’پی ٹی آئی اراکین کو نیب کے نوٹس ریاست کی توہین‘

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر اطلاعات چوہدری فواد حسین نے کابینہ اراکین کو نیب کی جانب سے نوٹس جاری کیے جانے کو آئین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔

11  اپریل 2022 کی اس تصویر میں پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری(بائیں) اور حماد اظہر (دائیں) اسلام آباد میں سپریم کورٹ کی عمارت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے (اے ایف پی)

پاکستان تحریک انصاف نے قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے سابق وزیراعظم عمران خان کی کابینہ کے اراکین کو نوٹس بھیجے جانے کو ’ریاست اور اس کے منتخب اداروں کی توہین‘ قرار دیا ہے۔

نیب نے یہ نوٹس برطانیہ سے 19 کروڑ برطانوی پاؤنڈز کی ملک میں منتقلی کے سلسلے میں بھیجے ہیں۔

جمعرات کی شام ٹوئٹر پر ایک پیغام میں پاکستان تحریک انصاف کے رہنما چوہدری فواد حسین کا کہنا تھا کہ کابینہ اپنے فیصلوں کے لیے انتظامیہ کے کسی ادارے کو جوابدہ نہیں ہے۔

انہوں نے ٹویٹ میں مزید کہا: ’کابینہ اپنے فیصلوں میں اگر کسی ادارے کو جواب دہ ہے تو وہ صرف پارلیمان ہے۔‘

چوہدری فواد حسین نے کہا کہ پارلیمان کے علاوہ کسی دوسرے (انتطامیہ کے) ادارے کا کابینہ اراکین کو طلب کرنا آئین کی خلاف ورزی ہے۔ ’حکومت سے کہتا ہوں اپنے انتقام کے لیے اداروں کا بیڑہ غرق نہ کریں۔‘

فواد حسین ان دو درجن سے زیادہ سابق وفاقی وزرا میں شامل ہیں، جنہیں قومی احتساب بیورو نے طلبی کے نوٹس ارسال کیے ہیں۔

نیب تحقیقات

نیب ذرائع کے مطابق برطانیہ سے پاکستان منتقل اور نجی بینک اکاؤنٹس میں جمع ہونے والے 19 کروڑ برطانوی پاؤنڈ سے متعلق تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں اور پاکستان تحریک انصاف کی سابق حکومت کے کابینہ اراکین کو نوٹس جاری کر دیے گئے ہیں۔

ذرائع نے بتایا کہ اب تک سابق حکومت کے 21 وفاقی وزرا کو نوٹس جاری کر کے انہیں الگ الگ تاریخوں پر پیش ہونے کی ہدایات کی گئی ہیں۔ 

پاکستان تحریک انصاف کی سابق حکومت میں کابینہ کے ایک رکن نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں تقریباً دو درجن کابینہ اراکین کو نوٹس بھیجے جانے کی تصدیق کی ہے۔

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انہوں نے کہا کہ نیب نے مختلف اراکین کابینہ کو مختلف تاریخوں پر پیش ہونے کی ہدایت کی ہے۔

نیب ذرائع کے مطابق سابق وفاقی وزرا مراد سعید اور غلام سرور خان کو 11 اکتوبر کو طلب کیا گیا ہے جبکہ سابق وزیر دفاع پرویز خان خٹک کو 12 اکتوبر اور سابق وفاقی وزرا حماد اظہر اور زبیدہ جلال کو 13 اکتوبر کو پیش ہونے کے نوٹس بھیجے گئے ہیں۔

 سابق وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود اور سابق وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری کو 14 اکتوبر کو طلب کیا گیا ہے جبکہ اعجاز شاہ کی حاضری کی تاریخ 17 اکتوبر مقرر کی گئی ہے۔

علی امین گنڈاپور اور علی زیدی 18 اکتوبر کو نیب کے دفاتر میں حاضری دیں گے۔

سابق وفاقی وزیر ریلوے اعظم خان سواتی اور سابق وزیر خزانہ اور منصوبہ بندی اسد عمر کو 20 اکتوبر اور وفاقی وزرا عمر ایوب خان اور محمد میاں سومرو کو 21 اکتوبر کو نیب نے طلبی کے نوٹس ارسال کیے ہیں۔

سابق وفاقی وزیر اطلاعات چوہدری فواد حسین کو 24 اور صاحبزادہ محبوب سلطان اور فیصل واوڈا کو 25 اکتوبر کو طلب کیا گیا ہے۔

نیب نے جن سابق وفاقی وزرا کو طلبی کے نوٹس بھیجے ہیں، ان میں پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں کے علاوہ اتحادی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے کابینہ اراکین بھی شامل ہیں۔

متحدہ قومی مومنٹ (ایم کیو ایم) سے تعلق رکھنے والے خالد مقبول صدیقی کو 17 اکتوبر اور فروغ نسیم کو 18 اکتوبر کے لیے طلبی کے نوٹس بھیجے گئے ہیں۔  

جنوبی پنجاب اتحاد کے خسرو بختیار کو 19 اکتوبر کو نیب میں پیشی کا کہا گیا ہے۔

سابق وزیر داخلہ اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد کو بھی نیب نے طلبی کا خط ارسال کیا ہے، ان کی پیشی کی تاریخ 24 اکتوبر مقرر کی گئی ہے۔

پیسے کہاں سے آئے؟

سال 2019 میں سابق وزیراعظم عمران خان حکومت کی وفاقی کابینہ کے اسلام آباد میں منعقدہ ایک اجلاس میں وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کو ایجنڈا کے برعکس ایک آئٹم پیش کرنے کی اجازت دی گئی۔

شہزاد اکبر نے کابینہ سے بند لفافے میں موجود کروڑوں روپے کے ایک معاہدے کی منظوری طلب کی۔

انہوں نے کابینہ اراکین کو بتایا کہ لفافے میں ایک خفیہ معاہدہ ہے جو برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) اور پاکستان کے ایک پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کے درمیان تصفیے سے متعلق ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بعض اطلاعات کے مطابق بعض کابینہ اراکین نے بغیر تفصیلات جانے منظوری مانگنے اور دینے پر اعتراض بھی اٹھایا تھا۔

بعد ازاں اس معاملے سے متعلق جو تفصیلات منظر عام پر آئیں ان کے مطابق این سی اے نے پاکستانی پراپرٹی ٹائیکون سے لندن میں ہائیڈ پارک کے سامنے واقع 50 ملین پاؤنڈ کے مینشن سمیت 19 کروڑ پاونڈ (39 ارب پاکستانی روپے) سے زیادہ کے اثاثے ضبط کیے تھے۔

نیشنل کرائم ایجنسی نے کہا تھا کہ ملک ریاض حسین نے ملٹی ملین پاؤنڈ کے تصفیے پر رضامندی ظاہر کی ہے، تاہم یہ معاہدہ جرم کی تلاش میں نمائندگی نہیں کرتا۔

نیشنل کرائم ایجنسی کے تفتیش کاروں نے کہا کہ ان الزامات کے بعد نقد رقم جرم سے حاصل کی گئی ہو سکتی ہے۔

کابینہ کی منظوری کے چند دن بعد سابق وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے احتساب اور سابق وفاقی وزیر مراد سعید نے میڈیا کو بتایا تھا کہ مذکورہ رقم پاکستان پہنچی اور اسے سپریم کورٹ آف پاکستان کے اکاؤنٹ میں جمع کروا دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ سے ایک درخواست کے ذریعے مذکورہ رقم وفاقی حکومت کے حوالے کیے جانے کی استدعا کی گئی ہے۔

بعد ازاں وفاقی حکومت نے تصدیق کی کہ مذکورہ رقم میں سے 14 کروڑ برطانوی پاؤنڈ وفاقی حکومت کے بینک اکاونٹ میں منتقل کر دیے گئے ہیں، جبکہ پانچ کروڑ پاؤنڈ لندن کے ہائیڈ پارک میں ملک ریاض کی جائیداد کی فروخت کے بعد منتقل کی جائے گی۔

تاہم شہزاد اکبر رقم کے سپریم کورٹ کو دیے جانے سے متعلق ابہام کی وضاحت نہیں کر پائے تھے۔

انہوں نے کہا تھا: ’ہم (حکومت پاکستان، این سی اے اور ملک ریاض) نے رازداری کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں، اس لیے میں اس سے زیادہ تبصرہ نہیں کرسکتا جو حکومت اور این سی اے کی سرکاری پریس ریلیز میں پہلے ہی پیش کیا گیا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان