہائی سکولوں کی کمی کے حوالے سے  صوبائی برائے سوشل ویلفیئر انور زیب خان کا کہنا تھا کہ باجوڑ میں 40 نئے پرائمری سکولوں کی منظوری حتمی طور پر منظور ہوگئی ہے۔ اس کے علاوہ موجودہ وقت میں 12 سکولوں پر تعمیراتی کام جاری ہیں، جن میں نو سکول لڑکیوں کے لیے اور تین سکول لڑکوں کے لیے ہیں۔ 

انور زیب خان نے بتایا: ’ہماری ترجیح خواتین کی تعلیم کو فروغ دینا ہے کیونکہ ماضی میں خواتین کی تعلیم پر توجہ نہیں دی گئی۔ ہم جو سکول بنائیں گے ان میں اکثریت لڑکیوں کے سکولوں کی ہوگی۔‘

خواتین کی تعلیم کی آگاہی پھیلانے والی ایک تنظیم کی بانی وگمہ فیروز نے باجوڑ میں لڑکیوں کی شرح خواندگی کم ہونے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے بتایا: ’ان علاقوں میں شرح کم ہونے کی کئی وجوہات ہیں جن میں سے ایک وجہ طالبانائزیشن کا خوف بھی ہے کیونکہ ماضی میں طالبان کی وجہ سے لڑکیاں سکول نہیں جاتی تھی اورابھی کچھ لوگوں میں خوف موجود ہے۔‘

بقول وگمہ: ’زیادہ ترعلاقوں میں سکول نہیں ہیں اور سکولوں کی کمی بھی بنیادی وجوہات میں سے ایک ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ضم اضلاع میں علاقائی رسم و رواج بھی خواتین کے تعلیم کی حصول میں ایک رکاوٹ ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس